آزادی کے70 ویں سالگرہ کیلئے محض چند دن باقی ہیں ،ہم
ہندوستان میں آزاد ہیں ،ہمارا اپنا دستور ہے،ہم جمہوری ملک میں رہتے
ہیں،ہمیں جینے کااور بولنے کا حق ہے اور کھانے کا حق ہے،پہننے کا حق
ہے،اپنے اپنے مذہب کو ماننے کاحق ہے،اپنی مذہبی رسومات و اپنی مذہبی
عبادتوں کو اپنے طریقے سے انجام دینے کے اختیارات ہیں اور اس ملک میں پیدا
ہونے پر واقعی ہم خوش قسمت ہیں۔کاش یہ اس ملک میں آئین ودستور میں لکھی
گئی کتابوں کے تحت ہی ماحول ملتا،اس ملک میں ہم مسلمان دوسرے ممالک کے
مقابلے میں محفوظ ضرور ہیں لیکن سماجی انصاف ،آئینی حقوق اور آئینی حقوق
سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔یہی وجہ ہے آج ملک کے مسلمان غیر محفوظ سمجھ رہے
ہیں۔ہندوستان کی آزادی کیلئے مسلمانوں نے جو خون بہایا تھا وہ آج تاریخ
صفحات سے ہٹایا جارہا ہے اور آج مسلمانوں کو ملک کے غدار،ملک میں مہاجر و
دہشت گرد کے علاوہ نہ جانے کن کن ناموں سے یاد کیا جارہا ہے۔یقینا مسلمان
اس ملک کے کرایہ دار نہیں بلکہ حصہ دار ہیں،اور حصہ دار کبھی اپنا حصہ نہیں
چھوڑتا،باوجود اس کے ہمیں بار بار اس ملک کو چھوڑنے کیلئے کہا جارہا
ہے۔ہندوستان کی تاریخ کے صفحات کو اٹھا کر دیکھیں تو اس ملک کا ذرہ ذرہ
مسلمانوںکی قربانیوں سے لبریز ہے۔ہم ہر سال 15 اگست کے طور پر یوم آزادی
مناتے ہیں اور ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ ہم اس ملک کی آزادی کے جشن کو بلا
تفریق اور بلا کسی پس و پیش کے مناتے آرہے ہیں،لیکن ہر سال وہربار ہماری
وفاداری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔آخر کیوں ایسا کیا جارہا ہے؟۔سوال ہمارے
ہیں اور ان کا جواب بھی ہمارے پاس ہے۔لیکن سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ آخر
مسلمانوں سے اس ملک کی حکومتوں اور سیاستدانوں کو کیا پریشانیاں ہورہی
ہیں،پہلے ہم مسلمانوں کو تقسیم وطن کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور پھر فرقہ
پرست اور اب دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔پچھلے70 سالوں سے مسلمان اپنے وجود
کو بحال رکھنے کیلئے کوشش کررہے ہیں لیکن مسلمان ہر امتحان میں کامیاب ہونے
کے باوجود ان کے نتائج کو منفی ہی قرار دئےے جارہے ہیں۔ہم اس ملک کے شہری
ہیں یہ ملک ہمار ا ہے اور اس ملک کی پاسدار ی ووفاداری کو ہم ہمیشہ تسلیم
کرتے ہیں جو لوگ اس ملک سے محبت نہیں رکھتے وہ اس ملک کے غدار ہیں،یہ بات
بھی ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن بار بار چلاچلا کرکہنے کے باوجود بھی ہمیں اس
ملک میںسکون سے رہنے نہیں دیا جارہا ہے۔جب بھی ہندوستان کیلئے مسلمانوںکے
خون کی ضرورت پڑی تب مسلمانوں نے اپنے خون کی قربانیاں دی ہیں۔حالانکہ
ہندوستانی فوج میں ہمارا وجود صرف3 فیصد ہے لیکن جب بھی وطن کیلئے سینہ پیش
کرنا پڑا تو وطن کے مسلم سپاہیوںکی پیٹھ نہیںدکھائی ۔پچھلے سات سالوںمیں
پچاس سے زائد مسلم فوجیوںنے اپنے خون کی قربانی دی ہے۔بات چاہے راشد حسین
کی ہویا حلیم انصاری کی،یا پھر بات نسیم علی کی ہویا محمد نعیم قریشی
کی۔1962 کی جنگ میں شہید ہونے والے حولدار عبدالحمید نے تو اپنے سر پر کفن
باندھ کر دشمنوں کے ٹیانکروںکے سامنے جامِ شہادت نوش کی تھی اور کارگل کی
جنگ میں ہمارے مسلم فوجیوںنے شہادت قبول کی،جن میں لیفٹنینٹ حنیف
الدین،لانس نائک احمد علی،لانس نائک غلام محمد خان،حولدار عبدالکریم،حولدار
محمد اسلم،محمد فریدجیسے سینکڑوں سپاہی بھی شہید ہوئے۔یہ تمام وطن کی
سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی جان گنوانے والوںمیں سے تھے یہ تمام مسلمان ہی
ہیں۔ان میں سے ہزاروں فوجی جو اس جنگ میں اپنی بہادری دکھاتے ہوئے وطنِ
عزیزکی جیت کا پرچم لہراکر زندہ لوٹ آئے ہیں وہ اسی وطن پرستی ،وطن سے
محبت کا ثبوت ہیں۔صوبےدار سالار اعجاز احمدجوکارگل کی جنگ میں دشمنوں کے
جہازوں کو روکنے کیلئے آینٹی ائیر کرافٹ گنس سے مسلسل گولہ باری کرتے رہے
اورحوالدارجمیل اختر بہارموجود ہیں ،یہ سب تو اپنی زندگیوںکو وطنِ عزیز
کیلئے قربان کرنے والے لوگ ہیں۔ہم اس ملک میں برابر کے حصہ دارہیں،لیکن
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ہمیں حصہ نہ صحیح کم
ازکم بھیک تو دے دیں،ہمارے ووٹوںکے بدلے ہمارے بچوں کو رہا کردیں،ہمارے خون
کے بدلے ہماری نسلوں کو تعلیم کیلئے ریزرویشن دے دیں۔آزادی سے پہلے
علماءنے جو قربانیاں دی تھیں اُن قربانیوں کے عوض ہماری مسجدوں و مدرسوں
کوتو بخش دیں،بس یوم آزادی کی70 ویں سالگر ہ پر ایوانِ اقتدارکے نمائندوں
سے اتنی ہی گذارش کرتے ہیں۔آزادی کے وقت تقسیم وطن کے ذمہ دارہم لوگوں کو
نہ ٹھہرائے وہ تو مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس تھی جو جذبات اور
اقتدارکی لالچ میںآکرتقسیم وطن کیلئے ہاتھ اٹھائے ورنہ یہاں کا عام مسلمان
اور عام ہندو ہرگزبھی اس ملک کی تقسیم نہیں چاہتا تھااور تقسیم وطن کے بعد
اس ملک کے مسلمانوں نے پڑوسی ملک کی خاطر اپنی محبت کا تقاضہ پیش نہیں
کیا۔ہاں وہ ہمارے پڑوسی ہیں ہم ان کی عزت ضرورت کرتے ہیں،لیکن ہم اس مٹی
میں پیدا ہوئے اور اس ملک میں ہی دفن ہونے والے ہیں۔ہمارا دین بھی یہی کہتا
ہے کہ جس وطن کے شہر ی ہو اُس وطن سے محبت کرو۔ملک کی آزادی کے بعد بھی
مسلمانوںنے کبھی بھی اس ملک سے ناروائی کرنے کی سوچ کو بھی اپنے دلوںمیں
جگہ نہ دی،ہمارے ساتھ برابر نا انصافیاں ہوتی رہی ہیں ،لیکن ہم نے ان نا
انصافیوں کو نظر انداز کیا۔جب بات قومی زبان کی آئی تو اردو کے مقابلے میں
ہندی کوترجیح دی گئی،ہم نے اسے قبول کرلیا،قومی ترانہ کی بات آئی تو ہم نے
جن گن من کو ہی اپنا قومی ترانہ تسلیم کیا۔آپ جو کہتے رہے اُس میں ہم نے
حامی بھری،اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمان اس ملک کے نہیں ہو،تم مسلمان
مہاجر ہو،تم مسلمان دہشت گرد ہو۔تو ہمیں یہ بات ہرگز بھی تسلیم نہیں ہے۔جن
باتوں کوتسلیم کرنا تھا وہ باتیں ہم نے تسلیم کرلی ،لیکن اب جو باتیں آئین
میں لکھی ہیں اُن باتوں پر ہی مسلمان علم کریگا اس سے زیادہ تسلیم کرنے کی
طاقت مسلمانوںمیں نہیں ہے۔آزادی کے70 سال میں ہم نے بہت کم پایا ہے اور
کھویا بہت ہے۔جہاں بھی جب بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو مرنے والے سب سے
زیادہ مسلمان ہی ہیں،ہم نے اپنے بچوں کو کھویا ہے،بہنوں وبیٹیوں کی آبرو
کو تار تار ہوتے ہوئے دیکھاہے ،عورتوں کے سہاگ لوٹتے ہوئے دیکھا ہے،ماؤںکی
گودیں سونی ہوتی ہوئی دیکھی ہیں،باپ کے کندھوں پر جنازے اٹھتے دیکھا
ہے۔لیکن اب ہم اس آزاد ملک میں مزید یہ دن دیکھنا نہیں چاہتے اور بس
بارگاہ الہٰی میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس ملک میں حفاظت سے رکھ اور
ہمارے اوپر جو حکومتیں مسلط ہورہی ہیں انہیں ہمارے ساتھ صحیح انصاف کرنے کی
توفیق دے۔آمین۔جئے ہند۔
|