کرونا وائرس کے مہلک حملے نے دنیا بھر کی معیشتوں کو
تباہ کر دیا ہے ، کئی بڑے بڑے برج زمین بوس ہو گئے ہیں ۔ ان میں بھارت ،
اٹلی ، متحدہ عرب امارات اور امریکہ جیسے ممالک سر فہرست ہیں۔ لیکن کئی
ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی اور پالیسیوں کی وجہ سے
نہ صرف معاشی سطح ، بلکہ سفارتی سطح پر بھی استحکام حاصل کیا ہے۔ چین،
سویڈن اور پاکستان نے اپنی پالیسیوں سے دنیا بھر میں خود کو ممتاز ثابت کیا
ہے۔چین نے اپنے ملک میں موجود ان تمام بیرونی نجی کمپنیوں کے شئیرز خرید
لئے ہیں جن میں بڑے بڑے کاروباری ٹائیکونز کا حصہ تھا، اس طرح چین میں
موجود وہ کمپنیاں بھی چینی حکومت کی ملکیت ہو گئی ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر
کا منافع دوسرے ممالک کے تاجروں کو دیا کرتی تھیں۔ سفارتی سطح پر جہاں
امریکہ چین کو تائیوان، جاپان اور بھارت کے ذریعے گھیرنا چاہتا تھا وہیں
چین نے امریکہ کو معاشی اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور کئی ممالک کو اپنا
اتحادی کر لیا ہے جو کبھی امریکہ کی انگلیوں پر ناچنے کو مجبور تھے۔خطے میں
ایران کا امریکی لابی سے ٹوٹنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہیں پاکستان نے بھی
معاشی و سفارتی ترقی میں اہم کامیابیاں سمیٹی ہیں۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ
سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری نظرمیں قومی خودمختاری اہم ہے یا مانگے
تانگے کی ترقی؟پاکستان اس وقت تک پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ آئی ایم ایف
کو واپس کر چکا ہے، جو ملکی تاریخ میں پہلی سیاسی حکومت ہے کہ وہ نہ صرف
قرضے واپس کر رہی ہے بلکہ قرضوں پر لگا سود بھی ادا کر رہی ہے۔حالانکہ اگر
حکومت چاہتی تو ان اربوں ڈالر سے ملک میں سڑکیں، ٹرینیں اور پل بھی کھڑے کر
سکتی تھی، لیکن غلامی سے چھٹکارا کبھی نہ حاصل ہوتا۔حالیہ دنوں میں پاکستان
کی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ نے 74 سالوں کا ریکارڈ توڑا ہے ۔اسی سیاسی حکومت
نے دیا مر ، بھاشا اور مہمند ڈیموں کا منصوبہ شروع کروا رکھا ہے جو جلد ہی
پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کے منصوبے سے چھوٹے
سے چھوٹے تاجر اور کاروباری طبقے کو فائدہ ہوگا اور اس طرح پاکستان میں
چھوٹی سے چھوٹی صنعتی اشیاء کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف کونوں
میں رسائی آسان ہو سکے گی۔یعنی چین جیسی پالیسی کہ مصنوعات آپ کی دہلیز پر!
اس کے پیچھے اہم وجہ سی پیک کی تکمیل کیلئے تیزی سے کام کا ہونا اور گوادر
پورٹ ہے۔ساری دنیا کے تاجروں کا رجحان پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس طرح
پاکستان ایک عالمی منڈی بن کر ابھررہا ہے ، جس کے ہاتھ میں دنیا کی معیشتوں
کی تقدیر ہوگی۔یعنی اگر ہم کہیں کہ پاکستانی معیشت ترقی کی جانب تیزی سے
بڑھ رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔پاکستان کی ان کاروباری وسفارتی کامیابیوں نے
ہمارے روایتی حریف بھارت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ و اسرائیل
کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور
بربریت کو جس طرح بے نقاب کیا گیا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی۔ مودی نے اپنے
پہلے حکومتی دورانیے میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر
دنیا بھر میں تنہا کر دے گا، اور ن لیگ کے دور حکومت میں اس نے یہ کر کے
دکھایا بھی، لیکن آج مودی کی موذیت اسی کے در پے ہو گئی ہے کہ جس طرح
پاکستان نے بھارت کو سفارتی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ آج اقوام متحدہ بھی
کہنے پر مجبو ر ہے کہ بھارت دہشتگردی کا گڑھ بن چکا ہے اور مقبوضہ کشمیر
میں اس نے غیر انسانی اور ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے۔ اقوام عالم یہ بھی
تسلیم کر چکا ہے کہ تنازعہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے نہ کہ بھارت کا
اندرونی مسئلہ ۔ پاکستان نے کشمیر کے مؤقف پراپنی پالیسیوں کو سرد مہری سے
بدل کر سخت ترین کر دکھایا ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر کا
دنیا میں سفیر بن کر جائے گا اور اقوام عالم کو بھارتی جبر و تسلط کے بارے
حقائق سے آگاہ کرے گا۔ حالانکہ موجودہ حکومت نے کشمیر کے مؤقف کو صحیح
معنوں میں دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں پر ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر روک
لگا رکھی ہے مگر اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ 1974 میں شیخ عبد اﷲ نے
کشمیر کا سیاسی منتخب لیڈر ہونے کے ناطے اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا
گاندھی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا، جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ ساز
احتجاج کیا تھا ، شیخ عبد اﷲ سے جب پاکستانی حکومت کی جانب سے پوچھا گیا تو
اس نے جواب دیا کہ ہم نے پاکستان پر چوبیس سال اعتماد کیا، لیکن پاکستان
اپنے ہی حصے کی حفاظت نہیں کر پایا اور دو لخت ہو گیا وہ ہمیں کیا آزادی
دلوائے گا! ملک گیر احتجاج کے بارے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے تبصرہ
کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے جو لینا تھا لے لیا، اس احتجاج سے پاکستان نے
خود اپنی معیشت کا اربوں ڈالر کا نقصان کر لیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت
نے جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں بھارتی ریاست جونا گڑھ اور مقبوضہ کشمیر کو
اپنا حصہ قرار دیا ہے۔اس بارے میں بہت سی آراء سامنے آ رہی ہیں لیکن میں
یہاں ایک الگ نوعیت کی رائے رکھتا ہوں۔میرے نزدیک اس نقشہ کو اگر پاکستانی
پارلیمنٹ میں منظوری مل جاتی ہے تو اس کے بعد پاکستان کی پالیسیاں اپنے
مقبوضے علاقوں کو واگزار کروانے کیلئے بنائی جائیں گی۔ اگر پاکستانی حکومت
اور تھنک ٹینک یہی سوچ رہے ہیں تو ہمیں ان کی پالیسیوں کا خیر مقدم کرنا
چاہئے اور اگر یہ قدم بھی محض دکھلاوے کا ہے تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا
بلنڈر ہوگا جو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کو پلیٹ میں رکھ کر دینے کے مترادف
ہوگا۔ او آئی سی کو تنازعہ کشمیر کے معاملے میں آنکھ مچولی بند کرنی
ہوگی،علی الاعلان اقرارکہ سعودی عرب نے ہمیں سمٹ کانفرنس سے روکا تھا ،
سعودی عرب کو اس کا پیسہ واپس کرنا وغیرہ جیسے وزیر خارجہ کے بیانات
پاکستان کے خودمختار بننے کی جانب قدم لگ رہے ہیں ۔ کیونکہ آج تک کسی بھی
حکومت نے سعودی عرب کے بارے میں یا کشمیر کے معاملے پر اس قدر سخت اور
سنجیدہ رویہ نہیں اپنایا ہے جس طرح موجودہ حکومت نے اپنا رکھا ہے۔ لیکن
اپوزیشن کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان کی مذمت افسوسناک ہے۔ احسن
اقبال صاحب جس ملک سے اربو ں روپے کما رہے ہیں اس پر ایک خاکروب والے اقامے
کو ترجیح دے رہے ہیں انہیں شرم آنی چاہئے اور ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو بھی
ڈوب مرنا چاہئے کہ وہ کس حق سے سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں جو اسرائیل
اور امریکہ کی گود میں کھیل رہا ہے ۔سعودی ہمارا بے شک دوست ملک ہے لیکن
ہمیں سفارتی تعلقات برابری کی بنیاد پر رکھنے چاہئیں نہ کہ غلامی کی سطح
پر، اور یہ قوم مزید کسی بھی غلامی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔موجودہ حکومت کے
اقدامات کا اگر ہم عالمی سطح کا جائزہ لیں تو عیاں ہوتا ہے کہ دیر پا اور
مضبوط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان خودمختاری کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے
اور کسی بھی قوم کی یہ سب سے بڑی ترقی ہوتی ہے۔
|