اگر ھم کراچی کے ماضی و حال پر روشںنی ڈالیں تو اس طرح کراچی کے خوشحال مستقبل کے ممکنہ حل کے لئے کسی بھی اہم و مفید نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے۔
شہر قائد ہر اعتبار سے ایک بڑا شہر ہے چاہے اسے آپ روشنیوں کا شہر کہیں یا میگا سٹی با حسن صلاحیت کوئی بھی اعزازی نام شہر کراچی کو دیا جا سکتا ہے۔
جب کبھی مملکت پاکستان کے کسی بھی شہر ،دیہی علاقوں یا صوبوں میں ایمرجنسی صورتحال پیش آتی ہے تو شہر کراچی سے بڑی تعداد میں انفرادی و اجتماعی طور پر عوام امدادی خدمات انجام دینے مختلف علاقوں کا رخ کرتی نظر آتی ہے کہ یہ کراچی والوں کا اپنے بھائیوں سے طریقہ اظہار محبت بھی ہے۔ کراچی والوں نے تو خود کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ بلوچستان، اندرون سندھ و دیہی علاقہ جات ، پنجاب ، کے پی کے میں طوفانی صورتحال اور رین ایمرجنسی جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے فلاحی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی یہ کشتیاں، ٹیوبز یا لائف جیکٹز رضاکاروں کو روشنی کے شہر میگا سٹی کراچی میں بھی روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرنی پریں گیں۔ وہ روشنیوں کا شہر کراچی جس میں شدید بارش کے بعد بھی پورا شہر ساحل سمندر کی سیر کرنے بلا خطر پہنچ جایا کرتا تھا۔ وہ روشنیوں کا شہر کراچی جس کی شاہراہ فیصل بارش کے بعد الگ ھی خوبصورتی کی چادر اوڑھ لیا کرتی تھی۔ ،یہاں سرکلر ریلوے چلا کرتی تھی، گرین بس ہوا کرتی تھی۔
بارش ھو آندھی یا طوفان سڑکیں ڈھلا کرتی تھیں۔
کچرے کا ڈھیر نہیں ماڈل پارکس ہوا کرتے تھے۔
کیا ھی کسی کے وہم و گمان میں ہوگا کہ اس میگا سٹی کراچی کہ جہاں سے گاؤں دیہات میں ہنگامی صورتحال کے بعد نوجوان رضاکاروں کے تازہ دم دستے کبھی مانسہرہ ،کشمیر گلگت،بلتستان تو کبھی سجاول،تھر ،ٹھٹھ بدین،بلوچستان بھیجے جاتے تھے۔ آج اسی شہر کے باسیون خصوصاً نوجوان طبقے کو کرپٹ حکمرانوں اور جھوٹے نا اہل بلدیاتی نمائندوں نے اس قدر ذلیل و رسوا کردیا اور اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ یہ تمام تر حفاظتی سامان جو انہوں نے دوسرے شہر و صوبوں کی مدد کے لئے بنایا ان کے اپنے شہر کراچی کے لئے ھی پورا ہوجائے تو غنیمت ہے۔ جو شہر کبھی پورے ملک میں تقسیم امداد کیا کرتا تھا آج اپنی مدد کے لئے کسی مسیحا کو پکار رہا ہے۔۔ کراچی پکار رہا ہے کسی عبدلستار افغانی کو، کراچی پکار رہا ہے کسی نعمت اللہ خان کو، مصطفی کمال کو، یہ کراچی سے تعلّق رکھنے والے وہ تین مئیر ہیں کہ جن کے دور میں کراچی میں ریکارڈ کام ہوا۔ میگا پروجیکٹز بنائے گئے۔ نعمت اللہ خان صاحب( مرحوم) نے اپنے دور میں بے انتہا محنت ،اور شہر کراچی کی بے لوث خدمت کی ان کے بعد اگلے مئیر مصطفی کمال نے شہر کراچی کی کمانڈ سنبھالی اور مرحوم خان صاحب کے دور کے ھی منصوبوں پر تیزی سے کام کیا۔ اسی طرح یہ شہر دن رات ترقی کرتا نظر آتا تھا۔
لیکن آج بلدیاتی نمائندوں نے اس شہر کی جو حالت کی ہے اس پر کون نوحہ پڑھے؟ کون ماضی کے خوشحال پاکستان کی یاد میں آنسو بہائے؟ کہ اب یہ شہر صرف کچرے کے ڈھیر ،ٹوٹی سڑکوں ،بہتے۔نالوں اور بدحال ٹرانسپورٹ کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔
آئے کون ہے جو کراچی کی بے بس عوام کے دکھوں کا مداوا کرے ؟ کون ہے جو بے سہارا کراچی کے سر پر دست شفقت رکھے ؟ کراچی پکار رہا ہے اہلیان کراچی کو : کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں سوچ سمجھ کر دیانتدار نمائندوں کا انتخاب کریں کہیں دیر نہ ہوجائے۔
ورنہ! شہر ھی تو ہے آج آدھا تو کل خدانخواستہ پورا بھی ڈوب سکتا ہے؟؟ ھم کیا کریں گے۔۔۔ !ذرا سوچئیے
|