بسم اﷲ الرحمن الرحیم
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کے حوالہ سے دیے گئے متنازعہ
انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر منظم مہم کے ذریعے برادرملک کی کردار کشی کی
جارہی ہے۔ واٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے بعض لوگ مسلسل زہر اگل رہے
ہیں۔ یہ گفتگو چونکہ شاہ محمود قریشی نے کی اس لئے ان کی پارٹی کے بہت سے
لوگ بھی بہت متحرک دکھائی دیتے ہیں اور بعض یوٹیوبرز کی ویڈیوز دیکھ کر تو
ایسے لگتاہے کہ جیسے انہوں نے یوٹیوب چینل بنائے ہی اسی مقصد کیلئے ہیں۔کئی
ٹی وی اینکرز بھی سعودی عرب کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں
جانے دیتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی اینکر حضرات کبھی کسی ملک جارہے ہیں تو
کبھی کسی ملک جا رہے ہیں اور پھر واپس آکر دوست ملکوں کے خلاف زہر اگلنے کا
سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ
ان مخصوص اینکرحضرات اور یو ٹیوبرز کو کون ٹارگٹ دے رہا ہے کہ وہ پاکستان
سعودی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں؟۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ
کہے جارہا ہے، معاملہ کی حساسیت کا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔اس صورتحال کا
بغور جائزہ لینے اورسازشی عناصر کا بھرپور محاصبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل
میڈیا پر اس وقت یہ بات بہت اچھالی جارہی ہے کہ سعودی عرب نے تین ارب ڈالر
کی جو رقم پاکستان کو دی تھی ان کے مطالبہ پر ایک ارب ڈالر واپس کر دی گئی
ہے حالانکہ یہ رقم دی ہی محدود مدت کیلئے گئی تھی۔ وفاقی وزیر حماد اظہر
خود کہہ رہے ہیں کہ دوست ملکوں کو جو رقم واپس کی جارہی ہے وہ طے شدہ شیڈول
کے مطابق کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں خوامخواہ اس مسئلہ کوپروپیگنڈا کی
بنیاد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس وقت ایک پروپیگنڈا یہ بھی کیا جارہا ہے
کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل دینا بند کر دیا ہے لیکن وزیرتوانائی
نے صاف کہا ہے کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی
عرب ایک سال کے حساب سے جتنا تیل ہمیں دے رہا تھا ہم نے اتنا استعمال نہیں
کیا جس پر سعودی حکام کی جانب سے کہا گیا کہ اگر آپ کی کھپت کم ہے تو آپ
تیل کی مقدار بھی کم کر لیں، لہٰذا یہ چیزیں دوبارہ سے طے ہو رہی ہیں اور
آئندہ چند دن میں باقاعدہ طور پر اس کی تفصیل بھی سامنے آجائے گی۔ یہاں
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے تو پھر یہ سارا قضیہ صحیح طور پر
عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعہ گمراہیاں
پھیلانے والے مذموم پروپیگنڈا میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے تازہ انٹرویو میں سعودی عرب سے متنازعہ
گفتگو کاازالہ کرنے کی کوشش کی اور مسئلہ کشمیر کیلئے سعودی عرب کی کاوشوں
اورکورونا وبا کے دوران ہونے والے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس سے متعلق
بھی بتایاہے۔ کیاہی اچھا ہوتا کہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی بات چیت میں
احتیاط سے کام لیتے اور خارجہ پالیسی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے مگر افسوس
کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ اپنے پہلے انٹرویو میں تو انہوں نے دھمکی آمیز زبان
استعمال کی اور کہا کہ سعودی عرب او آئی سی کا اجلاس بلانے کے لئے کردار
ادا کرے ورنہ وہ وزیراعظم سے کہیں گے کہ ود آر ود آؤٹ سعودی عرب ہمیں یہ
کام کرنا چاہیے۔یعنی چند دن پہلے تک تو حکومت کی طرف سے یہ ڈھنڈورا پیٹا
جارہا تھا کہ وہ سعودی عرب اور ایران میں مصالحانہ کردار ادا کرنے میں
کامیاب رہے ہیں اور اس کیلئے سعودی حکام کی جانب سے بھی انہیں بھرپور
اعتماد دیا گیا ہے لیکن ایک ہفتہ نہیں گزرا کہ وزیرخارجہ نے متنازعہ بیان
بازی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سعودی عرب او آئی سی اجلاس کے معاملہ
پر ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہااور یہ کہ وہ اس کے بغیر بھی کچھ کر گزرنے
کیلئے تیار ہیں۔ یہ حکومتی ذمہ داران کی دوہری پالیسی ہے جسے عوامی سطح پر
بھی پسند نہیں کیا گیااور سنجیدہ حلقے اس پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ سعودی
عرب کی پاکستان سے دوستی ہر قسم کے شک و شبہ اور مفادات سے بالاتر ہے۔
زلزلہ، سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت وہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کندھے سے
کندھا ملا کر کھڑا ہوا ہے۔ اسی طرح انڈیا کے ساتھ جنگوں کا معاملہ ہو یا
ایٹمی دھماکے کرنے کا وقت ہو، سعودی عرب نے ہر موقع پاکستانی حکام سے عملی
تعاون کیاہے ۔ کشمیر جسے قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار
دیا اور پاکستانی قوم نے اس کیلئے لازوال قربانیاں پیش کی ہیں، اس مسئلہ پر
بھی سعودی عرب اور او آئی سی ہمیشہ پاکستانی موقف کے حامی رہے ہیں لیکن آج
اس معاملہ کوجان بوجھ کر کنفیوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سعودی عرب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیری و پاکستانی مسلمانوں کو کسی صورت
جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کشمیر کے معاملہ پر برادر ملک کسی طور خاموش
رہ ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2019ء میں سرحد پر جنگ کا ماحول بنا اور
ایک سال قبل جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو دونوں مواقع پر سعودی
عرب نے اسلام آباد وفود بھیج کر اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ ایک موقع
پر تو شاہ محمود قریشی نے اعتراف بھی کیاکہ پاک بھارت کشیدگی کم کروانے میں
سعودی عرب نے کردار اد ا کیا ہے اور یہ کہ چند ماہ قبل سعودی عرب اور یواے
ای کے وزرائے خارجہ کا دورہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر حمایت کی یقین دہانی
کروانے کیلئے تھا۔ اسی طرح سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود
وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کر کے کشمیر کے معاملہ پر اپنی حمایت کا یقین
دلاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
اس وقت بعض لوگ ایک دو ملکوں کے سربراہان کے کشمیر سے متعلق بیانات کا بھی
ذکر کر رہے ہیں۔ ان کی طرف سے حمایت اچھی بات ہے لیکن اس سلسلہ میں ہمیں
جذباتی انداز میں نہیں سوچنا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملک فلسطینیوں کے بڑے
حامی بنتے نظر آتے ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ ان کے مضبوط سفارتی، تجارتی
اور فوجی مراسم قائم ہیں توزمینی حقائق یہ ہیں کہ صرف بیانات سے فلسطین کی
طرح کشمیر بھی آزادنہیں ہو گا۔ہمیں اس سراب کے پیچھے بھاگ کر مسلم ملکوں کو
ناراض نہیں کرنا بلکہ انہیں ساتھ ملا کر اپنی قوت کو مضبوط کرنااور مظلوم
کشمیریوں کو غاصبانہ بھارتی قبضہ سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات کرنے
ہیں۔وزیرخارجہ نے اپنی گفتگو میں اس بات کا بڑا زعم دکھایاہے کہ وہ کوئی
متبادل پلیٹ فارم بنا لیں گے۔ اس سوچ کا اظہار کرنادرحقیقت امت مسلمہ کو
تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ آپ کی طرف سے بلائے گئے کسی اجلاس میں ایران،
ترکی، ملائشیا اور قطر آبھی جائیں اور دوسری جانب سعودی عرب، یو اے ای اور
جی سی سی کے ملک موجود نہ ہوں تو دنیا کو کیا تاثر جائے گا؟۔ لہٰذا اس طرح
کی باتیں کرنا چھوٹی سوچ کی عکاسی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے او آئی سی پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ کہا جاسکتا
ہے کہ یہ ادارہ مسلمان ملکوں کے مسائل حل کروانے میں صحیح معنوں میں کامیاب
نہیں ہو سکا لیکن ہمیں اس کے اصل اسباب کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیا یہ
حقیقت نہیں ہے کہ جب مسلمانوں کے کسی ملک، خطے یا علاقے کا مسئلہ بنتا ہے
تودوسرے ملک مفادات کی چادر لپیٹ کر سو جاتے ہیں؟جب حقیقت میں ایسا ہے تو
پھر تنقید صرف سعودی عرب پر ہی کیوں کی جارہی ہے؟ او آئی سی کو شاہ فیصل
اور ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ اس کا دفتر اگرچہ جدہ میں ہے لیکن یہ
اسلامی ملکوں کا ایک خودمختار ادارہ ہے۔ اسی ادارے کا ایک اجلاس کشمیر کے
حوالہ سے بائیس جون کو ہوا جس میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، نائیجیریا،
آذر بائیجان کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔گزشتہ ایک سال میں تنظیم کی رابطہ
کمیٹی نے کشمیر سے متعلق تین اجلاس کئے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی
مکمل حمایت کی۔ اب اگر پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر کے معاملہ پر او آئی سی
کا بڑا اجلاس ہونا چاہیے اور اسے کچھ تحفظات ہیں تو اس کا طریقہ یہ نہیں ہے
کہ آپ ٹی وی انٹرویوز میں متنازعہ باتیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ سفارت کاری
کا کون سا انداز ہے؟۔ ملکوں سے تعلقات مضبوط کرنے کیلئے دور رس اقدامات کئے
جاتے ہیں، متنازعہ تبصرے کر کے دوست ملکوں سے تعلقات خراب نہیں کئے جاتے۔
ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ ہر ملک پاکستان کو اپنا قائد سمجھے
جس طرح جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں تھا۔ جہاں تک کشمیر کے مسئلہ پر
سعودی عرب کی بات ہے تو وہ اب بھی ہمارے ساتھ اور ان شاء اﷲ رہے گا۔ہم امید
رکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے
حالیہ دورہ سعودی عرب سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی
اورشرپسند عناصر کی طرف سے کیا جانے والا مذموم پروپیگنڈا دم توڑ جائے گا۔
|