ہم جذباتی ہیں!!!

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یڈی یورپاکے بیٹے نے کرناٹک میں ایک میڈیاہائوز کا قیام کیاہے جس کا رسم اجراء عنقریب ہونے والاہے۔کروڑوں روپیوںکی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس میڈیا ہائوز کا مقصد کیاہوگا یہ ظاہرسی بات ہے کہ یہ بھی دوسرے فرقہ پرست چینلوں کی طرح اپنے کام کو انجام دیگا۔ہر دن ہر علاقے میں کہیں نہ کہیں ٹی وی چینل یا پھر ڈیجیٹل میڈیا ہائوز کا قیام ہورہاہے اور اس میڈیا ہائوز میں باقاعدہ طور پر صحافت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انانیت ،فرقہ پرستی اور مفاد پرستی کو فروغ دیاجارہاہے۔کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک،گجرات سے لیکر بنگال تک،ہر علاقے میں فرقہ پرست اپنے میڈیا ہائوز کو فروغ دے رہے ہیں۔لیکن ملک میںدوسری سب سے بڑی اقلیت کہلانے والی مسلمان قوم باتوںمیں ہی مصروف ہے۔پچھلے دنوں تبلیغی جماعت کولیکر ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے ایک فیصلہ سنایاگیا اور بتایاگیاکہ یہ پورا کھیل میڈیاکا ہے اور تبلیغی جماعت والے صرف اور صرف بلی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر عدالت نے یہ کہاہے تو مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ میڈیاکی اہمیت کیاہے۔اگر کوئی ٹی وی میں مسلمانوں کے تئیں اچھی رپورٹ بتادی جاتی ہے تو مسلمان یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب ہم فارغِ الزام ہوچکے ہیں،میڈیا ہم پر محبت کے پھول برسارہاہے اور ہماری تعریفیں کررہاہے،لیکن جو میڈیا سومیں سے1.0 فیصد خوبیاں بتاکر99.99 فیصد خامیاں دکھائے اُس میڈیا کاکیا فائدہ۔ہماری قوم نہایت جذباتی ہے یہ ہم باربار کہتے ہیں۔پچھلے دنوںمیڈیامیں کورونا سے متاثر ہوکر مرنے والے مریضوںکی آخری رسومات ادا کرنے والی ایک تنظیم کے تعلق سے میڈیانے رپورٹس بتائی،ان رپورٹس کو تنظیموںنے خوب سوشیل میڈیا پر پھیلایا،اتنا پھیلایا اتنا پھیلایاکہ مانو میڈیاکی سرٹیفکیٹ کے بعداب انہیں کسی اور چیزکی ضرورت ہی نہیں پڑیگی۔لیکن بنگلوروکے ڈی جے ہلی میںتوہین رسالتﷺ کے معاملے میںجس طرح میڈیاکے دنگائیوںنے تنظیموںکو بدنام کیاوہ تمام بدنامی کی رپورٹس اچھائی کی رپورٹس کو ختم کردی۔ہم جذباتی قوم ہیں۔ہم جذبات میں اس قدر آجاتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے میڈیا بنانے کیلئےآڈیو ویڈیو بنانے کیلئے جاری کردیتے ہیں۔لیکن عمل کی بات کا جائزہ لیاجائے تو نہ گھر پر ایسااخبار خریدتے ہیں جو صحافت کی بنیادوںکا پاسدار ہواور مسلمانوں کی ترجمانی بھی کرتا ہو،جمہوریت کی بقاء کیلئے آواز بھی اٹھاتا ہو۔جو میڈیا مسلمانوںکی نمائندگی وترجمانی کررہاہو اُس کی تائید میں کبھی ایک اشتہار تک نہیںدیاجاتا۔سچائی پر مبنی میڈیا خدمت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میڈیا کو چلانے کیلئے اخراجات نہیں آتے،اگر اخراجات آتے ہیں تو انہیں آسمان سے پیسے نہیں آتے۔تو ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے مسلمان اس بات کاجائزہ لیںکہ کونسا میڈیا مسلمانوںکی تائید میں کام کررہاہے اور اس میڈیا کو فروغ دینے کے علاوہ نئے میڈیا چینلس کیسے بنائیں؟۔اگریہ کام مسلمان کرلیں تو ہیں تو یقیناً اُن کے پاس ترجمانی کرنے کیلئے طاقت آئیگی اور اس بات کو رونا بالکل بھی نہیں روئینگے کہ میڈیا ہماری بات نہیں سنتا،ہماری بات لوگوں تک نہیں پہنچاتا۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.