پی این ایس مہران پر دہشت گردوں
کا حملہ قابل مذمت عمل ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات سے افواجِ پاکستان کا
مورال ڈاﺅن کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش کی گئی ہے۔ انشاءاللہ العزیز ہماری
افواج کو ایسی کاروائیوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا اور پاک فوج دہشتگردی کا
نشانہ بننے کے باجود اپنے فرائض مکمل ذمہ داری سے سرنجام دیتی رہیں گی۔
تمام اہل وطن یہ بات سوچتے ہیں کہ یہ حملے،یہ کاروائیاں،کب رکیں گی؟ یہ
سلسلہ کب تھمے گا؟ ملک میں دہشت گردی،بم دھماکے،فورسز پر حملے کب ختم ہونگے؟؟
ہماری ناقص رائے میں ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ ہم
امریکہ کی اس نام نہاد جنگ سے باہر نکل آئیں۔امریکہ کی کاسہ لیسی اور اس کی
غلامی سے نکل آئیں اور دہشت گردی کی ان وارداتوں کے ذمہ داران کا تعین
دیانت داری سے کریں۔
فی زمانہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے پاس اپنی جان چھڑانے کا تیر بہدف نسخہ
یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی بم دھماکہ ہو،فورسز پر کوئی حملہ ہو یا دہشت گردی
کی کوئی بھی واردات ہو۔فوری طور پر اس کا الزام طالبان اور القاعدہ پر
لگادیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کسی نامعلوم مقام سے طالبان کا کوئی رہنما (مغربی
خبر رساں اداروں کو فون کر کے) اس واقعے کی ذمہ داری بھی قبول کرلیتا ہے۔
اس کے بعد بس بات ختم! آپ لوگ مجھے دہشت گردوں کا ہمدرد کہہ لیں،مجھ پر طنز
کے تیر برسا لیں،مجھ پر تنقید کریں لیکن تھوڑا سا ٹھنڈے دل سے میری باتوں
پر غور کرلیں تو مہربانی ہوگی۔
سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ اِدھر دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے۔ابھی لوگ
یہ دیکھ اور سمجھ ہی رہے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا ؟ کس نے کیا ہے؟ کتنا نقصان
ہوا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب فوراً سے پیشتر اس کی ذمہ داری
”طالبان “ یا نام نہاد ”القاعدہ “ پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے بعد اللہ اللہ
خیر صلّا!نہ کوئی تفتیش نہ تحقیق بس بات ختم!ویسے یہ رحمان ملک صاحب وہی
ہیں نا جو برطانیہ میں خفیہ جاسوسی ایجنسی چلا رہے ہیں اور اس کے سربراہ
ہیں۔یہ وہی رحمان ملک صاحب ہیں جنہوں نے ممبئی دھماکوں کے بعد جب بھارت نے
مبینہ دہشت گردوں کی ایک کشتی برآمد کی تھی تو اس کے جواب میں انہوں نے بھی
ایک کشتی برآمد کر کے کہا تھا کہ اصل کشتی تو ہم نے پکڑی ہے۔ اور کیا یہ
وہی رحمان ملک صاحب نہیں ہیں جنہوں نے کراچی میں سانحہ عاشورہ کو بھی خود
کش حملہ قرار دیکر رینجرز کے ایک اہل کار کو تمغہ بھی عطا کردیا تھا اور
بعد میں معلوم ہوا کہ دھماکہ تو ریمورٹ کنٹرول تھا۔ یہ وہ رحمان ملک ہیں
کراچی ہی میں حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر دھماکے کے بعد دو لوگوں
کو خود کش حملہ آور کہا تھا اور کہا تھا کہ یہ لوگ حملے میں جاں بحق ہوگئے
ہیں لیکن بعد میں یہ دونوں افراد زندہ سلامت اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے۔تو
وہی رحمان ملک صاحب پی این ایس مہران کے واقعے کو بھی طالبان کے سر ڈال رہے
ہیں تو ان کی بات کا کیا اعتبار۔
اب ذرا غور کیجئے کہ امریکہ اور اس کے پالتو(پوڈل) برطانیہ نے دہشت گردی کے
خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر عراق کا بیڑا غرق کردیا،لاکھوں مسلمانوں کو
قتل کیا،افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،پاکستان کی خودمختاری کو پامال
کر کے روزانہ کی بنیاد پر ڈرون حملے کیئے جارہے ہیں،حتٰی کہ امریکہ اور
نیٹو افواج ملک کی حدود میں داخل ہوکر کاروائیاں کرتی ہیں۔امریکی صدر کہتے
ہیں کہ ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لئے ہر قسم کی کاروائی کی
جاسکتی ہے۔برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک امریکہ کی اس غنڈہ گردی کو ہلا
شیری دیتے ہیں لیکن! لیکن دوستوں اسی امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی خبر رساں
ایجنسیوں کے نام نہاد طالبان سے رابطے ہیں۔نام نہاد طالبان ”فون“ کر کے
اپنی کاروائیوں کی اطلاع ان تینوں ممالک کے اخبارات تک پہنچاتے ہیں۔لیکن
وہی امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر قسم کی کاروائی کو جائز سمجھتا
ہے وہ ان اخباری ایجنسیوں سے ”طالبان “ کے فون نمبر نہیں معلوم کرسکتا۔ وہ
امریکہ جو جدید ترین ٹیکنالوجی رکھتا ہے جو ایبٹ آباد کا آپریشن بقول
امریکہ واشنگٹن میں براہ راست دکھا سکتا ہے وہ ان فون نمبرز کے ذریعے ”دہشت
گردوں“ تک نہیں پہنچ سکتا۔وہ یہ نہیں معلوم کرسکتا کہ طالبان کے نام سے جو
ای میل اس کو وصول ہوئی ہے وہ کس آئی پی ایڈریس سے آئی ہے۔ سوچیں اور غور
کریں کہ کیا اس جدید اور ڈیجیٹل دور میں ایسا ممکن ہے؟جواب ہے کہ نہیں ممکن
نہیں ہے! تو پھر اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان اور
القاعدہ کے نام پر دنیا کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور اس کی آڑ میں پاکستان
کو پھنسایا جارہا ہے۔پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا
ہے۔
اب تھوڑی توجہ پی این ایس مہران کے واقعے پر !غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے
کہ طالبان نے اس واقع کی ذمہ داری بعد میں قبول کی رحمان ملک صاحب نے پہلے
ہی اس کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیدیا۔آخر کیسے؟ پھر دیکھیں کہ جب رحمان
ملک اور نیوی کے ذمہ داران کے بیانات میں تضاد ہے۔ حملے اتوار کو رات گئے
تک جو خبریں میڈیا کے ذریعے عوام ت پہنچائیں گئی اس میں نیوی حکام نے واضح
طور پر بتایا کہ چار حملہ آور ہلاک اور چار گرفتار ہیں جبکہ پانچ سے دس
مزید دہشت گرد اندر موجود ہیں لیکن جب اگلے دن رحمان ملک صاحب نے پریس
بریفنگ دی تو انہوں نے پہلے تو امریکہ کا حقِ نمک ادا کرتے ہوئے طالبان کو
برا بھلا کہا ،اس کے بعد اسامہ بن لادن کے لئے فاتحہ خوانی کرنے والے اکرنا
پارلیمنٹ کو لتاڑا اور پھر انہوں نے یہ مضحکہ خیز بیان جاری کیا کہ حملہ
آور دہشت گرد چھے تھے جن میں سے چار ہلاک ہوگئے جب کہ دو فرار ہونے میں
کامیاب ہوگئے۔ اس کے اس بیان نے افواجِ پاکستان کی اہلیت پر ایک سوال اٹھا
دیا کہ اگر چار سے چھے دہشت گرد افواج کے بیس کے اندر گھس کر ان کو بے بس
کرسکتے ہیں تو یہ ہماری حفاظت کیا کریں گی؟ یہ کیسے ملک کا دفاع کریں گے؟
خیر اس کے بعد اگلے روز یعنی بدھ 25مئی کو نیوی حکام کا بیان جاری ہوا کہ
”نیول چیف نے ابتدا میں جو بیان جاری کیا وہی درست ہے،حملہ آور 12تھے ایف
آئی آر میں تعدا غلط لکھی گئی ہے اس کو درست کیا جارہا ہے۔“سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ رحمان ملک صاحب نے غلط بیانی کیوں کی؟ انہوں نے دہشت گردوں کی
تعدا کم کیوں بتائی؟ انہوں نے دہشت گردوں کی گرفتاری سے انکار کیوں کیا؟ وہ
اس طریقے سے کس کو تحفظ دینا چاہتے تھے؟ ان سوالوں کا جواب آپ کو آخر میں
ملک جائے گا۔
دیکھیں جرم و سزا کے معاملے میں ایک سیدھا سادہ قانون ہوتا ہے کہ اگر کوئی
جرم یا واردات ہوتی ہے تو اس کی تفتیش میں دیگر چیزوں کے ساتھ دو بنیادی
نکات کے ساتھ تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ کسی کو بھی شک
و شہبے سے بالاتر نہ سمجھا جائے،ہر زاویئے سے واردات کا جائزہ لیا جائے اور
دوسرا اور اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ واردات کے بعد سب سے زیادہ فائدہ کس کو
ملے گا۔ جس کو سب سے زیادہ فائدہ ملے گا وہی سب سے زیادہ شکل و شہبے کی زد
میں آئے گا۔اب اس واردات کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ اس کا سب سے زیادہ
فائدہ کس کو ملے گا۔ طالبان کو یا امریکہ اور بھارت کو۔
اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد جس راستے سے بیس میں داخل ہوئے اس کے ایک
فرلانگ پر ہی نیوی کی اہم تنصیبات موجود تھیں لیکن دہشت گردوں نے ان کو
نقصان پہنچانے کے بجائے ڈیڑھ کلو میٹر پیدل جاکر نیوی کے دو اہم طیاروں پی
سی 3اورین کو نشانہ بنایا بلکہ سب سے پہلے انہی کو نشانہ بنایا۔یہ طیارے
پاک فضائیہ کی قوت تھے اور ان سے سمندری نگرانی کا کام لیا جاتا تھا۔ چار
انجن والے یہ طیارے چوبیس گھنٹے تک فضاء میں رہ سکتے تھے اور اس کے ساتھ
ساتھ یہ طیارے آبدوز کو بھی نشانہ بنا سکتے تھے۔ ان طیاروں کی تباہی سے پاک
نیوی کا سمندری حدود کی فضائی نگرانی کی اہیلت بیس فیصد رہ گئی ہے۔ یہ
طیارے آج تک طالبان کے خلاف استعمال نہیں کئے گئے۔ تو پھر ان طیاروں کی
تباہی سے کس کو فائدہ ہوا۔ طالبان کو یا بھارت کو؟ اخباری اطلاعات کے مطابق
دہشت گردوں نے بَیس پر پاک بحریہ کو تیکنیکی معاونت فراہم کرنے والے چینی
انجئیرز کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن ان کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا
گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی انجیئرز کو نشانہ بنا کر اور ان کو
نقصان پہنچا کر پاک چین دوستی متاثر کرنے میں طالبان کا فائدہ ہے یا امریکہ
اور بھارت کا؟
اس واردت کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا معاملہ ایک بار پھر
اٹھایا جارہا ہے کہ جو افواج اپنی بیس کی ہی حفاظت نہیں کرسکتی وہ ایٹمی
اثاثوں کی حفاظت کیسے کرسکتی ہیں؟ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ
ظاہر کر کے ان کی آڑ میں پاکستان میں امریکہ اور نیٹو کو فوجی کاروائی کا
موقع فراہم کرنے میں طالبان کا فائدہ ہے یا امریکہ اور بھارت کا؟ اگر سوچیں
گے اور غور کریں گے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ سوچیں اور غور کریں
کہ کیا بھارت اتنا ہی شریف اور اچھا ہمسایہ ہے کہ پاکستان کو مشکل میں دیکھ
کر اس کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا؟ کیا بلیک واٹر اور
امریکی ایجنٹوں نے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے سے توبہ کرلی ہے؟ایبٹ
آباد آپریشن کے بعد ایک امریکی باشندے کو کہوٹہ پلانٹ کے نزدیک سے مشکوک
حالت میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ وہ امریکی وہاں کیا کررہا تھا؟دنیا کی واحد
مسلم ایٹمی طاقت (پاکستان) کس کی نظروں میں کھٹکتی ہے؟ جواب ہے کہ امریکہ
،بھارت اور اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ رحمان ملک،صدر
زرداری، احمد مختار اور ان جیسے دوسرے لوگ جانتے بوجھتے پاکستان دشمنوں کو
تحفظ فراہم کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوں پر پردہ
ڈالتے ہیں کیوں کہ ان لوگوں نے تو حکومت ختم ہونے کے بعد امریکہ،برطانیہ یا
دبئی میں جاکر بس جانا ہے بھگتنا تو مجھے اور آپ کو ہے۔ |