80کی دہائی میں ہندوستان کے اندر ہوش سنبھالنے والے بہت
سارے لوگوں نے فلم شعلے تو نہیں دیکھی ہوگی لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جس
نے ’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘ والا مکالمہ نہ سنا ہو۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اول
تو یہ ہے کہ اس زمانے میں نغموں کی مانند اس کےمکالمہ گلی ، محلوں بلکہ پان
کی دوکانوں تک میں ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے سنائے جاتے تھے اور یہ ڈائیلاگ
لوگ روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرنے لگے تھے گویا ان کو محاورے کی سند مل
گئی تھی۔ نصف صدی کے بعد یہ نوزائیدہ محاورہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت پر
صادق آرہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے صدر ٹرمپ نے منتخب ہونےکےایک سال پہلے سے
اپنی شبیہ ایک نہایت جری اور خوفناک گبرّ سنگھ جیسےسیاستداں کی بنارکھی ہے
یعنی جو آئے دن دوسروں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ مشیت کی کاریگری بھی
ایسی ہے کہ اچھے اچھوں کے ہاتھ پاوں پھول جاتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جسامت
کچھ اس طرح کی ہے کہ عام حالت میں بھی وہ پھولے پھلے نظر آتے ہیں لیکن فی
الحال ان کے بیانات سے داخلی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ
نےشاید محسوس کرلیا ہے کہ انتخابات کی سوئی اس بار ان کی ہوا نکال دے گی
اورجب نتائج کا اعلان ہوگا تو وہ پچک جائیں گے ۔
امریکہ میں انتخابی روایت یہ ہے کہ سرکاری طور پر ووٹنگ کی گنتی مکمل ہونے
سے پہلے ہی جزوی نتائج کی بنیاد پر فاتح کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ عموماً
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی اور دیگر ادارے سخت مقابلوں میں فاتح کا
اعلان کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ حتمی گنتی کے بعد اعلان بدلنے کی نوبت
آسکتی ہے۔ اِن میل ووٹنگ کی وجہ سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات
کے نتائج تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیںلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط یا
دھاندلی زدہ ہو ں گے۔ صدر ٹرمپ اپنی شکست کے ڈر سے الیکشن کے نتائج کو
مشکوک بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کا ایک احمقانہ مطالبہ یہ بھی ہے کہ
الیکشن میں فاتح امیدوار کا اعلان ۳ نومبر کی رات کو ہی کیا جائے۔ نامہ
نگاروں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نےکہا ہے کہ 'آپ کو الیکشن نتائج کے لیے
کئی ہفتے یا مہینے انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ شاید آپ ان نتائج کو کبھی نہ
جان سکیں۔ مجھے اس حوالے سے پریشانی ہے کہ یہ فکسڈ یا دھاندلی زدہ ہو سکتے
ہیں۔' اس کے برعکس سابق صدر بارک اوباما نے امریکی ڈاک کے نظام پر بے بنیاد
الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے عوام کا حق بتایا گویا اس میں رکاوٹ ڈالنا
رائے دہندگان کی حق تلفی ہے۔
امریکہ میں ایک فرد کو دو مرتبہ انتخاب لڑنے کا موقع رہتا ہے لیکن اگر کسی
صدر کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوجائے تو اسے دوسری بار امیدوار
نہیں بنایا جاتا ۔ ٹرمپ پہلے صدر ہیں کہ جو مجموعی طور پر پسندیدگی کی 40
فیصد سے کم کی مستقل ریٹنگ اورمواخذے کےباوجود الیکشن میں دوبار کامیابی
حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں ۔ٹرمپ کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات
سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کےدوران ہی اپنے جوشیلے
مینیجر بریڈپارسکیل کو برخواست کردیا ۔ ان کے بہکے بہکے بیانات میں بھی
خاصی تیزی آئی ہے مثلا ًانہوں نے اپنےحریف جوبائیڈن پر الزام لگا دیا کہ
’وہ موجودہ امریکی زندگی ختم کردینے کے خواہشمند ہیں ، تاہم اس کا نتیجہ
انتشارکی صورت میں نکلے گا اور امریکی شہر جرائم کا گڑھ بن جائیں گے‘۔ ٹرمپ
نے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ جوبائیڈن امریکیوں کو اس
مقام پر لےجائیں گے جہاں انہیں بائیں بازو کے سخت گیر غنڈوں کے سامنے دب کر
رہنا ہوگا۔سچ تو یہ ہے کہصدر ٹرمپ خود تاریخی نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کے
مجرم ہیں ۔ پولیس کی بے رحمی کے سبب ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کرنے
والوں کو ظالم اور مجرم قرار دینے والے ٹرمپ کا نسل پرست بھیانک چہرہ
دنیاکے سامنے آچکا ہے۔ متعدد شہروں میں فیڈرل ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ
کی وجہ سے مقامی برادریوں میں اشتعال بڑھا ہے اور ٹرمپ کی مقبولیت میں
زبردست کمی آئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے علم نفسیات میں طبی ڈگری
رکھنے والی بھیتجی میری ٹرمپ کیتصنیف ’بہت زیادہ پھر بھی ناکافی: کیسے میرے
خاندان نے دنیا کا خطرناک ترین انسان بنایا‘ پر ایک غائر نظر کافی ہے ۔ اس
کتاب میں انہوں نے اپنے چچا کو ’ایک دھوکے باز اور بدمعاش‘ شخص قرار دیا
ہے۔55سالہ میری ٹرمپ اپنے چچا کی بابت رقمطراز ہیں کہ وہ حرص و ہوس کے
معاملے میں ’ھل من مزید‘ کےقائل ہیں ۔ امریکی صدر میں خود پسندی کے تمام
خصوصیات پائی جاتی ہیں۔میری ٹرمپ کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف کمزور ہیں
بلکہ ان کی انا بے حد نازک ہے جو ہر لمحہ مجروح ہوتی رہتی ہے ۔ شاید اندر
ہی اندر وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسے ہرگز نہیں ہیں جیسا وہ ہونے کا دعویٰ کرتے
ہیں۔‘میری ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے چچا نے یونیورسٹی میں داخلے کے
لیے دیئے جانے والے اپنے ’سیٹ‘ ( SAT) امتحان کے لیے ایک دوست کو اچھی خاصی
رقم دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو خدشہ تھا کہ وہ خود امتحان میں شریک ہوکر کامیاب
نہیں ہو پائیں گے۔
میری ٹرمپ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چچا ٹرمپ نے ان کے لیے فرضی نام سے
'آرٹ آف کم بیک' کے عنوان سے ایک کتاب لکھنے کی درخواست کی تھی ۔ اس کتاب
کی تیاری کے لیے ایسی خواتین سے شکووں بھری تفصیلات فراہم کی تھیں جن سے وہ
تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے ۔ ان خواتین نے جب ٹرمپ کی پیشکش ٹھکرادی دی
تو وہ ان کواچانک بدترین، بدصورت اور گندی اور فربہ لگنے لگیں ۔میری نے
اپنے چچا صدر ٹرمپ پر یہ سنگین الزام بھی عائد کیا کہ جب وہ 29 برس کی تھیں
تو ٹرمپ نے ان کے جسم کے بارے میں کچھ معنی خیز جملے کہے حالانکہ وہ ان کی
سگی بھتیجی تھیں اور وہ اپنی دوسری بیوی مارلا میپلز کے ساتھ رشتہ ازدواج
میں تھے۔ قصر ابیض نے ان تمام الزامات کی تردیدتو کی لیکن قابلِ ذکر بات یہ
ہے کہ اس کتاب مصنفہ نےنیویارک ٹائمز کو وہ ٹیکس دستاویزات فراہم کیے تھے،
جن کی مدد سے اخبار نے ’سنہ 1990 کی دہائی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مشتبہ ٹیکس
سکیموں، بشمول کھلی دھوکہ دہی کے واقعات‘ کے متعلق 14 ہزار الفاظ پر مشتمل
تحقیقاتی مقالہ شائع کیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2016 میں ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی میری نے
کو 'اپنی زندگی کی بدترین رات' قرار دیتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’ہمیں
کڑی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور مجھے اپنے ملک پر ترس آتا ہے‘۔ میری ٹرمپ
کی پیشن گوئی صد فیصد درست ثابت ہوئی ۔ اب دیکھنا یہ ہے امریکی عوام اس
آزمائش سے پیچھا چھڑاتے ہیں یا پھر سے اسے گلے لگا لیتے ہیں؟آج کل امریکہ
کے اندر یہ سوال زیر بحث ہے کہ انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے کے بعد کیا
ٹرمپ الیکشن کے نتائج کو برضا رغبت قبول کرلیں گے؟ وہ اگر ہار گئے تو کیا
قصرِ ابیض خالی کردیں گے؟ ٹرمپ نے جب انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا تو ان
سے پوچھا گیا کہ آیا وہ انتخابی شکست کی صورت میں نتائج کو تسلیم کریں گے
یا نہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کہتے ضرور بالضرور قبول کروں گالیکن
انہوں جواب نہیں دیا۔ اس خاموشی میں ان کے دل کا کھوٹ چھپا ہوا ہے۔
آمریت کی طرح جمہوریت میں بھی حکمراں اقتدار لوٹانے میں آنا کانی کرتے
ہیں۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار بہت سالوں تک کسی ایک خاندان یا پارٹی
کے پاس نہیں رہا لیکن کم از دوسرے نظامہائے زندگی میں اقتدار پر قبضہ کرنے
کے لیے اپنے عوام کو دھوکہ دینے ضرورت نہیں پیش آئی۔ اس کے علاوہ پر امن
انتقال اقتدار کا دعویٰ بھی فریب ہے کیونکہ ہر انتخابی مہم کے پہلے پر
جمہوریت نواز سیاسی پارٹیاں نفرت و تشدد بڑھا کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی
ہیں ۔ عام طور پر انتخابی کامیابی کے لیے جس تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے وہ
اپنی سرحد تک محدود ہوتا ہے مثلاً ہندوستان کے اندر برپا ہونے والے فرقہ
وارانہ فسادات لیکن امریکہ اس کھیل ملک کے باہر کھیلتا رہا ہے۔ اسی لیے
ویتنام اور افغانستان اس کے نشانے پر رہے ہیں ۔ کویت اور عراق کی فوج کشی
بھی اسی ضرورت کا نتیجہ تھیں ۔ اسرائیلی حکومت ہر انتخاب سے قبل غزہ پر
حملہ کرکے اپنے عوام کے جذبات بھڑکاتی ہے اس کی تقلید میں ہندوستان نے بھی
بالاکوٹ پر حملہ کرکے انتخاب جیتا ۔ اس طرح دنیا کے مختلف جمہوریتیں ایک
دوسرے جبرو ظلم کے نت نئے طریقے سیکھتی ہیں۔
شعلے کا گبرّ کی جانب لوٹیں یاد آتا ہے’ڈرنے اور مرنے ‘ والامکالمہ اپنے
لیے نہیں بلکہ ان ساتھیوں کے لیے کہتا ہے جو ہار کر لوٹے تھے ۔ اس کے خیال
میں ہارنے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ اس لیے اپنے ساتھیوں کو موت
کی نیند سلانے کے بعد وہ اپنی اس سفاکی کو جواز فراہم کرتے ہوئے کہتا ہے
’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘۔ اس مرتبہ بعید نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کے
ایوان بالہ ، ایوان زیریں اور عوام کے فیصلے کو پھانسی پر لٹکا کر اعلان
فرمائیں کہ ’جو ڈر گیا وہ مر گیا ‘ تاکہ سارا ملک ان سے خوفزدہ ہو کر سمجھ
جائے کہ اگر وہ گبر ّکے بجائے کسی اور ڈرکر اس کی پناہ میں بھا گ آئے تو
ان کا حال بھی کالیا جیسا ہی ہوگا ۔ اس لیے کہ پچاس پچاس ملک دور جب کسی
ملک کے عوام روتے پیٹتے ہیں تو ان کے حکمراں کہتے چپ ہوجا وورنہ ٹرمپ آئے
گا۔ کوئی نظام سیاست اگر ایسے سردار کو رسوا کردے تو اس زندہ رہنے کا حق
نہیں ہے اور اس کو گولیوں سے بھون دینے کے لیے سردار حق بجانب ہے۔ لطف کی
بات یہ ہے فلم شعلے میں شائقین کو گبرّ کی سفاکی کا شکار ہونے والوں سے
ہمدردی نہیں ہوتی بلکہ وہ تالیاں بجا کر سردار کو دادِ تحسین دیتے ہیں ۔ اس
لیے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اگر ٹرمپ امریکی جمہوریت کو سولی چڑھا دیں تب
بھی فوکس نیوز کے اینکرس اس کا جشن مناتے ہوئے بغلیں بجائیں گے اورری پبلک
ٹی وی کا ارنب گوسوامی داڑھی بڑھا کر آرتی اتارے گا ۔
)۰۰۰۰۰۰جاری )
|