حزب اختلاف کی جماعتیں باہمی اتفاق کے فقدان کے باعث
حکومت کے لئے کسی بڑی پریشانی کاباعث نہیں بن سکتیں۔ مولانا فضل الرحمن نے
اتحادی جماعتوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر ایک بار پھر علیحدہ ہو کر
پشاور میں جلسے و احتجاج کی کال دی ہے ،تاہم حکومت کے لئے پہلے بھی مولانا
صاحب پریشانی کا باعث نہیں بن سکے تھے،ریاست کو ان سے کوئی خطرات بھی لاحق
نہیں۔پُر امن مظاہرے ، جلسے جلوس و عد م تشدد جمہوریت کی اساس ہیں اگر اس
فلسفے پر سب کو یقین ہو۔
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ حکومت کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہاتھا
، ان کا اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی تمام جدوجہد میں ناکامی کے
باوجود کامیابی کا تاثر دے کر واپس آنا یقینی طور پر ناخوشگوار تجربہ ثابت
ہوا ۔ اس اَمر کو مولانا صاحب کے مقلدین قبول کریں یا نہ کریں لیکن یہ
زمینی حقائق ہیں کہ جمعیت کی تمام سعی ناکام رہی ، بظاہر نمائشی طور پر اے
این پی ، پی پی پی ، پاکستان مسلم لیگ ن ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی وغیرہ
کے رہنماؤں نے خطاب ضرور کیا ، لیکن ان جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد
دھرنے میں موجود نہ تھے ، اگر ایسے یوں سمجھا جائے کہ انہوں نے دھرنے میں
مہمان اداکار کا کردار ادا کیا تھا تو غلط نہ ہوگا ۔ مولانا فضل الرحمن روز
اول ہی حزب اختلاف کی جماعتوں سے مطالبہ کرچکے تھے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے
سے بہتر ہے کہ استعفیٰ دے دیں لیکن بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے
طفل تسلیاں ، وعدے وعید کے بعد وہ اپنے دیرینہ مطالبے سے دستبردار ہوئے ۔
حزب اختلاف کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اس اَمر کا بخوبی ادارک ہے کہ عوام
تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود کسی ایسی تحریک کے حق میں نہیں ،جس کی
وجہ سے انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔ عوام بے روزگاری ، مہنگائی
سمیت غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ، کیونکہ ان میں اب بھی
نہ جانے کیوں ایک امید سی قائم ہے کہ شاید سب کچھ دوبارہ ٹھیک ہوجائے۔
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین پر عوام کا اعتماد مستحکم نظر نہیں آتا ، اس کی
کافی وجوہ ہیں لیکن ایک اَمر پر سب متفق ہیں کہ حکومتی ٹیم میں اہلیت کا
فقدان ہے ، جس سبب عمران خان اس قدر بے بس نظر آئے کہ انہوں نے بیان دے
ڈالا کہ وہ کشتیاں جلا چکے ہیں ، یہ ایک معنی خیز بیانیہ ہے کہ وزیراعظم
ہونے کے باوجود کشتیاں جلا کر میدان جنگ میں اترنے و کسی بھی ردعمل سے بے
پروا ہ ہوکر بے خوف کام کرنے کا اعلان حزب اختلاف کے لئے تھا یا پھر اپنی
کابینہ یا حکومتی اتحادیوں کے لئے۔
مولانا فضل الرحمن ، پاکستانی سیاست کے نوابزدہ نصر اﷲ خان ہیں جو ہمہ وقت
حکومت مخالف تحریکوں کے لئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔ اب یہ مولانا کی
بدقسمتی ہے یا پھر حزب اختلاف کی مجبوری کہ وہ تمام تر کوشش و خواہش کے
باوجود اُس طرح احتجاج کرنے سے قاصر ہیں جووہ چاہتے ہیں۔ ان کا ایک بار پھر
اپنی جماعت کی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ، ان کا جمہوری حق ہے اور جمہوری
نظام میں اس قسم کے احتجاج ، جلسے جلوس اور دھرنوں پر کوئی پابندی بھی نہیں
لگائی جاسکتی ، لیکن کیا ماضی میں آزادی مارچ کے ناکام تجربے کے بعد ، کیا
کوئی نئی حکمت عملی اپنائی جائے گی، اس کا جواب وقت ہی دے گا۔ تاحال اسلام
آباد دھرنے کا کوئی امکان نہیں ، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جب خود
اعتماد سازی کی فضا قائم نہیں تو ان حالات میں عوام کو گھروں سے نکالنے کی
کال بے سود کوشش شمار ہوگی، بادی ٔالنظر عوام حزب اختلاف کے کردار سے مطمئن
نہیں۔
حزب اختلاف ، پارلیمنٹ میں حکومت کے سہولت کار وں کا کردار ادا کررہی ہے
اور پی ٹی آئی کو کوئی بھی بل پاس کرانے کے لئے مجموعی طور پر ناکامی کا
سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ حکومت کی جانب سے جو بھی ترمیم اور قانون ساز ی کی
جاتی ہے اس پر اپوزیشن شور تو خوب مچاتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر رائے
شماری میں حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے ۔ بعدازاں پریس کانفرنسوں میں
تاویلات پیش کرتے ہیں لیکن عوام اس دوہرے معیار کی کسی بھی وجوہ کو ماننے
کو قطعاََ تیار نہیں ، ان کا واضح موقف ہے کہ جیسے ہمارے سامنے ہو ، ویسے
پارلیمنٹ میں بھی کردار ادا کرتے نظر آئیں ورنہ خاموش رہ کر اگلے الیکشن کا
انتظار کریں ۔ظاہر ہے کہ اس وقت یہ عالم ہے تو آیندہ ہونے والے انتخابات
میں عوام کا رجحان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو
اقتداردلانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے ۔ ان حالات
میں حزب اختلاف کے پاس واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ اِن ہاؤس تبدیلی کے لئے’’
تن من دھن‘‘ لگا دیں ۔
احتجاجی تحریکیں موجودہ حالات میں موثر ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ معروضی
حقائق سب کے سامنے ہیں کہ عمران خان کو وزرات اعظمیٰ سے ہٹانے کے لئے دھرنے
و جلسے کافی نہیں۔ اس کے لئے حزب اختلاف کو توقعات سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا
، لیکن ان کی تمام سیاست سرد خانے میں ہے اور آنے والے سرد مہینوں میں
دھرنوں و احتجاجوں کی تحریک کبھی کامیاب ہوئی اور نہ کبھی ہوسکتی ہے ، واحد
طریقہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تحریک عد م اعتماد لا نا رہ جاتا ہے۔
بظاہر قیاس کیا جائے تو یہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے آئیڈیل موقع بھی
ہے کیونکہ تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے والی شخصیات اس وقت گڈ بک میں
شامل نہیں ۔ ان ہاؤس تبدیلی کوئی غیر آئینی اقدام نہیں بلکہ جمہوری عمل ہے
، اگر اراکین کا اعتماد قائد ایوان پر نہ ہو تو آئین کے مطابق تبدیلی لائی
جاسکتی ہے ، لیکن کیا اس کے لئے اپوزیشن جماعتیں تیار ہیں ، یہ وہ سوال ہے
جس کا جواب غالباََ حزب اختلاف کے پاس بھی نہیں ۔
اپوزیشن مشترکہ لائحہ عمل پر عملی طور پر اترنے کے لئے جھجھک رہی ہیں ،
انہیں نادیدہ خوف نے جھکڑ رکھا ہے، یاشاید کسی معجزے کے منتظر ہیں کہ چھو
منتر ہوجائے اور تحریک انصاف کی حکومت ہوا میں تحلیل ہوجائے ۔ ہوا میں قلعے
بنانا اور خیالی پلاؤ بنانے کے اس عمل میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہ
سوچنا ہوگا کہ ان کی لاغرمشقیں کہیں وطن عزیز کو مزید پریشانیوں و نامساعد
حالات و غیر متوقع صورتحال سے دوچار نہ کردے۔ ریاست اس وقت وطن دشمن عناصر
کی سازشوں میں گھری ہوئی ہے ، لہذاجو قدم اٹھائیں سوچ سمجھ کر اٹھائیں
کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔
|