یہ مکلی ہےجو میں نے اپنی ٢٠٢٠ کے موٹرسائیکل پر کیے گئے
ٹور میں دیکھا
مکلی کراچی سے ٹھٹہ کی جانب ٹھٹھہ سے پہلے آتا ہے۔
آج مکلی کے قبرستان سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام ہے اور اقوام متحدہ کے (یونیسکو)
کے لئے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ 1981 میں دیا گیا تھا۔
لیکن حکومت پاکستان اس خوبصورت اسلامی اور آرٹ کے ورثہ کی دیکھ بھال اور
تحفظ کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔اس کو زیادہ نقصان 2010 میں آنے والے
سیلاب کے نتیجے میں ہوا لیکن کچرے اور ناقص انتظمات کا نقصان الگ ہے۔
لوگوں کا خیال ہے ان لاکھوں قبروں میں ماضی کے تریبا سوا لاکھ صوفی آرام
فرما رہے ہیں۔
جو زائرین کی توجہ کا مرکز ہیں۔
سب سے خوبصورت اور متاثر کن مقبریٰ عیسیٰ خان کا مقبرہ ہے۔
وہ ایک ظالم حکمران تھا۔جس کے ظلم کی انتہا آپ دیکھ لیں۔کہا جاتا ہے کہ
اپنی موت سے پہلے ، انہوں نے کاریگروں کو اپنی قبر تعمیر کرنے کا حکم دیا ،
اور مقبرہ کی تکمیل سے قبل اس نے انتہائی ہنرمند کاریگر کے ہاتھ کاٹ ڈالے
تاکہ کوئی بھی اس کی قبر کی خوبصورتی کی نقل نہ کر سکے۔
ان کی قبر مکلی ہل کے قبرستان میں موجود ہے اور اسے فن کا بہترین ورثہ
سمجھا جاتا ہے۔
مکلی ہل قبرستان اس لئےبھی اہم ہے کیونکہ اس میں فن کا ایک نمایاں حصہ ہے۔
قبرستان ، مقبرے اور مزار بہت ہی تاریخی اہمیت کے حآمل ہیں۔
ان یاد گار مقبروں پر مختلف ڈیزائن ٹھٹہ کے مختلف ادروار کی وضاحت کرتے ہیں۔
ان میں استعامل ہونے والا پتھر ماربل اور گرنائیٹ ہے۔جس کے متعلق یہ بھی
کہا جاتا ہے کہ وہ انڈیا کےشہر راجستان سے منگوائے گئے تھے
یہ تاریخی ورثہ مسلم ، مغل ،ہندو ، فارسی اور گجراتی فن تعمیر کی شاندار
عکاسی کرتا ہے، اس طرز تعمیر کو سندھ میں چوکھنڈی طرز کے نام سے مشہور ہوا،
جسے کراچی کے قریب چوکھنڈی مقبروں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
بہت سے بڑے مقبروں میں جانوروں ، جنگجوؤں اور اسلحہ سازی کی نقش و نگارنظر
آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو حیرت انگیز چیز میں نے دیکھے وہ یہ تھی کہ
مقبرے کی عمارت پر ہندومذہب، عیسائی مذہب، یہودی مذہب کے مذہبی نشان نظر
آتے ہیں اور مسلمانوں کے نشان آیات کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
یہ تاریخی ورثہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان شمار کیا جاتاہے۔یہ تقریبا 16
کلو میٹر مر مشتمل ہے۔اورلاکھوں مہاراجوں، مہارانیوں گورنروں فوجیوں اور
صوفیوں کی آخری آرام گاہ ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے جب سندھ
کا سفر کیا تو بھی آرام کرنے کے لیے اسی جگہ رکا تھا،
اس کی ابتدا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ صوفی شاعر شیخ جمالی نے یہاں خانقاہ
تعمیر کی تھی، چودھویں صدی کے حکمران جام تماچی کی خواہش تھی کہ وہ ولی
اللہ کے قرب میں دفن ہوں اس طرح اس قبرستان کی ابتداء ہوئی۔
عبید الرحمٰن معادیہ،
|