گزرے زمانے میں شادی بیاہ کے موقع پرلوگ اپنے گھر کے اندر
ناچ رنگ کی محفل سجا لیا کرتے تھے ۔ لاوڈ اسپیکر آیا تو پورے محلے کو گانا
بجانا سنانے لگے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس شور شرابے کی ضرورت کیا ہے؟ دراصل
اس کے ذریعہ خوشی کا ماحول بنایا جاتا ہے۔ اس ماحول میں محلے کے غمگین لوگ
بھی عارضی طور پر اپنا دکھ درد بھول جاتے ہیں ۔ سائنس اور ٹکنولوجی نے مزید
ترقی کی تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن آ گیا ۔ انٹر نیٹ نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ
ساری دنیا کو جوڑ دیا تو فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ عالمی
سطح پر ماحول سازی کا کام شروع ہوگیا ۔ پہلے جس طرح کرائے کے گانے بجانے
والے بینڈ باجا بجاتے تھے اسی طرح آج کل ٹیلیویژن اور سوشیل میڈیا والے
شور مچاتے ہیں ۔ ان کے پاس لوگوں کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ رلانے کی بھی
صلاحیت موجود ہے۔ آپ جتنی دیر تک،جتنی دور تک اورجتنے لوگوں کو تفریح بہم
پہنچانا چاہتے ہوں ، ان کی بہ معاوضہ خدمات مہیا ہوتی ہیں ۔ اس کا تازہ
مظاہرہ امسال ۵اگست کو ہوا ۔
مندر کے سنگ بنیاد سے دو ودن پہلے ہی میڈیا میں رام نام کا جاپ اس طرح شروع
کیاگیا کہ جب وزیر اعظم نے کہا میں جذباتی ہورہا ہوں تو ان کو دیکھنے والے
کروڈوں لوگ جذباتی ہوگئے ۔ انہوں نے کہا اب رام للا ٹاٹ کے مکان میں نہیں
بلکہ عالیشان مندر میں رہیں گے تو بھکت اپنی ٹاٹ کی کٹیا بھول کر ایک خیالی
محل میں پہنچ گئے ۔ یہ افیون پلا کر مودی جی اپنے محل میں آرام فرمانے کے
لیے چلے گئے مگر ان نامہ نگاروں کی بدولت ملک کے غریب ہندو عوام اپنے
جھونپڑوں کے اندر مودی چالیسا پڑھ کر پونیہ کمانے لگے ۔ دوسرے دن جب ونشہ
اترا تو لوگوں نے اخبارات کے پورٹلس کا رخ کیا تاکہ رام نام کے بعد کچھ کام
کی بات بھی پڑھ لیں تو انہیں حیرت کے کئی جھٹکے لگے۔ بھکتوں کو یہ توقع رہی
ہوگی کہ اب تو ملک کے سارے مسائل رام رام ہوچکے ہوں گے لیکن وہاں تو منحوس
خبروں کا انبار تھا ۔ اچھے دنوں کی ارتھی شمشان گھاٹ کی جانب رام نام ستیہ
ہے کی صدا بلند کرتے ہوئے رواں دواں تھی۔ اس دن کی سب چونکانے والی خبر یہ
تھی رام مندر کا فیصلہ کرنے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کورونا سے
متاثر پائے گئے ۔
آج کل خبروں کے ہرپورٹل پر سب سے اوپر کورونا وائرس منہ کھولے کھڑا دکھائی
دیتا ہے ۔ وہ توخیر 5 اگست کو بھی تھا لیکن ہنگامہ خیزی اس قدر تھی کہ اس
پر سےقارئین کی نظر پھسل گئی ۔ اگلے دن دیکھا تو56,282 نئے مریضوں کا اضافہ
ہوچکا تھا ۔ یہ عجب اتفاق ہے مودی جی کا پسندید عدد 56 بھی 6اگست کے انتظار
میں تھا ۔ وزیر اعظم نے ساڑھے چار ماہ قبل کورونا کو اپنی56 انچ کی چھاتی
سے ڈرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے چین کو لداخ بھیج کر انہیں ڈرا دیا ۔
اب مودی جی آنکھیں موند کرکہہ رہے ہیں کوئی گھسا ، نہ گھسا ہوا ہے یہ حسن
اتفاق ہے وزارت دفاع کی ویب سائٹ نے اس کی تردید کردی ۔ اب راجناتھ سنگھ کو
ملک کے بجائے اپنی وزارت کا دفاع کرنا ہوگا ۔ یہ خبر فوراً ہٹوا دی گئی ۔
کورونا سے مرنے والوں کل تعداد میں 904 کے اضافہ کی وجہ سے 40,699 تک پہنچ
گئی تھی ۔ اگلے دن کورونا کے معاملے میں ہندوستان 20 لاکھ سے آگے نکل گیا
اور بھکتوں کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
ہندی کے سب سے بڑے اخبار دینک بھاسکر کی ویب سائیٹ پر دوسری سب سے بڑی خبر
مودی جی کے اپنے شہر احمد آباد کی تھی ۔ وہی احمد آباد جہاں وزیر اعظم نے
بڑے فخر سے ٹرمپ کو نمستے کیا تھا اور شی جن پنگ کو جھولا جھلایا تھا ۔ شہر
کے نورنگ پورا میں واقع شریہ اسپتال کے آئی سی یو سینٹر میں بستر نمبر ۸
پر آگ لگی اور ۸ مریضوں نے جان گنوائی ۔ ایسا مودی جی کے ساتھ اکثر ہوتا
ہے کہ رات ۹ بج کر ۹ منٹ پر لوگوں کو ۹ منٹ کے لیے چراغ جلاکر اندھیرا
پھیلانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ مودی یگ میں تو حادثات بھی حساب کتاب سے ہونے
لگے ہیں۔ ویسے آگ اسپتال میں لگے یا سابرمتی ایکسپریس کے ڈبے میں مودی جی
دونوں پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک لیتے ہیں۔ مشکل میں موقع تلاشنے میں وہ
مہارت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ہلاک شدگان کے لیے دولاکھ کی مدد کا اعلان کرکے
راجہ ہریش چندر کی سمادھی پر لات مار دی۔ وہ بھول گئے کہ مہنگائی اس کے اس
دور میں دولاکھ کے اندر احمد آباد شہر کے اندر پان پٹی کا باکڑہ بھی نہیں
ملتا۔
اس حادثے میں آگ تو خیربجلی کی معمولی چنگاری سے لگی تھی لیکن بھگدڑ میں
آکسیجن سلنڈر گرگیا اور اس نے پورے آئی سی یو کو خاکستر کردیا ۔ یہ بالکل
سنگھ پریوار کی مروجہ حکمت عملی کے مطابق ہے کہ ایک معمولی سی نفرت کی
چنگاری کو ہوا دے کر پورا شہر فساد کی آگ میں جھونک دیا جائے۔وزیر اعظم کو
گجرات چھوڑے ۶ سال ہوچکے ہیں لیکن ان کی پرمپرا اب دائم و قائم ہے۔ اسپتال
سے سفاکی کی یہ خبر بھی آئی کہ آئی سی یو میںبار بار اپنا ماسک ہٹانے
والے مریض اروند بھائی بھاوسار کو چادر سے باندھ دیا گیا تھا اس لیے وہ
بیچارہ آگ کو دیکھ کربھی اٹھ ہی نہیں سکا اور زندہ نذرِ آتش ہوگیا۔ یہ
بھی حسن اتفاق ہے کہ اس اسپتال کام شریہ (یعنی کریڈٹ لینا)ہے ۔ بعید نہیں
کہ اس کا شیلاپوجن بھی مودی جی نے کیا ہو۔ اس لیے کہ اڈوانی کی رتھ یاترا
کا شریہ تو انہوں نے لے ہی لیا ہے۔ اس اسپتال سے نکالے جانے والے41مریضوں
کو گاندھی اسپتال میں نہیں بلکہ سردار پٹیل دواخانے میں منتقل کردیا گیا۔
فی الحال گجرات کی جیل سے لے کر اسپتال تک ہر جگہ سردار پٹیل ہی نظر آتے
ہیں گاندھی جیکہیں دکھائی نہیں دیتے۔
شیلا نیاس کے اگلے دن اتفاق سے دوسری بڑی خبر بھی گجرات کے خوبصورت شہر
سورت میں واقع وینس اسپتال کی تھی۔ وہاں پر 35سالہ ڈاکٹر ہتیش لاٹھیا نے
کورونا سے لڑتے ہوئے اس وقت دم توڑ دیا جب مودی جی ایودھیا میں پوجا پاٹ
کررہے تھے۔ بھاونگر کے رہنے والے لاٹھیا کا معاملہ بھی وزیر اعظم جیسا ہے
کہ 20 دن قبل علامات ظاہر ہوئیں مگر انہوں نے اس سنجیدگی سے نہیں لیا ۔
ویسے بھی سورت والے کورونا سے متعلق کم ہی سنجیدہ ہوتے ہیں ۔ تالی اور
تھالی بجاتے ہوئےیہیں سے گربا کھیلنے کی تصاویر شائع ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر
لاٹھیا جب بیمار ہوئے تو پھر اسپتال میں داخل ہونے کے بجائے گھر میں خود
کو4تا 5دنوں تک قرنطینہ کرلیا۔ اس کے بعد حالت بگڑی تو اسپتال لایا گیا
وہاں پہلے ۳ دن آکسیجن سلنڈر کی مدد سے سانس لی ۔ اس سے بات نہیں بنی کو
تو ۴ دنوں تک وینٹی لیٹر پر رہے لیکن طبیعت پھر بھی سنبھل نہیں پائی تو
ایڈوانس ای سی ایم او مشین منگوائی گئی۔ پانچ دنوں تک اس پر رکھا گیا لیکن
بالآخر انتقال ہوگیا ۔ ڈاکٹر لاٹھیا اگر مودی جی کی مانند لاپروائی برتنے
کے بجائے امیت شاہ جیسا احتیاط دکھاتے تو شاید اس پریشانی سے نہیں گزرتے۔
خیر بھکتوں کا چیلے پر گرو کو ترجیح دینا غلط بھی نہیں ہے۔ ویسے سورت شہر
کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے شیلانیاس کے دن تک جملہ متاثرین ۱۴ ہزار سے زیادہ
ہوچکے ہیں ۔ ۶۵۰ نے دم توڑ دیا ہے اور پچھلے ایک ماہ سے ہر روز ایک درجن
لوگ اس بیماری سے ہلاک ہورہے ہیں۔
کورونا کے سبب صحت اور جانی نقصان کے ساتھ مالی خسارہ بھی ہورہا ہے۔ اس کی
ایک مثال نجی بسوں کا شعبہ ہے ۔ گجرات کے لوگ چونکہ وزیر اعظم کی طرح سیر
وسیاحت کے شوقین ہیں اس لیے وہاں پر کل ۱۸ ہزار بسیں ان کو حمل و نقل کی
خدمات پیش کرتی ہیں اور لوگ ان پر امرناتھ تک جاتے ہیں ۔ کورونا نے کاروبار
ٹھپ کردیا اس لیے ریاستی حکومت نے ستمبر تک ٹیکس معاف کردیا لیکن اب بسوں
کے مالک سال بھر تک ٹیکس میں سہولت چاہتے ہیں کیونکہ ان کو ہر ماہ ۹۰ہزار
روپئے کا نقصان ہورہا ہے ۔ ڈرائیور اور کلینر کی تنخواہ گھر سے دینی پڑ
ررہی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی گاڑی کے غیر مستعمل ہونے کا اعلان کردیا ہے تاکہ
اوسطاً ۲۲ ہزار کے ٹیکس سے جان چھڑا سکیں ۔ گجرات کے اندر اور مہاراشٹر کے
قریبی شہروں میں جو بس چل رہی ہیں۔ اس میں ۴۰ کے بجائے ۲۰ مسافر ہوتے ہیں
جس سے ہر ٹرپ پر ۱۰ ہزار کا خسارہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس شعبے میں تقریباً
۱۵ سو کروڈ کا نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کا کام مندر بنانا نہیں بلکہ عوام کے
ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا ہے ۔
وزیر اعظم کے بھومی پوجن کا کوئی اثر ان کے اپنے گجرات میں تو نظر نہیں
آیا لیکن اترپردیش سے ایک رونگٹے کھڑے کردینے والی خبر بھاسکر اخبار کی
زینت بنی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے یہ خبر شیلا پوجن میں شریک واحد وزیر اعلیٰ
یوگی کے حلقۂ انتخاب گورکھپور سے آئی تھی ۔ اس ضلع کے ٹھاکر پور گاوں میں
۳۵ سالہ امرجیت اور اس کی بیوی رنکی کا پھاوڑے سے سفاکانہ قتل کردیا ۔ یوگی
ادیتیہ ناتھ خود تو برہماچاری بنے پھرتے ہیں لیکن ان کے صوبے کے لوگ ایک
چھوڑ دو دو بیاہ رچاتے ہیں ۔امرجیت گپتا بھی ان میں سے ایک تھا ۔ اس نے
پہلے تو ساوتری نامی خاتون کے ساتھ شادی کی اور اس کے دوبیٹے ۱۴ سالہ سورج
اور ۱۱ سالہ آکاش اپنی ماں کے پاس رہتے ہیں۔ امرجیت نے اپنی پہلی بیوی کو
تین تو چھوڑو ایک طلاق دینے کی بھی زحمت نہیں کی اور مودی جی کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے ساوتری کو معلق چھوڑ کر اپنے بچوں سے بھی منہ موڑ لیا۔ پولس نے
بتایا کہ گھر میں تین لوگوں کے کھانے کے برتن ملے ہیں اس لیے اندیشہ ہے کہ
قاتل شناسا تھا۔ وہ کھانے کے بعد وہیں رکا اور رات میں موقع دیکھ کر
بہیمانہ حرکت کردی ۔ بعید نہیں کہ پولس اس قتل کے تار ساوتری سے جوڑ کر
فائل بند کردے ۔ یہ سب اس اترپردیش میں ہورہا جہاں سب سے پہلے رام راجیہ
قائم ہونے والا ہے اور اس نیتا کےعلاقہ میں ہوا جو اپنے آپ کو لکشمن نہ
سہی تو بھرت سے کم بھی نہیں سمجھتا ہے۔ یہ بہت ہی بنیادی صحت کے، معاشی اور
اخلاقی و سماجی مسائل ہیں ۔ مجوزہ رام مندر ان کی جانب سے توجہ تو ہٹا سکتا
ہے لیکن انہیں حل نہیں کرسکتا۔ |