اب پھربلدیاتی انتخابات کاشور و غوغا مچ رہاہے
ارباب ِ اختیار چند ماہ تک لوکل باڈیز الیکشن کروانے کا عندیہ دے رہے ہیں
اس لئے عوام میں جوش و خروش میں اضافہ ہوگیا ہے ماضی کی بات کریں تو مسلم
لیگ ن کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی کیسے الیکشن تھے بکری
جیسے امیدواروں کو ن لیگ کا ٹکٹ ملا تو وہ بھی شیر بن گئے تحریک ِ انصاف کے
بلندوبانگ دعوے سب ہوا ہوگئے اور ہرطرف شیر ۔۔شیرہوگئی لاہورمیں شیرکا نشان
ملنے کے باوجود الیکشن ہارجانے والا بدقسمت ٹھہرا ملک میں پہلی بار جماعتی
بنیادوں پر ہونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں شیرکا نشان انتہائی اہمیت کا
حامل رہا عوام نے یہ نہیں دیکھا امیدوارکون ہے دھرا دھڑ شیرکے نشان پر مہر
لگاکر فتح سے ہمکنارکیا اتنے ووٹ ملنے کی امید امیدواروں کو کیا خود ن لیگ
کو بھی نہیں تھی اس الیکشن میں سب سے براحال تحریک ِ انصاف کے امیدواروں کا
ہوا جو زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ویسے ایک بات ہے تحریک ِ
انصاف کی انتخابی کمپین میں شور و غوغا بہت تھا لیکن رزلٹ ٹائیں ٹائیں فش ۔
یہ بھی شنیدہے کہ موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح بلدیاتی
اداروں کو تاحال اختیارات نہیں دئیے حالانکہ اس کیلئے خودعمران خان پھر
سینئروزیر عبدالعلیم خان نے بلند وبانگ عوے کئے تھے بلدیاتی انتخابات
میںPTIکے اکثرو بیشتر امیدوار اپنی شکست کی ذمہ داری عمران خان کی طرف سے
ریحام خان کو طلاق دئیے جانے پر ڈالتے رہے ہیں یہ بات کسی حدتک سچ بھی ہے
بلدیاتی انتخابات کے کلائمیکس پر اچانک ریحام خان کو طلاق دینے کی خبرنے
بجلی گرادی خصوصاً خواتین نےPTIکے امیدواروں کو ووٹ نہیں دئیے جس سے
انتخابی صورت ِ حال کا پانسہ پلٹ گیاجبکہ تحریک ِ انصاف اور پیپلزپارٹی کا
صفایا ہونے کی کیفیت نظر آئی لاہورمیں274یونین کونسلوں کے الیکشن میں تحریک
ِ انصاف کے12 چیئرمین کا جیتنا کوئی کارکردگی نہیں پھر بھی نتائج کے اعتبار
سے تحریک ِ انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے یارلوگ اس بات کو دل کی
بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔سے تعبیرکررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی تو پہلے ہی
مشکل میں تھی رہی سہی کثر بلدیاتی انتخابات میں پوری ہوگئی صرف لکھوڈیئر سے
اکلوتا چیئرمین کامیاب ہوا یہ کتنے تعجب،شرمندگی اورمکافات کی بات ہے کہ
بھٹو کی پارٹی کو لاہورمیں بلدیاتی امیدوار بھی نہ مل سکے۔جیالے لیڈروں نے
بھی کوئی خاص تردد نہیں کیا کہ پارٹی فنڈز سے ہی امیدواروں کو کھڑاکردیا
جاتا۔۔اس بلدیاتی انتخابات کی دو اہم خصوصیات ہیں اولاً یہ کہ ملکی تاریخ
میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پر
کروائے ن لیگ کا دل تو نہیں کرتا تھا لیکن وہ عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے بے بس
بلکہ ڈھیرہوگئی ماضی میں فقط ڈکٹیٹروں نے بنیادی جمہوریت کوفوقیت دیتے ہوئے
لوکل باڈیز الیکشن کروانے میں دلچسپی لی۔ثانیاً پہلی بارہی جماعتی بنیادوں
پر الیکشن ہوئے حالانکہ جب بھی گلی محلوں میں ووٹ پڑے اس میں سیاسی جماعتیں
ہر لحاظ سے’’ ملوث‘‘ ہوتی رہیں۔ امیدواروں کوباقاعدہ ٹکٹیں دی جاتیں۔سیاسی
رہنما جلسوں میں تقریریں کرنے کاشوق بھی پورا کرلیتے بہرحال اچھاہواحکومت
نے پہلی بارسہی جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائے اس سے کم ازکم یہ منافقت
تو دور ہوگئی۔
پاکستان میں سیاسی حکومتیں فقط نام کی جمہوری حکومتیں ہیں کوئی بڑے سے بڑا
طرم خان قسم کا سیاستدان بھی اپنے پارٹی لیڈر کے مزاج کے خلاف بات کرنے کی
جرأت نہیں کر سکتا ہمارے ملک میں اس قسم کی جمہوریت بھی بس غنیمت ہے یہی
وجہ ہے کہ کوئی حکومت بلدیاتی انتخابات کروائے نہ کروائے کوئی نہیں
بولتا۔جمہوری حکومتیں سرے سے بلدیاتی انتخابات کرواناہی نہیں چاہتیں اس کی
کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو بڑی وجہ یہ ہے کہ ارکان ِ اسمبلی ہی نہیں چاہتے کہ
بنیادی جمہوریت بحال ہو پوری دنیا میں قومی وصوبائی اسمبلیاں اور سینٹ
قانون سازی کے ا دارے سمجھے جاتے ہیں یہاں ارکان ِ اسمبلی گلیوں،نالیوں کے
کام کروانے کوہی منتخب ہونے کا فرض سمجھ لیتے ہیں اور یہ کام وہ ذاتی
دلچسپی لے کر کرواتے ہیں اور ٹھیکیداروں سے کمیشن لے کر مال کماتے ہیں ہے
نا فائدے کی بات۔ حکمران بلدیاتی انتخابات اس لئے نہیں کروانا چاہتے کہ اس
میں ان کیلئے نقصان ہی نقصان ہے سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ وہ اختیارات
کی تقسیم ہی نہیں چاہتے جس ملک میں چپڑاسی سے کلرک اوردائریکٹر تک کی
آسامیاں وزیر ِ اعلیٰ اور وزیر ِ اعظم بقلم خود یا ان کے فیملی ممبر خود
بھرتی کریں وہاں اختیارات کی تقسیم کیونکرکی جا سکتی ہے؟تحریک ِ انصاف نے
ایک فعال متحرک اور مربوط بلدیاتی نظام دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کیلئے
ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا بلکہ اپنی پالیسی کے برعکس بلدیاتی اداروں کی
بجائے ارکان اسمبلی کو فنڈز جاری کئے جارہے ہیں حالانکہ خودعمران خان
سینکڑوں مرتبہ کہہ چکے ہیں ارکان اسمبلی کو قانون سازی تک محدودکردیا جائے
گا تمام ترترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہونگے لیکن جس معاشرے میں
بلدیاتی اداروں کے تمام تر فنڈز میگا پراجیکٹ میں لگادئیے جائیں اور قانو ن
سازاداروں کے معزز ارکان ِ اسمبلی کمیشن کھانا اپنا حق سمجھتے ہوں وہاں
تبدیلی کیونکر آسکتی ہے اور وہاں کے حکمران کس طرح چاہیں گے کہ لوکل باڈیز
الیکشن کروائے جائیں ماضی میں نہ جانے کتنے چیف جسٹس دہائی دے دے کر
ریٹائرڈ ہوگئے کہ بلدیاتی انتخابات کروادئیے جائیں لیکن ہوا وہی جو حکومت
کے چہتیوں نے چاہا بہرحال بنیادی جمہوریت کی بحالی خوش آئند بات سمجھی جاتی
ہے چند مہینوں بعد پھر بلدیاتی الیکشن ہونے کو ہیں جس کے لئے حلقہ بندیوں
کے علاوہ ضروری انتظامات کئے جارہے ہیں ایک بات طے ہے کہ پبلک کے نمائندے
جن زیادہ تر جن کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہمارے گلی محلوں سے ہے عوام کو کچھ
نہ کچھ ریلیف دینے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ موجودہ یونین کونسلوں کا سیٹ اپ
ایک دکٹیٹر پرویزمشرف کی ضلعی حکومتوں جیساہے پہلے اس میں ناظم اور نائب
ناظم تھے ان کے پینل میں بھی جنرل کونسلر،لیبرکونسلر، لیڈیز کونسلر تھے
سیاسی سیانوں نے ناظم اور نائب ناظم کو چیئر مین اوروائس چیئرمین کا نام
دیدیا یہ کیسی رہی ؟ مشرف دور میں تو ہر یونین کونسل کاماہانہ خصوصی فنڈز
جاری کیا جاتا تھا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے ناظم اور ٹاؤن سے نائب ناظم کو الگ سے
فنڈز ملتے تھے ان کے پاس وسیع اختیارات تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے آج بھی
بلدیاتی نمائندے اپنے اختیارات کیلئے دہائیاں دے رہے ہیں فی الوقت چیئر مین
اوروائس چیئرمین کے اختیارات انتہائی محدود ہیں اور بعض معاملات میں صوبائی
حکومتوں کے زیر ِ اثر ہیں ارکان ِ اسمبلی کی دباؤ الگ ہوگا۔ موجودہ حکومت
بلدیاتی اداروں کا نیا نظام لانا چاہتی ہے اس کیلئے کافی ہوم ورک بھی کیا
جا چکاہے اس کیلئے یہ بھی دعویٰ کیا جاتاہے کہ تحریک ِ انصاف نے خیبر کے پی
کے ایسا شاندار بلدیاتی سسٹم دیاہے کہ عوام انتہائی خوش ہیں اگر واقعی ایسا
ہی ہے تو اسے مزید بہتر بناکر چاروں صوبوں میں رائج کیا جا سکتاہے ایک بات
طے ہے لوکل باڈیزکا نظام کو ئی بھی ہو چیئر مین،وائس چیئرمین کے ساتھ ساتھ
جب تلک جنرل کونسلر،لیبرکونسلر، لیڈیز کونسلر وں کو مناسب اختیارات نہیں
دئیے جاتے بلدیاتی نمائندوں کی بے چینی دور ہوسکتی ہے نہ عوام کی حکمرانی
کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہو سکتاہے۔
|