یو این سلامتی کونسل میں کشمیر پر بحث

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین نے بدھ کے روز مسئلہ کشمیرپر بند کمرے میں ایک غیر رسمی اجلاس منعقد کیا۔’’کوئی بھی دیگر بزنس‘‘ کے تحت منعقدہ یہ اجلاس پاکستان کی درخواست اور چین کی حمایت سے اپنی نوعیت کا تیسرا اجلاس تھا، جو 5اگست2019کے بعد سے منعقد ہوا ، جب بھارت نے اقوام متحدہ کی قرارداووں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور نیم خود مختاری ختم کر دی اور اسے اپنے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔یوں لداخ کو کشمیر سے کاٹ دیا گیا۔بھارت پروپگنڈہ کرتا ہے کہ کشمیر اس کا اپنا معاملہ ہے اور کبھی یہ کہ کشمیر کا مسلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسلہ ہے۔ جسے دونوں ممالک بات چیت سے حل کریں گے۔بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بند کر دیتا ہے۔ اجلاس کے بعد پاکستان کے یو این مشننے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان تقسیم کیا جس میں دنیا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی اخلاقی، قانونی اور سیاسی اتھارٹی کو بروئے کار لاتے ہوئے بھارت پر دباؤ ڈالے تا کہ وہ کشمیر سے متعلق اپنے 31جولائی 2019کے بعد کئے گئے یک طرفہ فیصلے واپس لے۔ بھارت انسانی حقوق کی پامالی بند کرے، سیز فائر کی خلاف ورزیاں نہ کرے، مواصلاتی ، نقل و حمل اور پر امن احتجاج پر پابندیاں ختم کرے ، کشمیری قائدین کو فوری رہا کرے۔

بھارت سلامتی کونسل کے اس اجلاس کو منعقد نہ کرنے کے لئے لابنگ کر رہا تھا ۔ مگر نئی دہلی کی سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہونا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ جس میں چین نے غیر معمولی کردارا دا کیا۔ بھارت چاہتا تھا کہ یہ اجلاس منعقد نہ ہو، اور جب یہ چاہت پوری نہ ہوئی تو دہلی والے اس اجلاس کی اہمیت کم کرنے کے لئے سرگرم ہوئے۔ اس اجلاس کے بعد چین کے یو این مشن نے نیو یارک میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا،’’ چین کوکشمیر کی موجودہ صورتحال اور بھارت کی فوجی ایکشنز پر سخت تشویش ہے، چین بھارت کے ایسے اقدام کی مخالفت کرتا ہے جن سے حالات خراب ہوں۔‘‘ مگر بھارت کے یو این میں سفیر ٹی ایس تریمورتی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ٹویٹ کیا کہ پاکستان کی ایک اور کوشش ناکام ہو گئی۔ بھارت سمجھتا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر بحث کا ریکارڈ نہ ہونا یا اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلنا یا بند کمرے کا رسمی اجلاس اس کی کامیابی ہے جب کہ یہ دہلی والوں کی خود کو تسلی دینے کی کوشش ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ سال سوا کروڑ کشمیریوں کو قید کر دیا۔ 15لاکھ بچوں کو تعلیم سے محروم کیا۔ 13ہزار سے زائد بچوں کو حراست میں لے کر بھارتی قیدخانوں اور انٹروگیشن سنٹرز میں ڈال دیا۔ پانچ لاکھ کشمیریوں کو بے روزگار کیا۔ کشمیر کی معیشت کو 40ہزار کروڑ روپے کاچونا لگایا۔ٹورازم کو تباہ کیا اوراس سے وابستہ دولاکھ سے زائد خاندانوں کو بھکاری بنا دیا۔ 217کشمیریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ ڈیڑھ ہزار کو معذور کیا۔ سیکڑوں تعمیرات کو گن پاؤڈر چھڑک کر اور بارودی دھماکوں سے اڑا دیا۔ کئی باغات کو تباہ کیا۔ غلہ کے ذخائر کو آگ لگا دی۔ بھارت میں زیر تعلیم ایک لاکھ سے زائد طلباء و طالبات کو خوفزدہ کیا گیا اور وہ تعلیم چھوڑ نے پر مجبورکئے گئے۔ بھارت میں روزگار اور کاروبار کرنے والے سیکڑوں کشمیریوں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔ ان کا مال لوٹ لیا گیا۔ان حالات میں سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہونا اور کشمیر پر بحث خوش آئیند ہے۔ اجلاس میں پانچ مستقل اراکین میں سے چارامریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے پاکستان کی حمایت سے گریز کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس، جو بند دروازہ، غیر رسمی اور جسے ریکارڈ نہیں کیا گیا میں تقریبا تمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیرکے مسلہ کو عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔

پاکستان نے گذشتہ برس اگست کے بعد سے تیسری مرتبہ کشمیر کے بارے میں کونسل کو ایک خط میں بحث کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستان اور چین کو انڈونیشیا کی بھی حمایت حاصل تھی جو اگست کے لئے سلامتی کونسل کے ممبر ہیں۔ انڈونیشیا ان چند ممالک میں شامل ہے جو ترکی سمیت عوامی سطح پر کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔مزید برآں،حکومت ہند کی طرف سے کشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370کے تحت دی گئی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کا ایک سال پورا ہونے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ماہرین کی نئی دہلی اور بین الاقوامی برادری سے اپیل بھی پیش رفت ہے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کی طرف فوری توجہ دیں۔اقوام متحدہ میں ہائی کمشنر براے انسانی حقوق سے وابستہ ماہرین نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں فوری کاروائی کی ضرورت ہے۔ان ماہرین نے کہا کہ اگر بھارت کشمیریوں کی مبنی بر حق شکایتوں کے علاوہ موجودہ اور ماضی کے ان واقعات جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عاید کئے گئے کی تحقیقات اور کاروائی کے مطالبے کو نظر انداز کرے گا تو بین الاقوامی براداری کو فوری طور پر اس معاملے پر اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔یو این ہیومن رایٹس کمشن کے اس مطالبے پر تقریباًایک درجن ماہرین کے دستحظ ثبت ہیں۔جس میں کہا گیا کہ جب سے کشمیریوں کو حاصل خصوصی پوزیشن کا خاتمہ کیا گیا تب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال اطمینان بخش نہیں۔

کشمیری سلامتی کونسل کے وقت اور توجہ کے مستحق ہیں۔سلامتی کونسل اگر بھارتی مکاری اور دنیا کو سچ سے دور رکھنے کی کوشش کو سمجھے تو وہ کشمیر پر بحث کے لئے ایجنڈے کا اعلان کر سکتی ہے۔انڈونیشیاکا شکریہ جس نے اس اجلاس کے دوران پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔اگر چہ، سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد کوئی بیان جاری نہیں ہوا اور نہ ہی بھارت کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا۔تا ہم، اس اجلاس کا منعقد ہونا ہی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تصفیہ طلب مسلہ ہے جو سلامتی کونسل کے ایجنڈہ پر موجود ہے اور جسے حل کرنا باقی ہے۔ یہ اجلاس بھارت کے موقف کی نفی کرتا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی ایشو یا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر میں بھارتی اقدام عوام دشمنی پر مبنی ہیں۔کشمیر میں بھارت کے آخری گورنر ستیہ پال ملک کی برطرفی اور پھر مودی کے منظور نظر لیفٹننٹ گورنرگریش چندرا مرمو کا استعفے،اب اس کی جگہ بی جے پی کے ایک انتہا پسند اور سابق بھارتی وزیر کی کشمیر کے نئے لیفٹننٹ گورنر کے بطور تعیناتی بھارت کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کی عکاس کرتی ہے۔بھارت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے والا ایک ڈیفالٹر ملک ہے۔ جس کی فوج کشمیر میں سنگین جنگی جرائم جاری رکھتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ سلامتی کونسل نے اگر اپنی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے تو خدشہ ہے کہ بھارت بے لگام اور سرکش ہو کر کشمیریوں کا قتل عام تیز کردے گا۔کیوں کہ بھارت عالمی قوانین ، جنیوا کنونشن، سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555214 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More