بھٹو خاندان۔۔برصغیر پاکستان و ہند کی تقسیم سے
پہلے کی بات ہے کہ ہندوستان کے گاؤں "بھاٹو کالان" ہریانہ میں ایک شاہنواز
نامی غریب شخص رہتا تھا۔ خاندان کسمپرسی کی زندگی گزار رہا لیکن یہ شخص
چالاک بہت تھا اور انگریز بہادر کے گھر کے کتے اور گھوڑے نہلانے اور مالش
کرنے کے کام پر مامور ہوا۔ فارغ وقت میں مسلمان حریت پسندوں کی مخبری بھی
کرتا تھا۔
مسلمان آزادی کے لیے زیر زمین تحریک چلا رہے تھے۔ انہوں نے شاہنواز کو
اپنے گروہ میں شامل کیا اور ضلع کے انگریز حاکم پر حملے کا منصوبہ بنایا
مگر عین وقت پر سب پکڑے گئے اور ان کو سرعام پھانسی دی گئی۔ حیران کن طور
پر شاہنواز اس دن غائب تھا اور پھر چند دنوں میں اسے جونا گڑھ بھیج دیا گیا
جونا گڑھ انگریز بہادر کا سفارشی خط لے کر پہنچنے والے لڑکے نے اپنا تعارف
جونا گڑھ کے نواب سے بطور شاہنواز آف بھاٹو کرایا اور اسے برٹش سرکار کے
آرڈر مطابق جونا گڑھ محل کا 'پرسر' مقرر کر دیا گیا۔ مگر شاہنواز کے ارادے
کچھ اور تھے اور بہت جلد اس نے نواب محل میں تانے بانے بن لیے !
نوابی چپقلش میں نواب آف جونا گڑھ پر حملہ ہوا جس میں شامل شخص کو بھاٹو
کی مخبری پر گرفتار کیا گیا۔ نواب نے خوش ہو کر بھاٹو کو محل کی کوتوالی کا
انچارج لگا دیا اس طرح شاہنواز کا محل میں آنا جانا آسان ہو گیا۔ ایک محفل
میں بھاٹو کو ہندو لکھی بائی پسند آ گئی، جو نواب آف جونا گڑھ کی رکھیل
یعنی رقاصہ اور آسان الفاظ میں طوائف تھی۔ جو بعد میں خورشید بھاٹو بنی (
ذوالفقار علی بھٹو کی ماں) -
لکھی بائی کا خاندان انگریزوں کی نوکری کرتا تھا اور نواب آف جونا گڑھ نے
اس طوائف کو بھاٹو کی طرف بھیجا تاکہ پاکستان میں بھیجا جا سکے اور بھاٹو
نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس شادی کے نتیجے میں شاہنواز
جونا گڑھ کے دیوان یعنی پرائم منسٹر کا عہدہ پا گیا۔
بھاٹو عملی طور پر میدان میں ایک طرف جونا گڑھ اسٹیٹ کا وزیراعظم دوسری
طرف انگریزوں کا پٹھو مکمل طور پر جاسوسی کر رہا تھا۔ تحریک آزادی پاکستان
زوروں پر اور جونا گڑھ کو 23 مارچ کی قرارداد کے تحت پاکستان میں شامل ہونا
تھا جس کی بھاٹو نے سخت مخالفت کی اور ایک خط ہندو اسٹیبلشمنٹ کو لکھا -
اس خط کے نتیجے میں جونا گڑھ ریزیڈینسی کو پاکستان کے متوقع نقشے سے الگ
کر دیا گیا اور انڈیا میں شامل کر دیا گیا ۔ مسلمان بپھر گئے گورا پلٹن پر
حملہ کر دیا، بھاٹو ساب کو موت نظر آئی تو فورا "ممبئی لکھی بائی یعنی اپنے
سسرال پہنچے جہاں کچھ دن چھپے رہے پھر دوستوں کی صلاح پر مسلم لیگ کے ممبر
بن گئے اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناح رحمت اللہ کے علم میں نہ تھا کہ
موصوف بھاٹو جو اب بھٹو تھے کتنا بڑا چھرا پاکستان کی پیٹھ میں گھونپ چکے
تھے !
ممبئی سے کراچی تشریف آوری ہوئی۔ مسلم لیگ کو خوب چندہ دیا، ان زیوارات
ہیرے موتیوں کو بیچ بیچ کر جو جونا گڑھ سے چرا کر لائے تھے - کراچی کے ایک
کیفے میں حاکم زرداری سے ملاقات ہوئی !
کسی مسلم لیگی نے پہچان لیا، بات ہاتھا پائی تک پہنچی، قائداعظم محمد علی
جناح رحمت اللہ کو تب علم ہوا کہ وہ جونا گڑھ بھاٹو یہی بھٹو ہے مگر موقع
کی نزاکت جان کر کچھ نہیں کہا البتہ نجی محفل میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار
کیا، ایک موقع پر جب قائداعظم محمد علی جناح رحمت اللہ سے سندھی میں بات کی
تو انہوں نے جھڑک دیا کہ سب نہیں سمجھتے اس لیے اردو بولیں !
اس واقعے نے شاہنواز کو ڈرا دیا کراچی سے گوٹھ لاڑکانو منتقل ہو گیا-
تاریخ بتاتی "شیتو" نامی ہندو جو مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں ٹیکس
بچانے کے لیے مسلمان ہوا اسے یہ زمین دی گئی اور وہی شاہنواز بھٹو کا لگڑ
دادا تھا - یہ خان کب کیسے ہوئے اللہ جانتا !
جونا گڑھ کے سمیٹے خزانے اور انگریزوں کی وفاداری نے بہت ساتھ دیا اور
کالان کا بھاٹو لاڑکانو کا سر شاہنواز بھٹو خان بہادر بن گیا۔
سر شاہنواز بھٹو نے جوناگڑھ کو بیچا پھر ان کےصاحبزادے ذوالفقار بھٹو نے
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر چھوڑا ( اُدھر تم ادھر ہم ) ۔۔۔۔ بنگال
ہی ڈبو دیا !
~ لوگ معاف کر بھی دیں مگر تاریخ معاف نہیں کرتی
|