وزیر اعظم کو یوم آزادی کا پیغام

وزیراعظم نریندر مودی کی انگلی پکڑ کرقوم آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہوگئی ۔ انہوں نے لال قلعہ سے قوم کے نام پیغام میں کہا کہ غلامی کا کوئی دور ایسا نہیں تھا جب ہندوستان کے کسی کونے میں آزادی کی کوشش نہیں کی گئی ہو ،جان کی قربانی پیش نہ کی گئی ہو۔وزیر اعظم کی بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس جدوجہد میں ان کا سنگھ پریوار کہاں تھا اور کیا کررہا تھا ؟ اس جملے میں ماضی کا صیغہ قابلِ ترمیمہے کیونکہ غلامی کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں مثلاً ذہنی غلامی ، فکری غلامی اور سیاسی غلامی وغیرہ ۔ 15اگست 1947 کو جو آزادی حاصل کی گئی وہ سیاسی نوعیت کی تو تھی لیکن کوئی حتمی شئے نہیں تھی اس لیے آزادی کی جس جنگ کا ذکر وزیر اعظم نے کیا وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ جدو جہد جاری رہی بلکہ اس کی ضرورت و شدت میں وقتاً فوقتاً کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کا زمانہ ہے جس میں آئین معطل ہو گیا تھا اور باشندوں کے بنیادی حقوق تک کو سلب کردیا گیا تھا ۔ اس کے خلاف جئے پرکاش نرائن کی قیادت میں آزادی کی دوسری تحریک کا آغاز کیا ۔ اتفاق سے معتوب ہونے کے سبب سنگھ پریوار بھی مجبوراً پرایشچت کے طور پر شریک ہوگئی ۔ جن سنگھ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کیا اور اس میں کامیابی حاصل کی ۔ یہ حسن اتفاق ہے وزیر اعظم مودی اس سعادت سے بھی محروم رہے اور روپوش ہوگئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے پہلے تو ہلکی سی غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کی لیکن وقت کے ساتھ یہ شکنجہ کستا رہا اورایک 6 سال میں وہ بہت زیادہ تنگ ہوچکا ہے۔ اس کے خلاف آئینی حقوق کی بحالی کے لیے سی اے اے اور این آر سی کی تحریک اٹھی اور اتفاق سے اس تحریک کے ساتھ مرکزی حکومت نے وہی سلوک کیا جو انگریز کیا کرتے تھے ۔ اس تحریک سے منسلک نڈر جانباز بھی اسی طرح کی قربانی پیش کررہے ہیں جن کا ذکر وزیر اعظم نے اپنی لال قلعہ کی تقریر میں کیا۔

حکومتِ وقت نے اس تیسری تحریک آزادی کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ احتجاج حکومت کے ہے لیکن جب اس سے بات نہیں بنی تو اسے آگے چل کر قوم دشمن قرار دے دیا گیا ۔ ایسا تو اندرا گاندھی نے بھی نہیں کیا تھا ۔ اس بابت مودی جی کے یار غار ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر اقتدار امریکی انتظامیہ نے ایک چشم کشا رپورٹ پیش کرکےمودی سرکار کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔ یہ رپورٹ امسال ماہِ جون میں شائع ہوئی تھی ۔ بیجے پی کے حوالے سے رپورٹ میںیہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے گائے کے تحفظ کا بہانہ بنا کر تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک طرف گئو بھکتوں کو ترغیب دی اور دوسری طرف ان کو تحفظ فراہم کیا۔ مذکورہ رپورٹ ان کارروائیوں میں قتل، ہجومی تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ دستاویز اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ تشدد برپا کرنے والوں کو قانونی کارروائی سے بچایا گیا اور الٹا متاثرین کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کی پہلو خان جیسی نہ جانے کتنی مثالیں موجود ہیں ۔

گزشتہ سال یعنی 2019میں 5اگست کو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ریاست کا درجہ گھٹا کر اسے یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا۔ صوبہ جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیتکوآئین کی شق 370 منسوخ کرکے ختم کیا گیا۔ اس کے بعد جموں کشمیر میں ایک سال سے زیادہ طویل لاک ڈاون چل رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹمیں دفعہ 370 کو ختم کرنے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’اس شق کے خاتمے کے خلاف زبردست احتجاج ہوئے، مسلم رہنماوں نے اس پر نکتہ چینی کی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں،حقوق انسانی کے کارکنوں اور دیگر لوگوں نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ حکومت نے ہزاروں اضافی سیکورٹی فورسز علاقے میں بھیج دیئے، انٹرنیٹ اور فون لائنیں کاٹ دیں اور اس سال کے اواخر تک مواصلاتی خدمات پوری طرح بحال نہیں کی گئیں۔ حکومت نے دسمبر کے وسط تک تمام مساجد بھی بند کردیں ،سینکڑوں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا اور مظاہروں کے دوران 17شہری اور تین سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔“ان ناعاقبت اندیش اقدامات کے سبب ریاست کی معیشت پوری طرح تباہ ہوچکی ہے اور عوام بڑی مشکلات میں گرفتارہیں ۔

امریکہ کی اس رپورٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری اوربابری مسجد تنازعہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں بھارتی پارلیمان سے منظور شدہ سی اے اے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ قانون پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت دینے کی وکالت کرتا ہے لیکن مسلمانوں، یہودیوں، لامذہب اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو محروم رکھتا ہے۔وزیر خارجہ پومپیو کی پیش کردہ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذمہ داروں نے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئےاور سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گولی مارو والا نعرہ سارا ہندوستان سن چکا ہے۔ اس قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی بھی اس میں تفصیل موجود ہے اور کہا گیا ہے کہ ان میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور سینکڑوںلوگ زخمی ہوئے۔ فی الحال یہ صورتحال ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران دہلی فساد کا بہانہ بناکرسی اے اے کے خلاف چلنے والی تحریک کے کارکنان کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے اقلیتوں پر ہونے والے ان حملوں پر تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔

حکومت ہند نے اس رپورٹ پر توجہ دینے کے بجائے اسے مسترد کردیا ۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی یہاں آکر اقلیت کو درپیش مسائل کا زمینی جائزہ لینے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ غیر ملکی پینل کو بھارتی شہریوں کے آئینی حقوق کا جائزہ لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے امریکہ تو ہمارا دوست ملک ہےاگر یہاں ہر سو آزادی اور جمہوریت کا کمل کھلا ہوا ہے تو ہمیں ان کو روکنے کے بجائے دعوت دینا چاہیے کہ خود آکر دیکھ لیں ۔ کشمیر میں یوروپین یونین کے ارکان پارلیمان کو بلا کر دورہ کرایا گیا تو امریکی سرکاری ادارے کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ ایسا کالا ہے جس ہماری حکومت چھپانا چاہتی ہےلیکن ذرائع ابلاغ کے اس ترقی یافتہ دور میں عملاً یہ ممکن نہیں ہے۔ آج کل دیواروں کے صرف کان نہیں ہوتے بلکہ آنکھ اور ناک بھی ہوتی ۔

وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ ہندوستان کی شاندار جمہوری روایات سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس دنیا میں امریکہ موجود نہیں ہے اورجب وہ اپنی واقفیت کا اظہار کرتا ہے تو ہم اس کو یہ کہہ کر مسترد کیوں کرتے ہیں ؟ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے بھی فرمایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی طرف سے جاری کردہ ’بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ 2019‘امریکی پارلیمنٹ کی قانونی ضرورتوں کے لیے شائع کیا جانے والی داخلی دستاویز ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان سے متعلق شائع ہونے والی دستاویز امریکہ داخلی ضرورت ہوگئی ۔ شریواستو ایک طرف تو ہندوستانی شہریوں کے آئینی اختیارات کے بارے میں کسی غیر ملکی ادارے کو بولنے کا کوئی حق دینے کے بھی روادار نہیں ہیں لیکن اگر اس میں ہماری تعریف کی گئی ہو یا ہمارے کسی دشمن پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو تب تو اس کے تقدس کی قسم تک کھائی جاسکتی ہے۔ انوراگ سریواستو کا یہ کہناملک میں درست ہے کہ آئینی ادارے اور قانون مذہبی آزادی کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ اور مقننہ اس کو کھلے عام پامال کررہے ہیں ۔

وزیر اعظم نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں آزادی کی خواہش ایسی تھی کہ اس نے دو عالمی جنگوں کے دوران بھی اپنے عزائم کو کمزور نہیں ہونے دیا اور توسیع پسند قوتوں کے منصوبوں کو ناکام بناکر آزادی حاصل کی۔ آج بھی سرکاری ظلم و جبر کے خلاف وہی خواہش ملک کے جیالے باشندوں میں موجود ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’’یہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک ایک بار جوعزم کرلیتا ہے تو وہ اسے پور اکر کے ہی دم لیتا ہے۔ ملک ایسے ہی ایک دن کورونا کو ہرا کر دم لے گا‘‘ ۔یہ صد فیصد درست ہے مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک شہری کورونا سے نمٹنے کے بعد حکومت کے جبر استحصال کا بھی اسی طرح ڈٹ کرمقابلہ کریں گے جیسا کہ پہلی اور دوسری جنگ آزادی کے وقت کیا تھا ۔ وزیر اعظم نے لال قلعہ کی تقریر میں جس جذبۂ حریت کا ذکر کیا وہ آج بھی زندہ و پائندہ ہے ۔

اس حقیقت مظاہرہ پنجاب کی سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل امرتسر نے یو م آزادی کے دن کیا ۔ جالندھر کے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر چوک ان لوگوں نے اپنے آپ کو غلام قرار دے کر خالصتان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس کی اطلاع ملتے ہی پولس وہاں پہنچ گئی اور ان کے سیاہ پرچم ہٹوائے ۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس موقع پر ان کے رہنما سربجیت سنگھ نے کہا حالانکہ ملک 1947 میں آزاد ہوگیا تھا مگر یہاں کی اقلیتین اب بھی غلامی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ سکھوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جن سکھ نوجوانوں کو جیل میں ڈالاگیا ہے انہیں دزا پوری ہونے کے بعد بھی حکومت رہا نہیں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یعنی (15اگست ) کو یوم آزادی کے بجائے یوم سیاہ کے طور پر منارہے ہیں ۔

حیرت کی بات ہے ان مظاہرین پر دفع 188کی خلاف ورزی ، ماسک نہ لگانے اور دوری بنائے نہیں رکھنے جیسے ہلکے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اپنے 86 منٹ کے خطاب میں 30 مرتبہ خودکفالت کا ذکر کیا ۔ 12 مئی 2020، کو تیسرے لاک ڈاون کے اختتام پر وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے 21 ویں صدی کوہندوستان کی صدی بنانے کا خواب پورا کرنے کے لئے ملک کو خود کفیل بنانے کا عزم کرتے ہوئے بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی لیکن اس کے بعد 20 لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا جھنجھنا پکڑادیا گیا ۔ اس شور تو خوب ہوا لیکن عام لوگوں کے ہاتھ کچھ نہیں ہے۔ لال قلعہ سے نشر ہونے والی مودی جی تقریر میں وہی جھنجھنا بج تو رہا تھا لیکن کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اس لیے اب ملک کے عوام کا اعتماد اپنے وزیر اعظم کے اوپر سے ااٹھ چکا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449539 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.