کرونا وائرس

تعارف: ابھی 2019 ء کا اختتام نہیں ہوا تھا کہ افواہیں اڑنا شروع ہو گئیں کہ ہر صدی کے اکیسویں برس کوئی نہ کوئی عجیب سی بیماری دنیا کو گھر کر لیتی ہے چنانچہ 1720 ء فرانس میں بیوبونک پلیگ نے جنم لیا جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے کئی ممالک میں پھیل گئی اور ایک لاکھ لوگ اس کا شکار ہو گئے اور زندگی کی بازی ہار گئے ۔ سو سال مزید گزرے توہسپانوی فلو کا قصہ شروع ہوا دنیا کی ایک تہائی آبادی اس وبا کی لپیٹ میں آگئی اور پانچ کروڑ سے زائد افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ۔ 2020 ء میں چین کے دامن میں ایک خطرناک وائرس اپنے پنجے تیز کر رہا تھا۔

کرونا کی ابتداء: یہ کہانی چین کے شہر ووہان کے ایک بازار سے شروع ہوئی جہاں قسم قسم کے جانور فروخت ہوتے تھے۔ یہ بیمایر کسی حرام جانور کے گوشت کھانے سے انسان کے جسم میں داخل ہوئی۔ ووہان وسطی چین کے صوبے ہوبائی میں واقع ایک کثیر آبادی والا شہر ہے ۔ نومبر یا دسمبر میں پیدا ہونے والی اس بیماری کو چینی حکومت نے چھپانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن جنوری 2020 ء میں چین نے کرونا وائرس کا باضابطہ اعلان کر کے دنیا کو اس خطرناک بیماری کے پھیلاؤ کی اطلاع دے دی ۔ البتہ ماہرین کا خیال ہے بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس وائرس کو لے کر بعض غیر ملکی مسافرین اپنے و طن لوٹ چکے تھے مارچ کے مہینے میں یہ بیماری یورپ کے بعض ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو ایک وبا قرار دے دیا اور اس وبا سے سب سے زیادہ کیس امریکا میں رپورٹ ہوئیں اور سب سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئیں، برازیل ، بھارت اور روس میں بھی اس وبا کے ختم ہونے کے آثار نہیں ملے۔ سعودی عرب حکومت نے حج کو محدود کر نے کا اعلان کردیا۔ انگلینڈ جیسے ممالک نے اپنے شہریوں کے لئے پبلک مقامات پر ماسک لگانا لازمی قرار دے دیا۔

کرونا وائرس کیا ہے ؟ : اس وائرس کا لاطینی نام ’’ کرونا ‘‘ ہے اس لئے پڑا کیونکہ اس کی شکل ایک تاج سے ملتی جلتی ہے ۔ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے ۔کورونا وائرس درحقیقت جراثیم کی ایک لمبی چوڑی فیملی ہے اس سے تعلق رکھنے والی پچھلی وباؤں کے نام ’’سارس‘‘ اور ’’مرس‘‘ ہے۔

یہ جراثیم انسانی پھیپھڑوں پر حملہ کر کے نظم تنفس کو معطل کر دیتے ہیں جس کے باعث سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے ۔ لیکن یہ محض ایک سطحی معلومات ہے اس وائرس کا حقیقی نقصان کیا ہے اور جسم کو کن طریقوں سے پیر شان کرتا ہے۔ سائنسدان فی الحال کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس بناء پر یہی کہا جا رہا ہے اس وائرس کی ویکسین اگلے برس ہی تیار ہو سکے گی ۔
کرونا وائرس کیسے ہوتا ہے: یہ بیماری آپ کے پہلے کسی بیمار شخص سے ہی منتقل ہو سکتی ہے ۔ اگر کوئی مریض اپنے ہاتھ پر چھینک دے اور ہاتھ دھوئے بغیر کسی صحتمند انسان سے مصافحہ کر لے تو اس صحتمند شخص کو کرونا منتقل ہو جائے گا اگر وہ صحتمند آدمی ہاتھ ملنے کے بعد اپنے ہاتھ کو اچھے سے دھولے تو اس وائرس سے بچ جائے گا۔ چنانچہ آدھی منٹ تک ایک اچھے صابن کے ساتھ ہاتھ دھونا ضروی ہے ۔ چھینک آئے تو کوئی کپڑا یا رومال استعمال کریں اور استعمال کرنے کے بعد اسے پھینک دیں۔ اگر بیماری ہو جائے تو عام طور پر لوگ کچھ دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ البتہ طبیعت زیادہ خراب ہو تو ہسپتال جانا پڑتا ہے ۔

آثار اور بچاؤ: کورونا وائرس کی علامات میں کچھ چیزیں شامل ہیں۔ بخار ، خشک کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف محسوس کرنا اور دم کھٹنا ، بوڑھے لوگ اس بیماری کا شکار با آسانی ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو وہ عمر رسیدہ ہیں اور دوسرے یہ کہ انہیں پہلے سے کسی قسم کے عارضے لاحق ہوتے ہیں چنانچہ کسی کو دمہ ہو یا کوئی ذیابطیس کا مریض ہو تو اسے کرونا وائرس سے خاص طور پر بچنا چاہیے کرونا کی وبا سے بچنے کی خاطر عالمی ادارہ صحت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں۔ ہاتھ کو دھونا اپنی عادت بنالیں، باہر جاتے وقت ماسک ضرور لگائیں۔ لوگ آپس میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ یاد رکھئے کرونا آپ کے گھر نہیں آتا آپ اسے لینے باہر جاتے ہیں اس لئے گھروں سے غیر ضروری باہر نہ نکلیں۔ امریکہ میں لوگوں کی غیر احتیاطی کی وجہ سے اتنے لوگ کرونا سے مر گئے۔ چنانچہ ڈاکٹروں کی ہدایات کو سنجیدگی سے لیں اور کم از کم اپنے گھر کے بوڑھے افراد کا خیال کرتے ہوئے ماسک لگائیں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mishaal Akram
About the Author: Mishaal Akram Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.