مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ٹھیک ایک سال
بعدہم نے کشمیریوں سے اظہاریکجہتی اوربھارتی اقدام کے خلاف یوم استحصال
بنایاحکومت نے پانچ اگست کے حوالے سے کچھ پھرتیاں دکھائیں مظفرآبادجانے
والی سڑ ک کانام کشمیرہائی وے سے تبدیل کرکے سری نگرہائی وے رکھ دیا حریت
رہنماء سیدعلی گیلانی کونشان پاکستان دینے کااعلان کیا ،ملک بھرمیں ریلیاں
،کانفرنسیں اوراجتماعات منعقدہوئے ،اورسب سے بڑھ کرمقبوضہ جموں و کشمیر کو
پاکستان کے نقشے میں شامل کرکے نیا نقشہ اقوامِ متحدہ میں پیش کرنے کا
اعلان کر دیامگرسوال یہ ہے کہ اس سے کشمیریوں کوکیاریلیف ملا؟
وہ کشمیری جوگزشتہ ایک سال سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بندہیں جو
آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کے بعدنئے بھارتی جبروہتھکنڈوں کاشکارہیں وہ
محصوراورمجبورکشمیری جنھوں نے قربانیوں کی تاریخ رقم کردی ہے انہوں نے اپنی
آزادی کے لیے کوئی کسرنہیں چھوڑی ،نولاکھ انڈین فوج کے سامنے ان کے پائے
استقامت میں ذرہ بھربھی لغزش نہیں آئی ،حریت قیادت کوقیداورنظربندکرنے کے
باوجودان کی مزاحمت کاسلسلہ جاری ہے ایک سال کے دوران بھارتی فوجیوں نے 217
کشمیریوں کو شہید کیا جن میں 4 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔ بھارتی فوج کی
جانب سے طاقت کے استعمال کی وجہ سے کم سے کم ایک ہزار افراد شدید زخمی ہوئے
۔اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر کو کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا مگرہرکشمیری
اپنے مؤقف پرپہلے سے بڑھ کرزیادہ استقامت اورسختی سے کھڑاہے اس کشمیری کوہم
نے کیادیا؟
کشمیریوں ایک وکیل اورمددگارپرآسراتھا مگرگزشتہ ایک سال میں انہوں نے وکیل
کی خاموشی کودیکھتے ہوئے فیصلہ کیاکہ وہ کسی آسرے کی بجائے اپنی تحریک جاری
رکھیں گے ،کشمیری خاص طور پر نوجوان محسوس کررہے ہیں کہ کشمیر اور نئی دہلی
کے درمیان کسی بھی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں رہااور اب ان کے سامنے صرف دو
ہی انتخاب ہیں۔ نئی سیاسی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈالنایا اس کے خلاف مزاحمت
۔ چنانچہ ایک سال میں کشمیریوں نے پہلے سے بڑھ کرقربانیاں دیں ،مودی یہ
سمجھتاتھا کہ عمران خان کی کمزورکشمیرپالیسی کی وجہ سے وہ کشمیریوں کے جذبہ
حریت کوسردکردے گا مگرکشمیری نوجوان بھارت کے ناپاک عزائم کے سامنے پہاڑ بن
کرکھڑے ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مودی حکومت کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے
باوجود بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے ۔
اس مزاحمت کودیکھتے ہوئے بھارتی فوج نے چن چن کرکشمیری حریت پسندرہنماؤں
کوشہیدکرنے کاسلسلہ شروع کیا امسال 6مئی کو پلوامہ میں حزب المجاہدین کے 40
سالہ چیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکوکو شہیدکیا انھیں 2016 میں شہید ہونے
والے کمانڈر برہان وانی کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ برہان وانی کی شہادت کے
بعد ہی کشمیر میں مزاحمت اور احتجاج کی نئی لہر شروع ہوئی تھی۔ جنوبی کشمیر
میں ضلع اننت ناگ میں مظفر احمد بھٹ سمیت چار مجاہدین کوشہیدکیا،25 جنوری
کوپلوامہ ضلع کے ترال میں قاری یاسر سمیت تین مجاہدین کوشہیدکیاگیا،23
جنوری کو ضلع پلوامہ کے علاقے کھریو میں کمانڈر ابو سیف اﷲ عرف ابو قاسم کی
شہادت ہوئی۔9 اپریل کو سجاد نواب ڈار کو شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے
سوپور میں شہید کردیا۔جموں و کشمیر کے ڈوڈہ کے علاقے گنڈانہ میں 15 جنوری
کو ہارون وانی کی شہادت ہوئی۔28اپریل کو انصار غزوہ الہند کے ڈپٹی کمانڈر
ابوبکر برہان شہید ہوئے۔20مئی کوکل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما
محمد اشرف صحرائی کے بیٹے جنید صحرائی شہید کردیاگیا۔
یہ قربانیاں بتارہی ہیں کہ کشمیری تھکے ہیں اورنہ جھکے ہیں ، ہمارے
وزیراعظم بڑے فخرسے اپنا126دن کادھرنے کابتاتے ہیں جودھرناکم اورناچ گانے
کاپروگرام زیادہ تھا اس کے مقابلے میں کشمیری بھارتی سنگینوں کے سائے تلے
365دن سے دھرنادیئے بیٹھے ہیں مگرہم کشمیریوں سے اٹھکیلیاں کررہے ہیں ، خان
صاحب آپ 365یا126د ن نہیں کشمیرکی آزادی کے لیے عالم اسلام کے رہنماؤں کے
ساتھ مل کراقوام عالم کے سامنے صرف تین دن کادھرناتو دیں ،شایدآپ کوبھی کچھ
احساس ہواوردنیاکاضمیربھی جاگ جائے ،ورنہ آپ کے نمائشی اقدامات کاکشمیریوں
کوئی فائدہ نہیں ۔
پانچ اگست 2019جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر اور لداخ کی آزاد حیثیت ختم کردی
تو وزیر اعظم عمران خان نے کشمیریوں کے عالمی وکیل بننے کا اعلان کیامگرایک
سال میں انہوں نے کشمیریوں کی کیسی وکالت کی اس کااندازہ اس لے
لگایاجاسکتاہے کہ پہلے پہل تو جمعہ کے جمعہ احتجاج شروع کیا مگر وہ بھی جلد
ہی ختم بھی ہوگیا۔پھرپارلیمنٹ میں کشمیریوں کے حق میں روایتی قراردادوں
اوربازوں پرکالی پٹی باندھنے کے اقدامات شروع ہوئے جس سے کشمیریوں کومایوسی
ہوئی آزادکشمیرکے عوام میں وفاقی حکومت کے اقدمات کے کے خلاف اشتعال
پیداہواتو وزیر اعظم نے مظفرآباد میں کھڑے ہوکر کہا جلد بتاوں گا لائن آف
کنٹرول کی طرف جانا ہے یا نہیں،مگرتھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے اپنے اعلان
سے یوٹرن لیتے ہوئے کہاکہ جو لائن آف کنٹرول کی طرف جائے گا کشمیر کاز سے
غداری کرے گا۔
لے دے کے حکومت کے پاس وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی ایک تقریرہے اس
ایک تقریر کے بعد حکومت کشمیریوں سے منہ موڑکرلمبی تان کرسوگئی ،ابھی حال
ہی میں انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا،
اورپاکستان نے انڈیاکی حمایت کی ۔حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایک صفحے پر لا
کر دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی بجائے کشمیر آوور اور ایک منٹ کی
خاموشی ٹائپ نمائشی سرگرمیوں تک معاملات کو محدود کر دیا گیا۔پانچ اگست کے
بعد سے اب تک کشمیر پالیسی پر تمام سیاسی جماعتوں کے یکساں موقف کے باوجود
تحریک انصاف کی حکومت محض پارلیمان کے ایک اجلاس سے آگے نا بڑھ سکی اور اس
ایک غیر متنازع مسئلے پر مسلسل عالمی دبا ؤبڑھانے کی بجائے اِک چپ سو سکھ
کی پالیسی اختیار کی گئی۔ پانچ اگست کے واقعے کے بعد پاکستان کی کشمیر
پالیسی جو پہلے کہنے کو جارحارنہ تھی وہ بھی نہ رہی۔ تاہم آرٹیکل 370 کے
خاتمے کے بعد پاکستان کو جو پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی وہ بھی دیکھنے کو
نا ملی۔
ہماری ایک کشمیرکمیٹی ہواکرتی تھی اس کشمیر کمیٹی جس کی چیئرپرسن کبھی
محترمہ بے نظیر بھٹو اور کبھی نوابزادہ نصراﷲ خان جیسی شخصیات تھیں۔ نواز
لیگ کے دور میں یہ کمیٹی مولانا فضل الرحمن کے پاس تھی جس پرپی ٹی آئی
اوران کے ہمنواؤں کے پیٹ میں اکثرمروڑاٹھتی رہتی ہے کہ مولانافضل الرحمن نے
کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کیا ،مگرگزشتہ دوسال سے یہ کمیٹی تحریک انصاف کے
پاس ہے پی ٹی آئی ان دوسالوں کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرے گی؟پی ٹی آئی
نے دوسالوں میں کشمیرکمیٹی کے دوچیئرمین بنائے پہلے فخرامام اوراب ان کی
جگہ شہریارآفریدی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ
تحریک انصاف کے دورمیں یہ کمیٹی کتنی فعال ہے ؟
ہم کشمیریوں سے کتنے مخلص ہیں اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ 9نومبر 2019کو
یومِ اقبال کے دن کرتار پور راہداری کھولی گئی ،13جولائی 2020کو یومِ
شہدائے کشمیر پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے واہگہ
بارڈر کھولنے کا اعلان کر دیا۔بھارتی جاسوس اورپاکستانیوں کے قاتل کلبھوشن
کے لیے خفیہ آرڈیننس جاری کیا،بھارت کے ساتھ فضائی آپریشن معطل کرنے کی
بجائے جاری رکھااورظلم وجبرکے ایک سال مکمل ہونے پرہم نے ایک نغمہ
ریلیزکردیا ،سوال یہ ہے کہ آپ راتوں رات ہائی وے پر بورڈ لگا کر کشمیر فتح
کر لیں گے ؟آپ کے ان اقدامات سے کشمیریوں کوکیاملا؟ پانچ اگست کے بعد سے اب
تک ہماری کشمیر پالیسی ہے کیا؟اورہم عملی طورپرکشمیرکی آزادی کے لیے
کیاکرنے جارہے ہیں ؟
|