طالبان کس کیلئے خطرہ؟

امریکی جریدے نیوز ویک کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان نے ”امریکی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدلنے “ کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کے ملٹری چیف اور گوانتا موبے کے سابق قیدی ملا عبدالقیوم ذاکر اس سلسلے میں کافی سرگرم عمل ہیں اور وہ پاکستان میں موجود طالبان جنگجوﺅں کو متحرک کرنے میں مصروف کمانڈروں کے ساتھ ایک دن میں 8سے 10ملاقاتیں کرتے ہیں۔ وہ کوئٹہ میں قائم اپنے آپریشنل بیس کے علاوہ نواحی علاقوں میں طالبان سے ملاقاتوں پر ملاقاتیں کرتے ہیں جن کا مقصد افغانستان میں امریکی فورسز کی حالیہ کامیابیوں پیچھے دھکیلنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ طالبان گوریلوں کو میدان جنگ میں لانا ہے۔ ایک سینئر طالبان انٹیلی جنس افسر کی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے مذکورہ ملٹری چیف اپنے کمانڈروں پر واضح کررہے ہیں کہ پاکستان میں موجود کسی بھی طالبان کو سکون سے بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ہر کسی کو لڑائی میں حصہ لینا ہوگا۔

مغربی و امریکی میڈیا خبروں اور اطلاعات کو پراپیگنڈہ کے نقطہ نظر سے بیان اور پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ اپنے ممالک کی مخصوص پالیسیوں اور مقررہ اہداف کے حصول میں ان کا کردار اب ناگزیر بن چکا ہے۔ چونکہ نیوز ویک کی بین الاقوامی ریڈر شپ ہے لہٰذا مذکورہ خبر کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہوسکتا ہے کہ طالبان خود کو پاکستان میں منظم کر رہے ہیں اور وہ وہاں سے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس دعوے کو بھی سچ ثابت کرنا تھا کہ جس طرح اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں پایا گیا اسی طرح ملاعمر سمیت طالبان کی مرکزی قیادت کوئٹہ میں مقیم ہے جو افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ مگر حقیقت نیوز ویک کے دعوے کے برعکس ہے۔ طالبان جس طرح پاکستان کے اندر سول اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں، مذہبی مقامات پر عبادت میں مشغول افراد کی جان لے رہے ہیں، سکولوں اور کالجوں کو تباہ کر رہے ہیں، معصوم شہریوں پر خود کش حملے کر رہے ہیں ، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ساری طاقت امریکی کامیابیوں کو ناکام بنانے میں نہیں بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے میں صرف ہورہی ہے۔ کراچی کے مہران نیول بیس پر ہونے والا حملہ اس امر کو سچ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔

اطلاعات کے مطابق بہت سے حملوں کی طرح اس حملے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان نے قبول کر کے یہ ثابت کردیا کہ انہیں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگانے، افواج پاکستا ن اور اس کے سیکورٹی کے اداروں کو غیر فعال ثابت کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے غیر محفوظ ایٹمی اثاثوں کا یقین دلا کر انہیں ”محفوظ ہاتھوں “ میں لینے کا خواب پورا کیا جاسکے۔

بعض دفاع تجزیہ نگاروں کے مطابق مہران نیول بیس پر ہونے والے حملے کی نوعیت، طریقہ کار اور استعمال ہونے والے جدید اسلحے سے حملہ آوروں کے اصل سرغنہ کی شناخت کوئی مشکل نہیں۔ان کے مطابق پی تھری سی اورین طیاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا جو بظاہر طالبان اور القاعدہ کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے۔ یہ طیارے سمندر کی فضائی نگرانی اور آبدوزوں کا سراغ لگانے کی بھرپور صلاحیتوں کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ میزائل سے لیس ہوکر بارہ گھنٹے تک مسلسل پرواز کرسکتے ہیں۔ ان خوبیوں کی بنا پر اگر یہ کسی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں تو وہ بھارتی بحریہ ہے۔ جسے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ ان طیاروں کی بدولت پاک بحریہ کو ان پر برتری حاصل ہے۔ اس تناظر میں دہشت گردی کی اس واردات میں صرف اور صرف بھارت کے مقاصد پورے ہوئے ہیں اور پاک بحریہ کو ان طیاروں کی بدولت اس پر جو فوقیت حاصل تھی، اس کو ایک زبردست جھٹکا پہنچا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ چدم برم اس واقعے پر لاکھ دکھ اور افسوس کا اظہار کریں ہمیں ان کے مگر مچھ کے آنسوﺅں پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے اور بھارتی عناصر کے ملوث ہونے کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

بہرحال بات ہورہی تھی نیوز ویک میں شائع ہونے والے طالبان کے عزائم کی ۔ اس خبر میں ملا قیوم ذاکر کا ذکر کیا گیا ہے جو طالبان کو امریکہ کیخلاف متحرک کرنے کے لئے دیوانگی کی حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ انہیں طالبان کو متحرک کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی وہ تو پہلے ہی اپنا کام بخوبی کررہے ہیں۔ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کی دفاعی صلاحیت پر کاری ضرب لگاتے جارہے ہیں۔وہ تو اتنے متحرک ہیں کہ انہوں نے دو مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے نام نہاد کمپاﺅنڈ پر امریکی سیلز کے حملے کا بدلہ صرف چند روز بعد ہی چارسدہ میں ایف سی کے سو سے زائد نوجوان ریکروٹوں کو شہید کر کے چکا لیا تھا۔ وہ یہی نہیں رکے بلکہ نیول بیس مہران پر بھارت پر دہشت ڈھانے والے طیاروں کو بھی برباد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ وہی طالبان پاکستان کو نشانہ بنانے کا عزم کرتے دکھائی دیتے ہیں جو امریکی جیل گوانتا موبے سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔کیا امریکی انہیں اس شرط پر رہا کرتا ہے کہ وہ باہر آکر امریکی عزائم کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہوجائیں؟

حقیقت یہ ہے کہ طالبان، امریکہ اور بھارت تینوں پاکستان کو دشمن خیال کرتے ہیں۔ جسے جتنا موقع ملتا ہے پاکستان کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔ بھارت کا مقصد ہمیں دفاعی لحاظ سے اتنا کمزور کرنا ہے کہ ہم آسانی سے اس کے قدموں میں آگریں، امریکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر ہاتھ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تذویراتی گہرائی اور قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پہلے افغانستان پر قبضہ جمایا اور پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے پاکستان منتقل کردیا۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ ان دونوں کا آلہ کار بن کران کے خوابوں کو عملی جامہ پہناتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی سلامتی کی فکر کرنی چاہئے۔ حکومت، سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات سے بالاتر رہ کر اور افواج پاکستان اور خفیہ اداروں کو اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر پاکستان بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ صرف مئی میں ہونے والے واقعات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ہم واقعی حالت جنگ میں ہیں۔ بعض لوگ ابھی تک یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں۔ ان کی آنکھیں 2 اور 22مئی کے واقعات کے بعد کھل جانی چاہئیں کہ اب امریکہ ہمیں اتحادی کی بجائے دشمن کا درجہ دے چکا ہے اور طالبان بھی ہمارا ”اسٹریٹجک اثاثہ“ نہیں رہے۔ اس حقیقت کے باوجود بھی اگر ہم اسی چکر میں الجھے رہے کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں تو پھر وطن عزیز کی سالمیت کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ہمیں امریکی، بھارتی اور طالبان و القاعدہ سے بیک وقت مقابلہ کرنا ہے ہم جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کرلیں گے اتنی جلدی سے حالات پر قابو پانے کے قابل ہوسکیں گے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69398 views Columnist/Journalist.. View More