کیا ہم طالبانائزیشن کی راہ ہموار کررہے ہیں

اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، پہلے تو سیکورٹی فورسز اور ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن کچھ دن سے عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ طالبان کی آڑ میں دوسرے ممالک اپنا کھیل کھیل رہے ہوں، پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک نفرت کا سماں بندھ چکا ہے اور شاید ہم بھی کچھ اس شدت سے ان سے نفرت کرنے لگے ہیں کہ طالبان کو تبلیغ اور دعوت سے منسلک کر کے اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں، سلیم صافی نے ایک واقعہ لکھا ہے آپ بھی اسے ملاحظہ کریں اور اپنے طرز عمل کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ کیا ہم واقعی طالبانائزیشن کی راہ تو ہموار نہیں کررہے، “مجھے تو بندوق بردار سندھ اور پنجاب پر بھی قابض ہوتے نظر آرہے ہیں۔کیونکہ وہاں کے وڈیرے اور جاگیردار شبانہ روز کوششوں کی وجہ سے ان ہی کی آمد کی راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو تھر کے علاقے کھپرو میں تبلیغی جماعت کے ایک وفد کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی روداد پڑھ لیجیے۔ یہ غالباً24 اکتوبر کا دن تھا۔ تبلیغی حضرات کی ایک جماعت اس علاقے میں دعوت و اصلاح کا فریضہ سرانجام دے رہی تھی۔ یہ علاقہ پیر پگارا کے دو بندوں احمد علی شر اور عبدالرحیم شرکے زیر اثر ہے۔ ان کے کارندے ان کو کسی مسجد میں قیام کی اجازت نہیں دے رہے تھے چنانچہ انہوں نے صحرا میں ایک درخت کے نیچے اپنا کیمپ لگا رکھا تھا اور آپس میں دعوت و تبلیغ میں مگن تھے۔

ایک دن اچانک یہاں کے حاکموں کے غنڈوں نے ان کو گھیر لیا، ان کا سارا سامان چھین لیا، انہیں مارا پیٹا اور سب سے افسوسناک امر یہ کہ ان سب کی داڑھیاں منڈوائیں۔ ان کے جوتے تک چھین لیے اور وہ آبلہ پا گھنٹوں صحرا میں سفر کر کے اسپتال جا پہنچے لیکن افسوس کہ کوئی پولیس ان کی مدد کو آئی اور نہ کسی عدالت نے نوٹس لیا، کیونکہ یہاں پر ان وڈیروں کا ہی حکم چلتا ہے۔ یہی مظالم ہیں جو طالبانائزیشن کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ جب آپ جبراً داڑھیاں منڈوائیں گے تو پھر ردعمل میں جبراً داڑھیاں رکھوانے والے تو سامنے آئیں گے۔ جب آپ پرامن شہریوں کو پرامن تبلیغ کرنے نہیں دیں گے تو پھر دین کے نام پر ایسے لوگ تو سامنے آئیں گے جو بااثر لوگوں کو بھی جینے نہیں دیں گے۔ میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوں اور نہ پوری طرح ان کے طریقہ کار سے متفق ہوں، لیکن میرے نزدیک ان دنوں پاکستان میں سب سے زیادہ ان لوگوں کی ضرورت ہے۔ یہی لوگ ہیں جو دین کی طرف بلاتے ہیں جو امن کا درس دیتے ہیں، جو صلہٴ رحمی کی تلقین کرتے ہیں، جو ظلم سہتے ہیں لیکن جواب میں تشدد کرنا تو دور کی بات، گالی یا بددعا بھی نہیں دیتے۔ یہی لوگ ہیں جو اسلام کے امن، سلامتی اور محبت کا پہلو اپنے قول و عمل سے اجاگر کرتے ہیں اور اسی سوچ کی ان دنوں پاکستان کو ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ہمارے جاگیردار اور وڈیرے ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھتے ہیں۔ اب جب ہم ان جیسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کریں گے تو پھر ردعمل میں دین کے نام پر وہ لوگ تو سامنے آئیں گے ہی جو گولی کا جواب گولی سے اور تشدد کا جواب تشدد سے دینا جانتے ہیں۔”

(شکریہ شازل بھائی کا جن کے بلاگ سے یہ تحریر لی ہے۔)
اسداللہ شاہ
About the Author: اسداللہ شاہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.