گیدڑ ایک مدت سے انتظار میں تھے
کہ کوئی انھیں ایسے کھیت کا راستہ دکھا سکے جہاں تازہ خربوزے مل سکیں . ایک
مدت سے انہیں ایسے خبری کی تلاش تھی جو اس علاقے کو اچھے سے جانتا ہو . ایک
روز اس گروہ کو کسی گیدڑ نے بتایا کہ جنگل میں ایک انہی کی نسل کا گیدڑ
رہتا ہے اور کسی زمانے میں وہ اس علاقے میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے بہت
مشہور تھا مگر پھر وہ انہی حرکتوں کی بھینٹ چڑھ گیا اور اسے گیدڑوں کے گروہ
سے لاتعلق قرار دیا گیا . گیدڑوں کے اس گروہ نے سر جوڑے اور فیصلہ کیا کہ
وہ ہر صورت اس خبری گیدڑ کو واپس لے کر آئیں گے اور ان کھیتوں تک رسائی
حاصل کریں گے جہاں تازہ خربوزے کاشت کیے جاتے ہیں . چونکہ وہ خبری گیدڑ جلا
وطنی جیسی کیفیت میں تھا اس لیے باقی گیدڑوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اسے
ایسا پیکیج دیں کہ وہ ماضی کو بھول کر ان کی ضرورتوں کو پورا کر سکے .
گیدڑوں کا ایک وفد جنگل میں خبری گیدڑ کو ملنے گیا اور انہوں نے اس سے اسکی
خواہشات کی ایک فہرست طلب کی تاکہ وہ اسے واپس اپنے سماج میں جگہ دے سکیں .
خبری گیدڑ کی ایک اور فقط ایک خواہش تھی جس کی تکمیل کے بعد وہ کسی بھی قسم
کی خبر ان تک پہنچانے کے لیے تیار تھا . خواہش تو فقط ایک تھی مگر ایسی کہ
سب حیران رہ گئے . خبری گیدڑ نے کہا " مجھے گیدڑوں کا سردار بنا دو ، جہاں
کہو گے میں لے چلوں گا ".
گیدڑوں کے وفد نے فیصلہ کیا کہ اس کی اس خواہش کو پورا کر دیتے ہیں اور جب
یہ فصل ختم ہو جائے گی تو وہ کوئی اور طریقہ سوچیں گے . لہٰذا خبری گیدڑ کو
تمام اعزازات کے ساتھ گروہ میں شامل کیا گیا اور اسکی تاج پوشی کے طور پر
اسکی دم سے ایک لوہے کا ڈبہ باندھ دیا گیا تاکہ جب وہ آئے تو سب کو خبر ہو
جائے کہ سردار آ رہا ہے . خبری گیدڑ نے اپنی نشاندھی کا کام شروع کیا اور
خربوزے کی فصلوں کا مزہ اس گروہ نے خوب دل کھول کے لوٹا . اب موسم بدل رہا
تھا فصل اپنے آخیر کو پہنچی اور گیدڑوں کے گروہ نے فیصلہ کیا کہ اس سردار
سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے . گیدڑوں کے گروہ میں جس گیدڑ نے لوہے کے ڈبے
والا مشوره دیا تھا اسی نے چھٹکارے کا طریقہ بھی بتا دیا . ایک روز جب سب
گیدڑ خربوزے کے شکار پہ تھے تو اس سیانے گیدڑ نے سردار کو اپنے ساتھ چلنے
کو کہا ، سردار چونکہ اسے ملنے والے تاج نما ڈبے پہ سیانے گیدڑ کا شکر گزار
تھا لہٰذا وہ اسی کے ساتھ چلتا رہا . شکار ختم ہو چکا تھا ، رات کافی گہری
تھی اور کچھ گیدڑ ان دونوں کے آگے آگے چل رہے تھے . سیانے گیدڑ نے راستے
بدل لیا ، سردار نے اسکی وجہ پوچھی تو وہ بولا کہ گیدڑوں کے گروہ نے سردار
کی خدمات کے اعتراف میں اسے ایک انعام دینے کا سوچا ہے اسی لیے وہ اسے ایک
ایسی جگہ لے جا رہے ہیں جہاں اس کی تقریب ہے . لالچ سردار کی نس نس میں تھا
اور وہ چونکہ سردار ہی رہنا چاہتا تھا اس لیے اس نئے انعام کے لالچ میں وہ
یہ بھی بھول گیا کہ دن چڑھنے والا ہے اور آس پاس کے علاقوں کے انسان بیدار
ہو جائیں گے . آگے چلنے والے گیدڑوں نے تھوڑے دور جا کے سردار کی دم
جھاڑیوں میں پھنسا دی اور سیانہ گیدڑ باقی چند کے ساتھ غائب ہو گیا .
سردار گیدڑ پریشانی میں چلاتا رہا یہاں تک کہ علاقے کے لوگ جاگے اور کسی نے
اس گیدڑ کو اپنی گولی کا نشانہ بنا دیا. کتنی اچھی کہانی ہے اور کتنی سچی
بھی . آج پاکستان پھر سے افسردہ ہے ، پاکستان کے کھیتوں میں ایک مدت سے
کوئی سرداری کا خواہش مند گیدڑ بیرونی گیدڑوں کے ساتھ مل کر ایک لوٹ مار کا
بازار گرم کیے ہے . کراچی کی صورتحال سوات جیسی لگتی ہے جہاں کچھ سال پہلے
آگ اور خون کی منظرکشی نے پاکستان کی سالمیت پہ ایک داغ لگایا تھا . آج
کوئی آنکھ کرب کے مارے روتی بھی نہیں ہے کیونکہ جذبات میں اب کرب اسقدر
سراہیت کر گیا ہے کہ صدمے پہ صدمے نے پوری قوم کو حیرانگی کی لپیٹ میں جکڑا
ہوا ہے اور اندرونی گیدڑ بیرونی گیدڑوں کے ساتھ پاکستان کے کھیت کھلیان
اجاڑتے اجاڑتے آگے بھڑتے بھڑتے سرحدی علاقوں سے شہروں میں لوٹ مار کرتے ہیں
اور بھاگ جاتے ہیں .
چلیں بات آسان کرتے ہیں ، میں کالم نگار نہیں میری روٹی روزی کالموں سے
نہیں آتی اور نہ ہی میں نے کسی کو خوش کرنا ہوتا ہے . آج سارا دن جنازے کا
دن تھا ، لاشیں اتنی نہ تھیں جتنے سوگوار مناظر تھے . سیلاب ، زلزلے اور
دیگر آسمانی اور قدرتی آفات میں لاکھوں رب کو پیارے ہو گئے ہم روئے اور پھر
اسے امر ربی سمجھ کر خاموش ہو گئے . جنگیں ہوئیں ہزاروں فرزندان پاکستان کے
جسد خاکی پرچم میں لپٹے گھروں کو لوٹے ہم روئے مگر اسے ان شہیدوں کا مقدر
اور انعام سمجھ کر فخر محسوس کیا اور چپ ہو گئے. حکومتوں میں شامل پتھر دل
ظالم حکمرانوں کے جلسوں میں بم دھماکوں میں سینکڑوں مرے ہم نے افسوس کیا
اور ان لوگوں کی بیوقوفی کا غم منایا اور چپ ہو گئے مگر آج جو ہوا وہ نہ تو
ظلم ہے، نہ ہی بیوقوفی اور نہ ہی کوئی حادثہ .........
آج کراچی میں ہونے والا حملہ صرف اس فلم کا ٹریلر ہے جسے جلد بڑے پردہ
سکرین پہ دکھایا جائے گا اور اس کے اہم کرداروں میں نمایاں کردار ان گیدڑوں
کا ہو گا جو فی الحال باہر بیٹھے ہیں . آج دن کے واقعات کے بعد ایک چیز اور
صاف صاف نظر آنا شروع ہو گئی ہے کہ وہ گیدڑ جو سرداری کے لالچ میں نشاندھی
کرنے گئے تھے جلد انکی دم کو جھاڑیوں میں الجھایا جائے گا اور چونکہ افغان
کھیتوں کی فصل کا وقت ختم ہو گیا ہے اس لیے نئے گیدڑ تلاشے جا چکے ہیں .
اسی لیے وہ واپسی کی تاریخیں دے رہے ہیں اور ایک نظام اور طریقے سے لوگوں
کے دلوں سے اور ذہنوں سے ان کے محافظوں کی عزت اور مذھب سے تعلق کو ختم
کروایا جا رہا ہے .
تیرہ شہیدوں اور ماضی کے ہزاروں شہیدوں کی قربانی اللہ قبول کرے مگر ابھی
بھی قوم جاگی نہیں ہے اور قوم جاگے گی بھی نہیں کیونکہ نشاندھی کرنے والے
گیدڑ باہر سے نہیں ہیں اور سب ان کو جانتے ہیں مگر یہ سوچ کر تھوڑا افسوس
کر کے پھر سو جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہیں اور ایسی قوم کے کھیت کیا
سب کچھ ہی لٹ جاتا ہے اور انھیں کچھ فرق نہیں پڑتا .
کچھ روز قبل امریکہ کے کسی اخبار میں ایک کالم چھپا مجھے کالم نگار کا نام
یاد نہیں مگر اس خاتون نے ایک لائن سے اپنے کالم کا آغاز کیا جو پاکستان پہ
سو فیصد صادق آتی ہے ، خاتون کالم نگار لکھتی ہے " انھیں تب تک پیٹوں کہ جب
تک وہ سدھر ناں جائیں". اگر ایسا ہے تو ابھی نا جانے کتنے اور حادثات اس
ملک کا مقدر بنیں گے کوئی نہیں کہہ سکتا . بس اللہ ہی رحم کریں .... |