بیروت کی قیامتِ صغریٰ۔۔۔قدرتی آفت یا بھیانک سازش؟

ابھی تک دنیاکوروناوباکی ہلاکتوں سے پوری طرح فارغ نہیں ہوئی اورنہ ہی اس کی ابھی تک کہیں بھی اس کی کامیاب ویکسین کاحتمی اعلان ہوسکاہے کہ اچانک بیروت لبنان میں قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے کومل گئے اورلکھاریوں کوکئی ہفتوں کیلئے لکھنے کاساماں میسرآگیاہے۔اس عظیم اورہولناک حادثے کے کئی پہلواس قدرپراسرارہیں کہ اس کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے ایک عمردرکارہوگی لیکن یہ بات طے ہے کہ دنیانے کوروناکی ہلاکتوںسے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اوراس زمین پرظلم وستم کابازارپہلے سے زیادہ گرم ہوتادکھائی دے رہاہے۔اس خطے میں ایک مرتبہ پھرمتحارب قوتوں کوجنگ کے شعلوں میں الجھاکرجہاں فرقہ واریت کوہوادی جائے گی وہاں ان ملکوں کے وسائل کوجنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے نام پر لوٹ مارکاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہونے کابھرپور امکان نظرآرہاہے۔

استعماری قوتوں نے اپنی جارحیت کاطریقہ کارتبدیل کرلیاہے۔امت مسلمہ میں بہت سے سازشوں کے علاوہ انہوں نے فرقہ واریت کے عفریت کے ہتھیارکواستعمال کرنے کافیصلہ کرلیاہے جس کیلئے دنیابھرکامیڈیاان کابھرپورمعاون ہوگااور بالخصوص مفت سوشل میڈیاکے استعمال نے دنیاکوواقعی ایک گا ؤ ں میں تبدیل کردیاہے جہاں دنیامیں ہونے والا کوئی بھی واقعہ چند لمحوں میں موصول ہوجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیروت کی بندرگاہ پردہماکوں کے چندلمحوں کے بعدسوشل میڈیاپراس کی بیشترویڈیوجوگھروں کے کیمروں نے محفوظ کی تھیں،فوری طورپرساری دنیامیں اس نے ایک خوف اورصدمہ کی لہربرپا کر دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب غلط خبروں اورافواہوں کی بھرمارنے عجیب صورتحال پیداکردی ہے۔دہماکوں کے آغاز میں اس کو آتش بازی کی فیکٹری کا دہماکہ بتایاگیالیکن بعدمیں ایک خوفناک دہماکہ ہواتواس کوکسی ایٹمی دہماکے کانام دے دیا گیاکیونکہ فوٹیج میں سفید مشروم نما دھوئیں کا بادل اٹھتے ہوئے دیکھ کرسب کادھیان اسی طرف گیاکیونکہ ایٹمی دہماکے کی خبر ایک مستند ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی تھی جس کے ایک لاکھ سے زائد فالور تھے اور اس کو ہزاروں مرتبہ شیئر اور لائیک کیا گیا۔ تاہم بعد میں اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ۔ ہتھیاروںکے ماہرین نے فوراً اس ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ایٹمی دھماکہ ہوتا تو اس سے آنکھیں چندھیانے والی روشنی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی گرمی پیدا ہوتی کہ لوگ بری طرح جھلس جاتے۔ اسی طرح مشروم نما دھوئیں کا بادل بننا صرف ایٹمی بم کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کا دھوئیں کا بادل ہوا میں نمی کے دباؤ کی وجہ سے بھی بنتا ہے جو ہوا میں موجود پانی کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بادل بنا دیتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اس واقعے کو “ایک خوفناک حملہ”قرار دینے کے بعد ممکنہ حملے سے متعلق افواہوں نے تیزی پکڑ لی تھی۔بعدازاں ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ بے بنیاد دعویٰ کیا گیا کہ ٹرمپ کو اس دھماکے کے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک ڈائیلوگ کی تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سوشل میڈیا پر انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کے تبصرے کو شیئر اور ایڈٹ کیا جاتا رہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ دھماکہ دہشت گرد یا بم حملہ تھا۔ ادھر کیو آنان سمیت انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سازشی نظریات کے گروہوں نے اس دھماکے کے متعلق غلط خبریں اور اطلاعات فیس بک پر بھی پھیلانی شروع کر دی کہ یہ حملہ اس جنگ سے منسلک ہے جو حکومت اور مرکزی بینکنگ کے نظام کے درمیان چل رہی ہے۔ کیو آنان بڑے پیمانے پر پھیلایا جانے والا ایک بے بنیاد سازشی نظریہ ہے جس کے مطابق ٹرمپ حکومت، کاروبار اور میڈیا میں بچوں سے بدفعلی کرنے والے شیطان کے پوجاریوں کے خلاف ایک خفیہ جنگ لڑ رہے ہیں۔

اسی طرح ان دھماکوں کے فوراً بعد سوشل میڈیا پرامریکا، اسرائیل یاحزب اللہ کو اس حملے کاذمہ دارقراردیا گیا۔ان ٹوئٹس کو مختلف گروہوں کی حمایت یافتہ نیوز ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ عوامی شخصیات نے بھی سوشل میڈیا پرشیئر کیا۔ انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک ڈائیلوگ کی تحقیق کے مطابق ان سازشی نظریات کو انتہائی دائیں جماعت سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے بھی فیس بک، فور چین، ریڈاٹ سمیت ٹیلی گرام جیسے دیگر سوشل میڈیا مسیجز پلیٹ فارمز پر ان ٹویٹس اور خیالات کو فروغ دیا۔ ان پیغامات میں ان غلط دعوؤں پر توجہ مرکوز کروائی گئی کہ یہ اسرائیل کی جانب سے کیا گیا بم یا میزائل حملہ تھا جس کا مقصد حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ڈِپو کو تباہ کرنا تھا،جس کے ثبوت میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی 2018 کے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے خطاب کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے یہ دعوے کیا گیا کہ جس میں وہ دھماکے کے مقام کا ذکر کررہے ہیں جبکہ لبنان اور اسرائیل کے حکام نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ اسرائیل کااس واقعے سے کوئی لینادیناہےتاہم یہ تصاویر اصلی اور درست تھیں لیکن انھیں یہاں بنا سیاق و سباق کے استعمال کیا گیا ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دراصل بیروت میں کسی اور ضلع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ نے وہاں ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔ جبکہ دھماکے کا مقام اس جگہ سے چند کلومیٹر شمال میں واقع ہے جس کا نین یاہو نے نقشے پر حوالہ دیا تھا۔
اب ایک اورخبرگردش کررہی ہے کہ چھ سال قبل ایک سمندری جہاز کے ذریعے بیروت کے ساحل پر تقریباً تین ہزار ٹن کے قریب امونیم نائٹریٹ لایاگیا اور ایک گودام میں رکھ دیاگیاتھا۔ایمونیم نائٹریٹ کرسٹل جیسا سفید ٹھوس مادہ ہے جسے صنعتی استعمال کے لیے زیادہ مقدار میں تیارکیاجاتاہے۔یہ زیادہ تر کھاد میں نائٹروجن کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اسے کان کنی کے لیے بنائے جانے والے دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے لیے بھی استعمال کیاجاتاہے۔یونیورسٹی کالج لندن میں کیمسٹری کی پروفیسر اینڈریاسیلا کے مطابق”آپ کوامونیم نائٹریٹ زمین سے نہیں ملتا کیونکہ یہ سنتھیٹک ہوتاہے، اسے امونیااورنائٹرک ایسڈ کے کیمیائی ملاپ سے بنایاجاتاہے اوراگربہت زیادہ دیرتک رکھارہے توٹوٹ پھوٹ کاشکارہونے لگتاہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نمی جذب کرکے چٹان کی طرح سخت ہوجاتاہے جو اسے خطرناک بناتاہے کیونکہ اس کامطلب یہ ہے کہ آگ کے قریب آنے کی صورت میں شدیدکیمیائی ردعمل ہو سکتاہے۔سپر سانک شاک ویوز ہوا میں تیزی سے پھیلتی ہیں اور آپ یہ گول بادل کی طرح مرکز سے باہر کی جانب پھیلتا دیکھ سکتے ہیں۔ امونیم نائٹریٹ پھٹتا ہے تو اس سے زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جن میں نائٹروجن اورامونیاگیس شامل ہیں۔نارنجی دھوئیں کابادل نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کے باعث بنتا ہے جوفضائی آلودگی کاسبب بنتاہے۔اگر زیادہ ہوانہ چل رہی ہوتویہ قریبی لوگوں کے لیے خطرہ بن جاتاہے”۔ منگل کی شام بندرگاہ کے علاقے میں ہونے والے اس دھماکے کی وجہ یہی کیمیائی مادہ ہے جس میں اب تک113/ افرادہلاک اورچارہزارسے زائدزخمی ہوگئے ہیں ۔ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس دہماکے سے لبنان کو15/ارب ڈالرکانقصان ہو چکاہے جس کیلئے اس نے عالمی طاقتوں سے لبنان کی مددکی اپیل بھی کی ہے۔

ایک سابق سینیئرفوجی انٹیلی جنس آفیسر فلپ انگرام نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام میں بتایا کہ ایمونیم نائٹریٹ جتنا زیادہ عرصے تک پڑا رہے گا اس کے ایندھن جیسی اشیا سے آلودہ ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔یہ کیمیائی مادے میں ردعمل پیدا کرتا ہے۔ یہ خود ہی حدت پیدا کرتا ہے اور ایک بار ایسا ہونا شروع ہو جائے تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔

یروت دھماکے کی ویڈیوز میں دیکھاجاسکتا ہے کہ آگ سے دھواں اٹھ رہاہے اور پھردھماکے کے ساتھ ہی ایک مشروم جیسا بادل اٹھتاہے جوعموماًجوہری دھماکوں کے وقت دیکھاجاتاہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’شاک ویوز یا لہریں ہوا کے دباؤ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہوا تیزی سے پھیلتی اور فوراً ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ہوا میں موجود پانی سمٹ جاتاہے جس کی وجہ سے یہ بادل بنتاہے.اتنے طاقتور دھماکے کی اہلیت رکھنے کے سبب دنیا بھر کی افواج دھماکہ خیز مواد میں امونیم نائٹریٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ بہت سے شدت پسند حملوں میں بھی استعمال کیاگیاجن میں 1995 میں امریکی ریاست اوکلاہومامیں ہونے والے بم دھماکے بھی شامل ہیں۔اس واقعے میں”ٹموتھی میک وِیگ” نے ایک بم بنانے کے لیے دو ٹن امونیم نائٹریٹ کا استعمال کیا جس سے ایک وفاقی عمارت تباہ اور 168 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکی تاریخ کاسب سے مہلک صنعتی حادثہ 1947 میں ٹیکساس کے گلیسٹن بے میں ہواجس میں کم ازکم581 افراد ہلاک ہوئے۔اس واقعے میں 2000 ٹن کیمیائی مادہ ساحل پر لنگر انداز بحری جہاز میں تباہ ہوا تھا۔ 1921 میں 4500 ٹن ایمونیم نائٹریٹ کی وجہ سے جرمنی کے اوپاؤ پلانٹ میں دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے 500 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ۔ ماضی قریب میں شمالی چین کی تیانجن بندرگاہ پر ایمونیم نائٹریٹ اور دیگر کیمیکلز پر مشتمل ایک دھماکے میں 173 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ 1921 میں 4500 ٹن ایمونیم نائٹریٹ کی وجہ سے جرمنی کے اوپاؤ پلانٹ میں دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے 500 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اتنے طاقتور دھماکے کی اہلیت رکھنے کے سبب دنیا بھر کی افواج دھماکہ خیز مواد میں امونیم نائٹریٹ کا استعمال کرتی ہیں۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.