خارجہ پالیسی: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟(قسط اول)

عالمی حالات کی بابت بہت سارے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کچھ طاقتیں اسے اپنی مرضی کے مطابق موڑ دیتی ہیں۔ تاریخ ِ انسانی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جب وقت پلٹا کھاتا ہے تو اچھے اچھوں کے ہاتھ پیر پھولنے جاتے ہیں اور وہ سب ہونے لگتا ہے جس تصور محال تھا مثلاً قریب کی ماضی قریب میں برطانیہ کے یونین جیک پر سورج غروب نہ ہوتا تھا اب حال یہ ہے کہ کئی کئی دن طلوع نہیں ہوتا ۔ جس سوویت یونین سے ساری دنیا تھر تھرکانپتی تھی وہ دیکھتے دیکھتے ، ہانپتے کانپتے صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ۔ جاپان اور جرمنی جیسی عالمی طاقتوں کو جس امریکہ نے زیر کردیا تھا اس کو ویتنا م کے ننگے بھوکے لوگوں نے دھول چٹادی ۔ نوزائیدہ افغانی حکومت کا گلا گھونٹنے کی خاطر ناٹو کے ممالک متحد ہوکر آئے اور اپنی پیشانی پر رسوائی کا داغ سجا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ جس طالبان کو کل تک دہشت گرد قرار دیا جارہا تھا آج اس کے ساتھ بصد احترام امن معاہدہ کیا جارہا ہے ۔ عالمِ انسانیت کے لیے اس گردشِ زمانہ میں پوشیدہ سامانِ عبرت ہے ۔ پس ہے کوئی جو اس سے سبق حاصل کرے ۔

حقیقت یہ ہے کہ سورج کو طلوع کرنا کسی کےاختیار میں نہیں ہے لیکن جب اس کے آثار نمایاں ہوجائیں تو اس سے استفادہ کی خاطر کمر بستہ ہوجانے والا ہی عقلمند ہے۔ اسی طرح سورج غروب ہونے سے روکنا بھی کسی کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے لیکن تاریکی کے چھا جانے سے قبل روشنی کا اہتمام کرلینے والے لوگ ہی دانشمند ہوتے ہیں ۔ اس عالمی تناظر میں مودی جی نے 6سال قبل جب اقتدار سنبھالا تھا تو ہندوستان کے لیے حالات سازگار تھے ۔ اسی کے ساتھ ان کی قسمت اچھی تھی جو منموہن سنگھ اپنے پیچھے بھرا ہوا خزانہ چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں مودی جی پر دنیا بھر کی سیر کرنے جنون سوار ہوگیا ۔ وہ غیر ملکی دوروں کے درمیان چھٹیاں منانے کے لیے ہندوستان آجایا کرتے تھے اور وہ وقت بھی کسی نہ کسی صوبےمیں انتخابی مہم کی نذر ہوجایا کرتا تھا ۔ آج بھی جب ان اچھے دنوں کی مودی جی کو یاد آتی ہوگی تو وہ اپنے آپ سے کہتے ہوں گے؎
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو

اس زمانے میں دنیا کے امیر ممالک وزیر اعظم کو اپنا مال یا تکنیک بیچنے کے لیے بلاتے تھے۔ وہ تو ایسا تھا کہ اگر مودی ان کو بلاتے تو وہ دوڑے چلے آتے لیکن سیر و تفریح کا شوق ان کو تھا سو وہ ارمان سرکاری خرچ پر نکالے جارہے تھے۔ مودی جی کے ساتھ ان کے پسندیدہ چنندہ سرمایہ داروں کا قافلہ بھی چلتا تھا ۔ سرکاری خرید و فروخت کے علاوہ مقربین خاص بھی اپنے وارے نیارے کرلیتے ۔ مودی جی رفاقت ان کے لیے ضمانت کا کام کرتی اور سب کچھ بلےّ بلےّ ہوجاتا۔ ان تجارتی سرھرمیوں کی پردہ پوشی کے لیے وہاں موجود ہندوستانیوں کے لیے منعقد کردہ ناچ رنگ کی محفل میں وزیر اعظم تقریر فرماتے اور اسے ہندوستان میں ٹیلی ویژن پر دکھا کر بھکتوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی جاتی ۔ غریب ممالک کے لیے وقت گزاری کا معاملہ تھا ۔ وہ جشن مناتے کہ ایک بڑے ملک کا سربراہ آیا ہے اور مودی جی وہی اپنا سیر سپاٹا کرلیتے اس طرح بڑا اچھا وقت گزرتا رہا۔ اس دوران ذرائع ابلاغ میں یہ ہوا بنائی گئی کہ 70 سال بعد ایک قدآور عالمی رہنما ملک کو میسر آیا ہے جو بہت جلد ہندوستان کو ’وشوگرو‘ (دنیا کا استاد) بنادے گا ۔

مودی جی کی خوش بختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہمسایہ ملک پاکستان میں نواز شریف جیسے شریف النفس رہنما کے ہاتھوں میں ملک کی زمامِ کار تھی۔ مودی جی نےانہیں بلا تکلف اپنی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے دی اور وہ بلا تردد مہمان بن کر دوڑے چلے آئے ۔ مودی جی بن بلائےہی ’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ بن کر نواز شریف کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے تب بھی خوب خاطر تواضع کرکے لوٹا یا۔ اس خیر سگالی کے ماحول سے دونوں جانب کے شدت پسند عناصر ناراض ہوگئے تو ان کو خوش کرنے کے لیے نہ جانے کس نے پٹھانکوٹ فوجی چھاونی پر حملہ کرادیا اور ڈھاک کے تین پات کی طرح باہمی تعلقات پھر سے کشیدہ ہوگئے۔

ان دنوں میں چونکہ مودی اچھے خاصے مقبول تھے اس لیے انہیں پاکستان کا کارڈ کھیلنے کی ضرورت نہیں پیش آئی ۔ اس دوران گردشِ زمانہ نے پلٹا مارا اورکر اقتدار کا دامن عمران خان کے ہاتھ میں آگیا۔ اُدھر پاکستان کو ایک نہایت مقبول وزیر اعظم میسر آیا اِ دھر مودی جی کی مقبولیت پر گہہن لگنا شروع ہوگیا۔نریندر مودی نے اپنی مقبولیت کا خلا پر کرنے کے لیے پہلے سرجیکل اسٹرائیک اور پھر رافیل کی بدعنوانی کو چھپانے کے لیے پلوامہ کے بعد ائیر اسٹرائیک کا ناٹک کردیا۔ داخلی سطح پر اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا اور مودی جی دوبارہ منتخب ہوگئے۔ مودی جی جس وقت پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکا کر اس پر سیاسی روٹیاں سینک رہے اس وقت عمران خان ہندوستان کے سکھوں کا دل جیتنے کے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر کام کررہے تھے ۔ اس کا زبردست فائدہ ان کو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ہندوستان کے صوبے پنجاب میں بھی ملا ۔

عمران خان نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر گردنانک کی جائے پیدائش پر واقع گورودوارہ درباد صاحب کی نہ صرف تزئین و آرائش کا کام کیا بلکہ ان کے 550 ویں یوم پیدائش کو کرتاپورہ راہداری کھول کر یادگار بنادیا ۔ مودی جی یہ نہیں چاہتے تھے لیکن اگر وہ اس کی مخالفت کرتے تو پورا صوبہ باغی ہوجاتا اس لیے مجبوراً پاکستان جانے والے زائرین کو الواداع کرنے کے لیے انہیں پنجاب جانا پڑا۔ افسوس کہ اس تاریخی دن کو مودی جی نے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ کروا کر داغدار کردیا ۔ اس دن ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک سربراہ مملکت اپنے پڑوسی ملک کی اقلیت کا دل جیت رہا اور دوسرا اپنے ملک میں رہنے اور بسنے والی سب سے بڑی اقلیت کا دل توڑ رہا ہے۔

یہ معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ ہندوستان کے اندر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کو بی جے پی کے لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ مسلم یونیورسٹی کے نام اور تشخص پر اوٹ پٹا نگ اعتراضات کیے گئے ۔ ان سوالات کو ذرائع ابلاغ میں اچھال کر مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ اس کے برعکس پاکستان میں سکھ یونیورسٹی کے قیام کا کام زور شور سے جاری رہا ہے ۔ ننکانہ صاحب میں 400 ایکڑ خطۂ اراضی پر عالمی معیار کی یونیورسٹی کا کام 6 ارب روپیہ کے خرچ سے جاری و ساری رہا ۔ اس یونیورسٹی کے قائم ہوجانے کے بعد نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک سے سکھ طلبا وہاں تعلی حاصل کرنے کے لیے آئیں گے بلکہ ہندوستان سے بھی وہاں جائیں گے ۔ عمران خان نریندر مودی کو دکھا دیا سفارتکاری کے ذریعہ اپنے مدمقابل کو کس طرح شکست فاش سے دوچار کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ عالمی سیاست میں شریف کی شرافت اور خان کی ذہانت سے کیا فرق پڑتا ہے؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کی خاطر ہیوسٹن میں ہاوڈی مودی نامی جشن کا انعقاد کروایا۔ اس تقریب میں امریکی صدر کا تعارف کرانے کی خاطر اپنی خدمات پیش کرنا کسی ملک کے سربراہ کے شایانِ شان نہیں تھا لیکن مودی جی نے یہ خدمت بھی انجام دی ۔ اس کے باوجود وہ نتائج مرتب نہیں ہوئے جو عمران خان کے امریکی دورے وقت نظر آئے ۔ ٹرمپ نے عمرا ان کی تعریف و تو صیف کے پُل باندھ دیئے۔ احمد آباد میں نمستے ٹرمپ پر سیکڑوں کروڈ روپئے پھونکنے کے بعد بھی مودی جی کو وہ سب نہیں حاصل ہوسکا جو عمران کو اس کے بغیر مل گیا۔ ویسے دہلی کے اندرٹرمپ کی موجودگی میں فرقہ وارانہ فساد برپا کرکے بی جے پی والوں نے ملک کی جوبدنامی کی ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔

مودی جی کا بنیادی مسئلہ ان کی بے سمت خارجہ پالیسی ہے جس میں امریکہ کو خوش رکھتے ہوئے چین سے تجارت کرکے روس سے اسلحہ خریدا جاتا ہے ۔ اس طرح نہ ہی دوستی پائیدار ہوتی ہے اور نہ ٹھوس فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ اکثر ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ‘ کی کیفیت بن جاتی ہے ۔ پاکستان کی چین سے دوستی نہایت مستحکم بنیادوں پر قائم ہے ۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان پر انحصار امریکہ کی مجبوری ہے ۔ ایسا اسٹراٹجٹیک فائدہ ہندوستان کے پاس نہیں ہے ۔ امریکہ ہندوستان کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ اس لیے چین کبھی بھی ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ۔ لداخ میں فوجی مہم کے بعد ہندوستان تیزی کے ساتھ امریکہ کے حلیفوں مثلاً جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ کی صف کی شامل ہوتا جارہا ہے لیکن چین کو اس پروا نہیں ہے ۔ اس نے ہندوستان کو چہار جانب سے گھیرنے کی حکمت عملی بنا رکھی ہے اور اس پر مستعدی کے ساتھ عمل پیرا ہے ۔

چین کو اس معاملے میں سب سے بڑی کا میابی نیپال میں ملی ہے۔ ہندوستان کا بہترین حلیف اور سابق ہندو راشٹر نیپال اب پوری طرح چین کی مٹھی میں جا چکا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف ریلوے لائن بچھ گئی ہے بلکہ نیپال کے پرائمری طلباء اب ہندی کے بجائے چینی زبان پڑھنے لگے ہیں ۔ نیپال اور ہندوستان کے درمیان جتنے خراب تعلقات آج کل ہیں پہلے کبھی نہیں تھے ۔ نیپال کی دستور سازی میں مداخلت سے شروع ہونے والے اختلافات نئے نقشے کے ایوان میں منظوری تک جاری رہے ۔ اس دوران اپنے ہمسایہ کی دلجوئی کا خیال تک مودی سرکار کو نہیں آیا۔ فی الحال سرحدی تنازعات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں سرحد کھلی ہونے کے باوجود بہار کی سرحد نیپالی حفاظتی دستوں کے ذریعہ گولی چلانے کی دو وراداتوں نے آمدورفت پر مکمل روک لگا دی ہے۔ آئے دن ہندوستان کی جانب سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کی خاطر جانے والوں کو زدوکوب کرنے واقعات سامنے آرہے ہیں اور بظا ہر نیپالی عوام و خواس کے غم غصے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہند پاک تعلقات نیپال اورہندوستان کے رشتوں سے بہتر ہیں۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1282515 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.