کنفیوژن کی انتہاء

۲ مئی کی شب تین ہیلی کاپٹرز ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں اترے۔چالیس منٹ تک مصروف کار رہے۔ اپنا ایک ہیلی کاپٹر خود اپنے ہاتھوں تباہ کیا اور دوبارہ انہی منزلوں کی طرف پرواز کر گئے جہاں سے آئے تھے۔حالانکہ اس وقت رات کے تقریباََ بارہ بجے تھے لیکن یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ یہ سارا واقعہ علاقے کے مکینوں نے انتہائی حوف و ہراس کے عالم میں اپنی اپنی چھتوں پہ کھڑے ہو کے ملاحظہ کیا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ انڈیا نے حملہ کر دیا ہے کہ دوستوں سے تو اس سلوک کی توقع ہی نہ تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں امریکہ کو انتہائی مطلوب اسامہ بن لادن مارا گیا۔ اس کے ساتھ اس کے دو گارڈ بھی قتل کر دئیے گئے۔اس کی ایک بیوی کی ٹانگ میں گولی لگی جس کا علاج کیا جارہا ہے۔بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس حملے میں اسامہ کا ایک بیٹا بھی مارا گیا۔اسامہ اور اس کے بیٹے کی لاش امریکی اپنے ساتھ لے گئے۔

اس واقعہ کے بعد اسامہ کی زندگی کی طرح اس کی موت بھی بے حساب کنفیوژن کا باعث بن گئی ہے۔ ہمارا تو ذکر ہی کیا کہ ہم مبتدی ہیں اور ابھی ہم نے قلم پوری طرح پکڑنا بھی نہیں سیکھا۔بڑے بڑے اساتذہ شش و پنج میں ہیں۔نہ صرف اساتذہ بلکہ استاذالا ساتذہ امریکہ کا بھی وہی حال ہے جو ہماری اشرافیہ اور عوام کا ہے۔اپنے دعویٰ کے مطابق انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا ہے۔ وہ اس خبر پہ یقین کرنا چاہتے ہیں۔لیکن امریکہ کے پاس بھی کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ اس کے عوام کو پورا یقین دلایا جا سکے۔گوروں کی چونکہ یہ من بھاتی خبر ہے اس لئے وہ عجب کنفیوژن کا شکار ہیں کہ بغیر ثبوت کے اسے مانیں یا نہ مانیں۔مانیں تو دل اندر ہی اندر لعنت ملامت کرتا ہے نہ مانیں تو پل دو پل کی خوشی بھی غارت ہوتی ہے۔ امریکی صدر اور انتظامیہ کے سر پہ اگلا الیکشن منہ کھولے کھڑا ہے۔انہوں نے اسی خبر پہ یہ الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی لیکن اب انہیں بھی لگتا ہے کہ شاید انہوں نے یہ کام کچھ جلدی ہی انجام دے ڈالا ہے کیونکہ راکٹ کی رفتار سے اوپر جانے والے پسندیدگی کے گراف دوبارہ نیچے آنے کو پر تول رہے ہیں۔امریکی حکومت اور عوام اپنی جگہ دونوں ہی کنفیوژن کا شکار ہیں۔یقین کرنا چاہتے بھی ہیں لیکن یقین ہے کہ عنقا ہے۔

پاکستانی حکومت کی تو خیر بات ہی کیا کہ وہ تو اس دن قاف لیگ کے چوزے اکٹھے کر کے ایم کیو ایم کو اپنی اوقات یاد دلانے اور بجٹ پاس کرانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔وہ جن سے امید تھی وہ بھی ہاتھ لگا لگا کے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔امریکی جو بقول شخصے ہمارے دوست ہیں، رات کے اندھیارے میں ہمارے آنگن میں اترے اور چالیس منٹ میں ہماری آزادی اور خود مختاری کے سارے دیئے بجھا کے یہ جا وہ جا۔اب وہ کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد کے ایک گھر میں ہم نے اسامہ کو مار دیا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ ہم ان کی بات کی تصدیق یا تردید کر سکیں۔ چونکہ امریکہ بہادر کہہ رہا ہے اس لئے ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ہم نے اس بات پہ نہ صرف یقین کر لیا ہے بلکہ اب اس کی صفائیاں بھی دیتے پھر رہے ہیں۔کل کلاں کو بھارت بھی اگر اپنا ایک ہیلی کاپٹر ہمارے علاقے میں تباہ کر کے یہ دعویٰ کرے کہ اس نے پاکستان میں داؤد ابراہیم کو مار ڈالا ہے تو کیا ہم پھر سارے زمانے کے آگے نکو بن کے کھڑے ہوں گے اور صفائیاں دے رہے ہونگے؟ہماری سیاسی قیادت تو کسی مخمصے کا بھی شکار نہیں کہ ان کے گلشن کا تو کاروبار ہی امریکہ ہاں اور ناں میں چلتا ہے ،عسکری قیادت کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کس رد عمل کا اظہار کرے۔یہاں بھی کنفیوژن اپنی بلندیوں پہ ہے۔

بھارت اپنی جگہ کنفیوژن کا شکار ہے۔اسے پہلے پہل تو یہ یقین آگیا کہ پاکستان اب گھٹنوں پہ آگیا ہے اسی لئے اس کے ایک جرنیل نے فوراََ بیان دے ڈالا کہ ہم بھی امریکی آپریشن کی طرح کا آپریشن کر سکتے ہیں۔لیکن جب عقدہ تھوڑا سا واضح ہوا تو منموہن صاحب نے خود ہی اپنے اس جرنیل کو لتاڑ ڈالا کہ اسے جرات کیسے ہوئی کہ اس طرح کا بیان دے۔ہم ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔چینی کہ چھوٹی ناک رکھتے ہیں لیکن اس چھوٹی ناک کا بھی وہ بڑا خیال رکھتے ہیں۔انہوں نے فوراََ کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ پنگا بیجنگ کے ساتھ پنگا تصور کیا جائے گا۔ہم سدا کے سادہ یہ سمجھے کہ دیکھا چین ہمارا صحیح اور پکا ہمدرد ہے کیسا وقت پہ بولا ہے۔حالانکہ چینی یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان ہی ان کی بچت ہے پاکستان ہی سامراجی دنیا کے آگے چین کا سب سے بڑا حفاظتی ہتھیار ہے جس دن پاکستان راستے سے ہٹا، چین کی معاشی ترقی اور عسکری برتری دھری کی دھری رہ جائیگی۔وہ اس نقطے کو سمجھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین دوستی زندہ باد۔

رہے پاکستانی عوام تو غریب کی جورو تو ہر ایک کی بھابھی ہوتی ہے۔آج امریکہ ہمارا آقا ہے کل چین ہمارا مالک ہوگا جب وہ تھا جائیگا تو بھارت یہ ذمہ داریاں بحس و خوبی سنبھال لے گا۔ہم ایک کے بعد دوسرے کے آگے بکتے اور جھکتے چلے جائیں گے اور بس۔غیرت سے عاری بندہ ہو یا قوم اس کا اس دنیا میں یہی حشر ہوتا ہے۔اگر پاکستانی واقعی کوئی قوم ہوتی تو کیا یوں اپنی توہین برداشت کرتے۔اٹھارہ کروڑ میں سے صرف پچاس لاکھ ہی اگر اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے جمع ہو کے اعلان کرتے کہ آج سے امریکی غلامی نا منظور تو کیا واقعی کسی میں ہمت ہوتی کہ آئندہ اس طرح کا کوئی منصوبہ بنا پاتا۔ہم تو آج بھی کمیشن ، رشوت ،چوری اور لوٹ کھسوٹ میں اسی طرح مصروف ہیں جس طرح امریکی حملے سے پہلے تھے۔اللہ جانے اسامہ اب مرا ہے کہ تب مرا تھا لیکن اس کی موت کے امریکی اعلان نے ایک دنیا کو عالمی کنفیوژن کے طوفان سے دوچار کر دیا ہے۔خاکم بدھن مجھے لگتا ہے کہ جب یہ طوفان چھٹے گا تو کراچی والے سوات کی سیر کے لئے پختونستان کے قونصلیٹ کے سامنے ویزوں کی درخواستیں لئے کھڑے ہوں گے اور پھر امریکی راوی چین ہی چین لکھے گا۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.