سات عشرے گزرچکے لیکن جنت نظیر کشمیر کی قسمت نہیں
بدلی۔ یہ وہ وادی ہے جہاں ماؤں کے لعل خون میں نہاتے ہیں، بزرگوں کی
لاٹھیاں ٹوٹتی ہیں، بیٹیوں کے سروں سے ردائیں چھِنتی ہیں، بہنوں کے بھائی
بچھڑتے ہیں اور بیواؤں کی چوڑیاں ٹوٹتی ہیں لیکن پھربھی اقوامِ عالم بے
غیرتی کی بُکل مارے خاموش تماشائی۔ ایک سروے کے مطابق 1989ء سے 2019ء تک
بھارتی فوجیوں نے 95 ہزار 471 کشمیریوں کو قتل کیا، 23 ہزار خواتین بیوہ
ہوئیں، 11 ہزار 200 خواتین کی بے حرمتی ہوئی، ایک لاکھ 8 ہزار بچے یتیم
ہوئے، 2 لاکھ املاک تباہ ہوئیں اور اسرائیل سے درآمد شدہ پیلٹ گنوں سے
ہزاروں کشمیری اندھے ہوئے لیکن پھر بھی جذبۂ حریت تازہ دَم۔
حیرت ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو کسی جانور کے مر جانے پر بھی
ہاتھوں میں موم بتیاں پکڑ کر ٹسوے بہانے میں مصروف ہو جاتی ہیں، اُنہیں
کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟۔ اُنہیں بھارتی
درندوں کی وحشت وبَربریت کے مناظر کیوں دھندلے دکھائی دیتے ہیں؟۔ انسانی
حقوق کی تنظیمیں جو کسی ایک عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تڑپ تڑپ
اُٹھتی ہیں، اُنہیں بھارتی درندوں کے ہاتھوں ہزاروں عفت مآب بیٹیوں کی عصمت
دری کیوں نظر نہیں آتی؟۔ جب ایک معصوم بچہ اپنے نانا کے ساتھ دودھ لینے کے
لیے گھر سے نکلتاہے اور اُس معصوم کے سامنے اُس کے نانا کو بے دردی سے
گولیاں مار کر شہید کر دیا جاتاہے، وہ بچہ خون میں لَت پَت اپنے نانا کی
لاش پر بیٹھ کر آہ وبکا کرتاہے تو اِن تنظیموں کو اُس معصوم کی آہیں اور
سسکیاں کیوں سنائی نہیں دیتیں؟۔
سوال اقوامِ متحدہ سے بھی کہ کیا کشمیر ی اپنا مقدمہ لے کرا قوامِ متحدہ
میں گئے تھے؟۔ کیا پاکستان نے کشمیرکا قضیہ طے کرنے کے لیے اقوامِ عالم سے
اپیل کی تھی؟۔ نہیں جناب! یہ بھارت ہی تھاجو شانتی شانتی پکارتا ہوا اقوامِ
متحدہ میں پہنچا۔ 27 اکتوبر1947ء کو بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی
فوجیں کشمیر میں اتار کر اُس پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو پاک بھارت
جنگ چھِڑ گئی۔ پاکستان کے بہادرقبائلیوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مل
کر دشمن کے دانت کھٹے کیے اور جب وہ سرینگر تک پہنچ گئے تو بھارتی
وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرو اپنی دھوتی سنبھالتا یکم جنوری 1948ء کو
اقوامِ متحدہ جا پہنچا جہاں اُس نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم
کیااور اقوامِ متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کا اعلان کیا۔ 70 سال گزرنے
کے باوجود اقوامِ عالم مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کروانے میں ناکام رہی
البتہ بھارتی بوچر نریندرمودی نے 5 اگست 2019ء کو اقوامِ عالم کے مُنہ پر
ایسا زناٹے دار تھپڑ رسید کیا جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔اُس نے
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو
بھارت میں ضم کرلیا۔
کشمیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ 26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ
اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ کشمیر کو آئینی طور پر
خصوصی حیثیت دی جائے گی۔ یہ معاہدہ اُس وقت طے پایا جب بھارت کشمیر میں
اپنی فوجیں اتار چکا تھا اِس لیے غیرجانبدار مورخین کے مطابق مہاراجہ ہری
سنگھ نے دباؤ میں آکر معاہدے پر دستخط کیے۔ 17 اکتوبر1949ء کو آرٹیکل 370
نافذ کیاگیاجس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کیاگیا۔ پھر آرٹیکل 35-A
کا نفاذ ہوا جس کے تحت کوئی غیرکشمیری نہ تو کشمیر میں مستقل شہریت حاصل کر
سکتاہے اور نہ ہی جائیداد خرید سکتاہے۔ بھارتی آئین میں یہ بھی درج کر
دیاگیا کہ آرٹیکل 370 کو کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر ختم
نہیں کیا جاسکتا لیکن بی جے پی نے بھارتی آئین کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا۔
بھارت میں ہونے والے 2019ء کے عام انتخابات کے دوران نریندرمودی اور بی جے
پی نے اپنے منشور میں اعلان کیا کہ انتخابات جیتنے کے بعد جموں وکشمیر کے
حوالے سے قانون سازی کرکے اُس کو بھارت کا باقاعدہ حصّہ بنایا جائے گا اور
آرٹیکل آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ یہ اُنہی دنوں کی بات
ہے جب ہمارے وزیرِاعظم یہ فرما رہے تھے کہ اگر نریندرمودی جیت گیا تو کشمیر
کا مسلٔہ حل ہو جائے گا۔ حیرت ہے کہ نریندرمودی کے واشگاف اعلان کے باوجود
ہمارے وزیرِاعظم اُسی مودی سے کشمیر کا مسٔلہ حل کروانے کی اُمید لگائے
بیٹھے تھے۔ گویا
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کہ سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
انتخابات جیتنے کے بعد نریندرمودی نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35-A
کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا۔ کشمیرکا جھنڈا ختم کر
دیاگیا، ریڈیو کشمیر سرینگر کا نام بدل کر آل انڈیا ریڈیو سرینگر کر
دیاگیا۔ تعلیمی ادارے، کاروبار، فون اور انٹرنیٹ سروس بند کرکے وادی میں
سخت ترین کرفیا نافذ کر دیاگیا۔بھارتی فوجیوں کی وحشت اور کرفیو کے باوجود
سرینگر، پلواما، بارہ مولا اور وادی کے دیگر حصوں میں لوگ کرفیو توڑ کر
باہر نکلتے اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں۔ بھارتی درندوں کے مظالم
کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو مہمیز دے رہے ہیں۔ پورا مقبوضہ کشمیر ایک سال سے
بھارت کی قید میں ہے پھر بھی بَربریت کے سامنے جھکنے کو تیارنہیں۔ بھارتی
درندے، گجرات کے بوچڑ نریندرمودی نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کے لیے 5 اگست 2020ء کا انتخاب کیا۔
اِدھر پاکستان مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم پر سراپااحتجاج تھا
اور اُدھر نریندرمودی رام مندر کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھ رہاتھا۔ اِس کے
باوجود عالمِ اسلام کی غیرتوں پر مودی کا یہ قبیح فعل تازیانہ بن نہ سکا۔
عالمِ اسلام سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے جبکہ وہ خود باہم جوتم پیزارہے۔
بانیٔ پاکستان حضرت قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیاتھا۔
یہ شہ رَگ گزشتہ سات عشروں سے طاغوت کے پنجۂ خونی میں ہے لیکن آج تک کوئی
ایسا مردِ جری پیدا نہیں ہوسکا جو اِس شہ رَگ کو دشمن سے چھڑا سکے۔ ہمارے
ہاں یہ رواج ہو گیاہے کہ ہم کسی بھی سانحے پر چند روز احتجاج کرکے خاموش ہو
جاتے ہیں۔ جب 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصّہ
قراردیا تو ہم نے شدید احتجاج کیا۔ جلسے کیے، جلوس نکالے، مودی کو ہٹلرکہا،
اُس کے پُتلے جلائے۔کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وزیرِاعظم پاکستان نے
آزادکشمیر کی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔تب آزادکشمیر کے وزیرِاعظم نے کہا
کہ کشمیر کی بیٹیاں ہر روز گھروں کے دروازے کھول کر پوچھتی ہیں کہ کیا
پاکستان کی فوج آگئی ہے؟۔پھر ہمارے وزیرِاعظم کا اقوامِ متحدہ میں زبردست
خطاب ہوا جس پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے اور پھر ۔۔۔۔۔ ہم سب کچھ
بھول گئے۔ ہمیں کشمیر کی بیٹی یاد رہی نہ کشمیریوں کا خونِ ناحق۔ اگر یاد
تھا تو فقط یہ کہ اپوزیشن کی زباں بندی کیسے کرنی ہے۔ اب ایک دفعہ پھر 5
اگست پر ہمیں بھولا ہوا کشمیر یاد آگیا۔ وہی جلسے، وہی جلوس، وہی ریلیاں،
وہی نعرے اور وہی جذباتی خطاب۔ موودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم
کرلیا اور ہم نے پاکستان کے نقشے میں کشمیر کو پاکستان میں ضم کرلیا۔ 5
اگست کو ’’یومِ استحصال‘‘ کا نام دیاگیا۔ اِس دِن ایک منٹ کی خاموشی بھی
اختیار کی گئی لیکن سچ تو یہی کہ ہم تو مستقل بنیادوں پر خاموش ہیں۔ صرف
کشمیری نوجوان اپنے خون کے نذرانے دے کر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو زندہ
رکھے ہوئے ہیں یا پھر نریندرمودی کی حماقتوں نے ایک دفعہ پھر اقوامِ عالم
میں کشمیر کا مسٔلہ اُبھارا ہے، سچ یہی کہ پاکستان کا اِس میں کوئی حصّہ ہے
نہ کردار۔ تحقیق جلسے، جلوسوں، ریلیوں یا جذباتی تقریروں سے کشمیر آزاد
نہیں ہوگا۔ اِس کے لیے ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ ہمارا دین تو ہمیں
اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیتاہے لیکن ہم نے اپنی راہیں بدل کر کشکولِ
گدائی تھام لیا ہے۔ کیا زندہ قوموں کا یہی وتیرہ ہے؟۔
|