وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کشمیر پر ایک حالیہ بیان
پر بعض حلقوں میں زوردار بحث چھڑ گئی ہے کہ کیاقریشی صاحب کو کشمیر تنازعے
کا تاریخی علم نہیں یا پھر پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے ۔سوالات وزیر
خارجہ کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں گپکار ڈیکلریشن کی حمایت کے بیان کے
بعد پوچھے جا رہے ہیں۔ گپکار ، سرینگر میں جھیل ڈل کے قریب دریائے جہلم کے
کنارے پر ایک اہم علاقہ ہے جو حضرت سلیمان ؑ کے نام سے موسوم پہاڑ،سلیمان
ٹینگ جسے تخت سلیمان بھی کہا جاتا ہے،کے عقب میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں
حضرت سلیمان ؑ کا تخت تھا۔ بیت المقدس کی طرز پر تعمیر کردہ اس تخت سے
تاریخ کے کئی راز جڑے ہیں۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے تخت سلیمان کا نام تبدیل کر
کے اسے ہندو مندر ’’شنکر آچاریہ‘‘کا نام دے دیا۔گپکار میں شیخ محمد عبد اﷲ
کی فیملی کی رہائش گاہ ہے۔ سونہ وار کے اس علاقہ میں اقوام متحدہ کے فوجی
مبصرین کا گرمائی ہیڈ کوارٹرز بھی ہے۔ جو اسی گپکار روڈ پر ہے۔ 4اگست2019کو
فاروق عبد اﷲ کی زیر قیادت مقبوضہ کشمیر کی چند بھارت نواز سیاسی پارٹیوں
کے رہنما جمع ہوئے۔ جن میں بھارتی پارٹی کانگریس کے ریاستی نائب صدر تاج
محی الدین، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ماکسسٹ) کے ریاستی سربرای یوسف تاریگامی،
پی ڈی پی کے سربراہ محبوبہ مفتی، پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون بھی
شامل تھے۔انہوں نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370اور 35اے کی مجوزہ منسوخی
اور ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے منصوبے کے خلاف ایک اعلامیہ تیار کیا۔
مگر یہ اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس اجلاس
کے دوسرے دن ہی 5اگست کو بھارت نے ریاست کا خصوصی درجہ ختم کر دیا۔ ریاست
کا اپنا آئین اور اپنا پرچم تھا ۔ جو اب نہیں رہا۔ اب بھارت ریاست کی زمین
جائیداد پر قبضہ کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات فوج کو بھی کشمیر کی
شہریت دی جا رہی ہے۔ اب ایک سال بعد ان سیاسی پارٹیوں نے وہ اعلامیہ جاری
کر دیا ہے جو ایک سال پہلے تیار کیا گیا تھا۔ اس اعلامیہ کو گپکار ڈیکلریشن
کا نام دیا جا رہا ہے۔ جس میں آرٹیکل 370اور35اے کی منسوخی اور ریاست کی
تقسیم کو حملہ قرار دے کر ریاست کی شناخت، خودمختاری اور خصوصی درجہ بحال
کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گپکار ڈیکلریشن 5اگست 2019سے قبل کی پوزیشن
بحال کرنے کے لئے ہے۔ جہاں بھارت نواز بھارت کو بیساکھی فراہم کر رہے تھے۔
انہوں نے کشمیریوں کو غلام بنانے اور قتل عام میں بھارت کی کھل کر مدد کی
تا کہ ان کا اقتدار قائم رہے۔ کشمیریوں کے خون کے بدلے یہ عیش و عشرت کرتے
رہے۔ اب بھی یہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ 5اگست2019 سے پہلے کی پوزیشن کی
بحالی کا مطالبہ 14اگست 1947سے قبل کی پوزیشن کی بحالی کے مطالبے ، حق خود
ارادیت یا رائے شماری کے مطالبے سے دور کا بھی کوئی میل یا تعلق نہیں رکھتا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گپکار اعلامیہ کی حمایت کی ہے۔ جب کہ کشمیری
عوام کا مطالبہ آزادی ہے۔ گپکار اعلامیہ کی حمایت کشمیریوں کو بھارتی غلامی
میں رکھنے کی ہی شعوری یا غیر شعوری کوشش ہے۔اگر وزیر خارجہ مسلہ کشمیر سے
خود واقف نہیں تو اس پر سوائے افسوس اور ماتم کے کیا کہا جائے۔وہ دنیا کو
مسلے کے بارے میں کی بتائیں گے اور عالمی رائے عامہ کیسے ہموار کر سکیں گے۔
پوری دنیا میں پاکستان کے سفارتی مشنز ، پاکستان کی کشمیر پالیسی کے ذمہ
دار یہی وزیر خارجہ ہیں،وہ یہ کیسا پیغام دے رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار
نعیمہ احمد مہجورکا کہنا ہے کہ اس اعلامیے پر بھارت اور پاکستان کے مختلف
حلقوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن جو بیان پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی نے دیا اس نے نہ صرف کشمیریوں کو حیران و پریشان کر دیا بلکہ
بیشتر جماعتوں کو ناراض بھی جو الحاق پاکستان کا درد رکھنے کی پاداش میں
حکومت بھارت کی اذیتوں سے گذشتہ سات دہائیوں سے گزر رہی ہیں۔
نئی دہلی کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں الحاق ہندوستان کی بات کرنے والے
سیاست دان بھی زیادہ قابلِ بھروسہ نہیں رہے۔ شیخ عبداﷲ بھی جو پنڈت جواہر
لعل نہرو کے وفادار ساتھی تھے، شبہات کی نظر سے دیکھے جاتے رہے۔ یہ وہی شیخ
عبداﷲ تھے جن کی جماعت نیشنل کانفرنس نے 1947 میں قبائلیوں کے خلاف لڑائی
کی اور شیخ عبداﷲ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم پاکستان کی بجائے
سیکولر بھارت کو ترجیح دی۔مگر 1953 میں اس وقت کے وزیراعظم شیخ عبداﷲ کو
وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر کے جیل کی کال کوٹھری میں دھکیل دیا گیا۔ اس طرح
مسلسل گیارہ سالوں تک وہ جیل میں بند رہے۔ان کی جگہ غلام محمد بخشی کو
لایاگیا۔گزشتہ 73 سالوں میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کو
استعمال کرکے مقصد پورا ہونے پر اس کو سائیڈ لائن کردیا اور ان کی جگہ
دوسرے کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔5 اگست 2019 کو نئی دہلی کی طرف سے مقبوضہ
جموں و کشمیر کو آئین ہند میں حاصل خصوصی پوزیشن کو یک جنبش قلم ختم کر دیا
گیا۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ مقبوضہ ریاست میں وجود
رکھنے والی تمام بھارت نواز اور آزادی پسند سیاسی جماعتوں کو ایک چھڑی سے
ہانکا گیا، کوئی محمود و ایاز نہیں رہا- سوائے بی جے پی کے ریاستی صدر
رویندر رینا کے تمام سیاست دانوں کو بلا تخصیص یا تو ان کے گھروں میں نظر
بند کردیا گیا یا جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اوجھل کر دیا-ریاست کی تمام
جیلیں بھرنے کے بعد مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنان کو بھارتی ریاستوں کی
جیلوں میں قید رکھا گیا-یہ پہلی بار ہوا کہ کوئی لاڈلا نہیں رکھا گیا-
سیاسی بات چیت کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، گو کہ بعد میں یہ کمی محسوس
کرتے ہوئے الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی نامی سیاسی روبوٹ جماعت
بنوائی گئی- اس جماعت کے زیادہ تر لیڈر پی ڈی پی سے آئے ہوئے ہیں۔ جموں و
کشمیر کے لوگوں میں یہ جماعت اپنے قدم جمانے میں ناکام رہی ہے۔ جموں و
کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کیے ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ہفتہ 22 اگست 2020
کومقبوضہ ریاست کی بھارت نواز جماعتوں نے ایک بار پھر گپکار ڈیکلریشن پر
عمل کرنے کا عزم کیا ہے۔چار اگست 2019 کو نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر
فاروق عبداﷲ کی رہائش گاہ پر ہند نواز سیاسی جماعتوں کا 70 سالہ تاریخ میں
اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا، جس میں سوائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقبوضہ
جموں و کشمیر میں وجود رکھنے والی سبھی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اجلاس کے
آخر میں اتفاق رائے سے تین نکات کو حتمی شکل دی گئی۔اول: ریاست میں وجود
رکھنے والی سب سیاسی جماعتیں ریاست کی خصوصی پہچان، خود مختاری اور ریاست
کو حاصل خصوصی درجے کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف یکجا ہیں۔دوئم:آرٹیکل
370 و 35 اے کو کسی صورت بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور مزید یہ کہ ریاست
کسی بھی تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جموں و
کشمیر اور لداخ کے عوام کے خلاف جنگ کے مترادف ہوگا۔سوئم: صدر ہند و
وزیراعظم ریاستی لوگوں کو ریاستی و مرکزی آئین کے تحت حاصل کردہ حقوق کی
پاسداری یقینی بنائیں۔
لداخ اور جموں والوں کو بھی اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ان کے ساتھ بہت
بڑا دھوکہ ہوا ہے۔ خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اگر یوں ہی برقرار رہا تو سب سے
پہلے جموں متاثر ہوگا۔ بھیم سنگھ کی پنھترس پارٹی کھلے عام اس کی مخالفت
کرتی رہی ہے۔ لداخ کے بدھسٹ بھی بھارتی اقدام کے خلاف ہیں۔آرٹیکل 370 و 35
اے کا کیس ابھی سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیرالتوا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بھارت
ریاست کا خصوصی درجہ بحال کر دے۔ مگربھارت اسے ہی مسلہ کشمیر کے حل کے طور
پر پیش کرنے کی سفارتکاری کر سکتا ہے۔ اس میں شاہ محمود قریشی کا بیان ٹوکن
کے طور پر ہو گا۔ گپکار میں دفعہ 370اور 35اے کے تحفظ کا عہد کیا گیا۔ جن
سیاسی جماعتوں نے اس اجلاس میں حصہ لیا،وہ اس سے کہیں زیادہ چاہتی اور
مانگتی تھیں اور اسے چھوڑ کر دفعہ 370پر آنا ہی ان کا اعلان شکست ہے۔پیپلز
ڈیموکریٹک پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی 1947کی
پوزیشن کا موقف رکھتی تھی۔وہ پاکستان اور کشمیر کے درمیان سارے قدرتی راستے
کھولنے کی بھی بات کرتی تھی۔ آزاد تجارت کی وکالت بھی کرتی تھی اور ایک
مشترکہ پارلیمنٹ کا بھی خیال پیش کرتی تھی جبکہ نیشنل کانفرنس 1953ء سے
پہلے کی پوزیشن کا مطالبہ کرتی تھی۔اسے وہ دفعہ 370منظور نہیں تھا جسے
کانگریس نے اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا تھا۔پیپلز کانفرنس کا موقف ’’قابل
حصول قومیت‘‘(achievable nationhood)کی بنیاد پر کھڑا تھا۔ان کلیدی جماعتوں
نے گپکار ڈکلریشن پر آکر اپنے موقفوں کو لپیٹ لیا۔نیشنل کانفرنس 53ء سے
4اگست2019ء پر آگئی۔ پی ڈی پی بھی 4اگست پر ہی پہنچ گئی اور پیپلز کانفرنس
بھی۔شاہ محمود قریشی بھی۔کشمیر ی گپکار ڈیکلریشن کو غیر اہم قرار دیتے ہیں
کیوں کہ بھارت نواز اپنی ساکھ بحال کرنے کی دوبارہ کوشش کرنے لگے
ہیں۔بھارتی وزیراعظم مودی نے کہہ دیا ہے کہ یونین ٹریٹری بنانے کا فیصلہ
وقت آنے پر واپس لیا جائے گا جس کا ذکر 15 اگست کی تقریر میں دہرایا
گیا۔بھارت نواز کشمیری پہلے آزادی کا مطالبہ کرتے تھے، پھر اندرونی خود
مختاری، پھر سیلف رول اور اب ریاست کی بحالی۔ فاروق عبداﷲ اور دوسرے
لیڈربھارتی دھارے سے نکل کر حریت کا موقف اختیارنہیں کر رہے اور نہ ہی
بھارت کے خلاف متحد ہوکر مزاحمتی مہم شروع کریں گے۔بلکہ ان لیڈروں نے اس
بات کی مسلسل تصدیق کر دی ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ
سمجھ کر انتخابی عمل پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ بھارتی حکومت انتخابات کرانے
کا اشارہ دے چکی ہے۔یہ سوال درست ہے کہ کیاشاہ محمود قریشی نے گپکار
ڈیکلریشن کو اہم قرار دینے سے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ5 اگست 2019 تک
جو مقبوضہ جموں و کشمیر کی پوزیشن تھی وہ پاکستان نے منظور کی ہوئی ہے۔کیا
پاکستان کشمیریوں کی آزادی کے بجائے آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے سفارتی
سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ نعیمہ احمد مہجور کہتی ہیں کہ کشمیریوں کو حقیقت
سمجھنے اور اس کو ماننے کی جرات پیدا کرنا ہوگی اور اپنی لڑائی لڑنے کی
طاقت بھی۔گپکار ڈیکلریشن کی حمایت آزادی پسند قیادت کی پالیسیوں کی نفی ہے
جو آزادی کے لیے یا تو عرصہ دراز سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں یا گھروں میں دس،
دس برسوں سے محصور ہیں یا جو تین دہائیوں سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے
ہیں۔ پاکستان، بھارت نواز کشمیری قیادت کو گود لے کرآزادی پسندوں سے
چھٹکارا حاصل کر نے کی کوشش نہیں کر سکتا۔ اگر چہ جنرل مشرف کے دور میں عمر
عبداﷲ، محبوبہ مفتی، یوسف تاریگامی اور دیگر بھارت نواز اسلام آباد کے دورے
کر چکے ہیں۔ مگر وہ آزادی پسندوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔وزیر خارجہ
گپکار ڈیکلریشن کی حمایت سے پہلے گپکار میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی
موجودگی کی اہمیت دنیا کو بتائیں کہ کشمیر سرحدی یا دوطرفہ نہیں بلکہ عالمی
تنازعہ ہے۔جس میں اقوام متحدہ کا کردار ہے۔بھارت اقوام متحدہ کے مبصرین کو
اپنے زیر قبضہ کشمیر میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ انہیں گپکار
کے گرمائی ہیڈ کوارٹرز میں جیسے نظر بندرکھا جاتا ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ کسی
طرح ان کا کردار ختم کرا دیا جائے۔مزیدبرآں، یہ بھی درست ہے کہ اگر
کشمیریوں نے متحد و منظم ہو کر بھارتی غلامی کے خلاف جدوجہد نہیں کی
یاتنظیم پرستی اور پارٹی بازی،شہر وگام یا فرقے کی سیاست میں مسلسل الجھے
رہے ،یا بقول شخصے، اگرکشمیری جدوجہد چلانے کی تہذیب نہیں سیکھتے تو کوئی
معجزہ ہی ہوگا جو اس قوم کو مٹنے سے بچا سکتا ہے۔
|