تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو معتبر حوالوں سے ثابت ہوتا
ہے کہ مغل بادشاہ محمد ظہیر الدین بابر کے حکم سے میر باقی اودھ کے گورنر
نے ایک ویران جگہ ایودھیاکا انتخاب کرکے 1528 میں بابری مسجد تعمیر کرائی
تھی جو فن تعمیر کا ایک شاہکار نمونہ تھی ۔تین بڑے گنبدوں پر مشتمل اس مسجد
میں ہوا اور روشنی کے لئے خاص ترتیب سے جالیاں لگائی گئی تھیں جبکہ درمیان
والابڑا گنبد مسجد کو دھوپ سے بچانے کے لئے اونچا اور بڑا بنایا گیا
تھا۔مسجد کے صحن میں ایک میٹھے پانی کا کنواں کھودا گیا تھا جس کے پانی کو
پینے اور وضو کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔بابری مسجد کی خوبصورتی کی وجہ
سے یہ اتر پردیش کی عالیشان اور بڑی مساجد میں شمار کی جاتی تھی۔بابری مسجد
کے قیام کے بعد سے ساڑھے چار سو سال تک بلاناغہ یہاں پانچ وقت کی اذان،
باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کا خصوصی اہتمام کیا جاتا رہا۔کہا جاتا ہے
کہ بابری مسجد میں عشاء کی آخری نماز مولانا عبدالغفار صاحب کی امامت میں
ادا کی گئی،اس کے بعد نہ صرف مسلمانوں کوبابری مسجد میں نماز ادا کرنے سے
محروم رکھا گیا بلکہ اب مسجد کو ایک سازش کے تحت رام مندر میں تبدیل کردیا
گیا ہے۔
بابری مسجد کے حوالے سے سب سے پہلے 1885 میں ہندووں کے ایک طبقہ
’’بیراگیوں‘‘ کے مہنت(اعلیٰ پجاری)رگھبیرداس نے مقدمہ کرتے ہوئے دعوی کیا
تھا کہ مسجد کے بیرونی حصہ میں واقع چبوترہ رام جنم بھومی ہے۔یہ دعوی اس
وقت بابری مسجد کے متولی اصغر صاحب کے خلاف کیا گیا تھا۔کافی عرصہ تک
علاقائی سطح پربابری مسجد کو رام جنم بھومی ثابت کرنے کا تنازعہ چلتا رہا۔
ریاستی وملکی سطح پر ہندووں کو اس تنازعہ کی بالکل خبر نہ تھی ۔ہندووں کو
اس کا علم تب ہوا جب 22 دسمبر 1949 کی رات کسی نے بابری مسجد کے اندر محراب
کے پاس ایک مورتی رکھ دی اور شور مچایا گیا کہ بھگوان پرگھٹ ہوئے ہیں جس پر
تنازعہ شدت اختیار کرگیا۔امن و امان کا بہانہ بناتے ہوئے بابری مسجد کو
تالا لگا دیا گیا۔19 جنوری 1950 کو ہندووں کی طرف سے باقاعدہ پہلی مرتبہ
دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ہے جس پر کیس عدالت میں چلنے
لگا۔بھارت میں کئی ہندوتوا سیاسی پارٹیاں بابری مسجد کو مذہبی اور سیاسی
مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگیں۔1984 میں آر ایس ایس نے اپنا ایک سیاسی ونگ
بھارتی جنتہ پارٹی’’ بی جے پی‘‘بنایا جس کا بنیادی مقصد مذہب کے نام پر
اقتدار اور پیسہ بنانا تھا۔ اپنا سیاسی مقام بنانے کے لئے بی جے پی نے 1986
میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا تنازعہ کو پھر سے ہوا دی اور ہندووں
کو اشتعال دلایا جس کے نتیجہ میں بھارت میں ہندو مسلم فسادات پیدا ہونے
لگے۔ بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا راستہ مل چکا تھا۔1990 میں وشوہندو
پریشد نے بابری مسجد پر دھاوا بول کراسے جزوی نقصان پہنچایا۔1991 میں بی جے
پی ،یو پی کے انتخاب میں اقتدار میں آگئی چنانچہ بی جے پی کی آشیر بادکے
ساتھ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کرنے کے لئے تقریبا ڈیڑھ لاکھ شر
پسندہندووں نے مسجد پر دھاوا بول دیااور صبح نو بجے سے شام تک پانچ سو سالہ
تاریخی مسجد کو شہید کرنے کے لئے توڑ پھوڑ کرتے رہے۔
یہ سب کچھ چونکہ منصوبہ بندی کے مطابق تھا اس لئے بھارتی پولیس خاموش
تماشائی بنی رہی ۔ بی جے پی نے اپنے ہی ملک کا آئین پامال کرکے نہ صرف
بابری مسجدکو شہید کردیا بلکہ بھارت بھر میں ہندو مسلم فسادات کروا کر
سیاسی مقاصد حاصل کرنا شروع کردیئے۔
بی جے پی نے بھارت کی مرکزی حکومت ہتھیانے کے لئے بابری مسجد پر خوب سیاست
چمکائی اورہندو مسلم فسادات کرائے ۔بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے اٹھائے
گئے اوزاروں سے مسلمانوں کوبھی شہید کیا جانے لگا۔اقلیتوں کے مذہب کی بے
حرمتی کرکے اورمسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل کر بی جے پی نے حکومت بناہی
لی۔بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پیسہ بنانے پر توجہ مرکوز کردی۔ جب
بھی بی جے پی حکومت کے کرپشن سکینڈلزسامنے آتے ،بھارتی عوام کی توجہ بابری
مسجد،مقبوضہ کشمیر،لداخ،وادی گلوان،کالا پانی کے تنازعات کی جانب کردی
جاتی۔ جب رافیل کی خریداری میں کرپشن اور کورونا کے ناقص انتظامات کی وجہ
سے بی جے پی کے اقتدار کو ایک مرتبہ پھر بڑاخطرا لاحق ہوا تو وہی پرانا
پینترا استعمال کیا گیا۔مودی حکومت نے اپنی ناکامیوں اور کرپشن پر پردہ
ڈالنے کے لئے بابری مسجد پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کا پروگرام بنایا
اور جان بوجھ کر 5 اگست کو رام مندر سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب رکھی گئی ۔ 5
اگست 2019 کو مودی حکومت نے آرٹیکل 370ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی
حیثیت ختم کردی تھی۔یوں بی جے پی نے اقتدار کی خاطرتاریخی بابری مسجد کو بت
کدے میں تبدیل کردیا۔ |