حلوہ پکاؤ حلوہ کھلاؤ……!!!

ہم جب بچے تھے تو ہمیں کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا کبھی پھوپھو سے، کبھی نانی سے تو کبھی خالہ سے کہانی قصہ سننے کی فرمائش کرتے تھے ۔ قصہ کہانیاں ویسے بھی پوری دنیا میں بڑے شوق سے سنی اور سنائی جاتی ہیں۔ پوری دنیا میں کئی قسم کی کہانیاں بنتی اور بنائی جاتی ہیں۔ کبھی بادشاہوں کی تو کبھی پریوں کی، کبھی وزیروں کی تو کبھی بھوتوں اور دیوؤں کی ۔ کبھی عشق و محبت کی کہانیاں بنتی ہیں تو کبھی شمشیر و زن کی کہانیاں بنتی ہیں یہ نظام قدرت ہے کہ دنیا میں کئی حقیقی اور کئی تخیلاتی کہانیاں وجود میں آتی رہتی ہیں ۔

راقم نے بھی بچپن میں بہت ساری پریوں اور دیوؤں کی کہانیان سنی ہیں مگر جب سے شعور سنبھالا ہے اس ملک پاکستان میں کئی کہانیاں بنتے اور بناتے ہوئے دیکھی ہیں یہ کہانیاں نہ تو بادشاہوں کی ہیں نہ ہی پریوں و بھوتوں کی ہیں مگر آپ ان کو یہ رنگ بھی دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے حکمران کسی بادشاہ سے کم نہیں اور بھوتوں سے ہار نہ ماننے والے بھوت اور جنات ہیں جو ملک ایسے کھا رہے ہیں کہ اﷲ معافی اور اس مملکت کے اہم فیصلے لیتے ہوئے ان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ ان کے ایک غلط فیصلے سے ملک اور عوام پر کیا نتائج مرتب ہونگے۔

اب قارئین کی نظر ایک کہانی کر رہا ہوں جس پر آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ کہانی ان حکمرانوں پر بیٹھتی ہے یا نہیں۔ ایک ملک میں ایک بادشاہ رہتا تھا وہ بادشاہ بڑا عیاش تھا وہ ہر وقت کھانے پینے کے بارے سوچتا رہتا تھا۔ اس کے گرد کنیزوں کی ایک لائن لگی رہتی تھی اسے کھانے کے علاوہ کسی چیز کی طرف دھیان کم ہی جاتا تھا ۔ اس کی یہ صورتحال دیکھ کر اس ریاست کے ساتھ کی ریاست نے دیکھا کہ بادشاہ کی داخلہ و خارجہ معاملات میں معلومات اور کام انتہائی کمزور ہے انہوں نے اس ریاست کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا جس کی معلومات بادشاہ کے کمانڈر تک پہنچی تو اس نے بادشاہ سے صورتحال بیان کی تو بادشاہ نے کہا کہ کوئی بات نہیں انہیں جو کرنا ہے کرنے دو جب وہ آئیں گے تو ان سے نمٹ لیں گے تم لوگ حلوہ پکاؤ خود بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔کمانڈر اس پر حیران ہوا مگر کیا کر سکتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد کمانڈر پھر معلومات لے کر آیا کہ سرحد تک دشمن ریاست کی فوج آ چکی ہے ۔ بادشاہ نے پھر وہی جواب دیا کہ فکر نہ کر حلوہ پکاؤ خود کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ۔ کمانڈر حیران و پریشان ہوا کہ یہ حلوہ کا کیا چکر ہے۔ جنگ شروع ہوئی تو کمانڈر نے اطلاع دی بادشاہ نے بھی وہی جواب دیا کہ حلوہ پکاؤ سب کو کھلاؤ بیچارہ کمانڈر بے بس ہو کر چلا گیا پھر کمانڈر آیا اور کہا کہ بادشاہ سلامت دشمن محل کے باہر تک آ چکا ہے تو بادشاہ کا پھر وہی جواب تھا۔ دشمن فوج جب محل میں آئی تو بادشاہ سمیت سب کو قید کر لیا اور جیل میں ڈال دیا۔

محترم قارئین ! آپ سب کو یہ کہانی سنانے کا مقصدصر ف یہ تھا کہ کیا ہماری قوم صرف حلوہ پکاتی اور کھاتی رہے گی یا بادشاہ نے جو حلوہ پکایا ہوا ہے اسی پر ٹوٹ پڑنے کا سوچتے رہیں گے۔ کیا ہماری اپنی کوئی سوچ نہیں ۔ اگر ہم ایک قوم ہیں تو کیا ہمیں اتحاد قائم نہیں کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں آپس کے اختلافات بھلا کرصوبہ سرائیکستان کی تحریک کو مضبوط نہیں کرسکتے یا پھر ایسا ہے کہ ہر کوئی لیڈر ہے اور ہر کوئی اپنی حلوے کی دیگ خود پکاتا رہے گا۔ یہ قوم لوگوں کے طعنے سنتے سنتے تھک چکی ہے کہ ہر گلی میں ایک لیڈر موجود ہیں ہم اپنی یہ روش کب تبدیل کرینگے اور نام نہاد لیڈروں کو اس دھوکے بازی سے روکیں گے۔ اگر ہمیں ان دھوکے بازوں دو نمبر لیڈروں کو روکنا ہے تو پھر ہمیں ان کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ اور ان حلوہ پکانے والوں اور کھلانے والوں کو اس قوم سے دور رکھنا ہوگا۔ جس طرح میں پہلے بھی ایک کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ اس وسیب کی صرف دو نمائندہ جماعتیں ہیں جو کہ اس قوم کو راہ نجات دکھا سکتی ہیں ۔ ان میں ایک سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی جس کے سربراہ فرزند سرائیکستان رانا محمد فراز نون ہیں جبکہ دوسری جماعت پاکستان سرائیکی پارٹی ہے جس کی سربراہ نخبہ بی بی ہیں جو کہ بابا سرائیکستان کی دختر ہیں ۔ یہ دونوں جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ بھی ہیں اور اس بار پھر الیکشن میں بھی حصہ لیں گی اور امید ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس مرتبہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر عمل کرینگی اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرینگی۔ جبکہ دیگر جتنی بھی پارٹیاں ہیں سب رانگ نمبر ہیں وہ صرف دھڑے ہیں ۔ ان تمام رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ان جماعتوں کی حمایت کریں تاکہ قوم اپنی طاقت دکھا سکے ورنہ ان پر تمام حکومتیں اپنے فیصلے ایسے ہی تھونپتے رہیں گے۔

ہم سبھی دیکھ چکے ہیں کہ جس دیگ کو ہم نے پکایا، سالوں اسکی دیکھ بھال کی ہمارے بزرگ اس کو پکانے کیلئے تپش میں جلتے رہے انہیں مصیبتیں سہنی پڑیں۔ دربدر ہوئے ۔ میرے بابا مجھے بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں چار لوگوں کا ایک ساتھ بیٹھنا محال تھا اور یہ ہمارے ہی لوگ تھے جو اس تحریک کی بنیاد رکھ چکے تھے اور اس کی آبیاری کررہے تھے۔ اس کیلئے دھوپ، سردی گرمی سب کچھ برداشت کررہے تھے۔ آج جب حلوہ پک چکا ہے تو حیران کن طور پر ایک بار پھر ایک لٹیرا اس کا رکھوالہ بننے جا رہا ہے۔ یہ بھیڑیا اور کوئی نہیں اس قوم کا قاتل ہے ، اس ظالم اور سفاک بھیڑئیے نے کچھ عرصہ پہلے ہی چولستان کی ایک خاتون اور بزرگ کی ایسی درگت بنائی کہ انسانیت ہی شرما جائے۔ یہ کمینے لوگ اور کچھ نہیں کر سکتے اگر ہم اسی ماہ مقدس، شہادت کے ماہ محرم میں اسی سبق کو یاد کر لیں تو کئی ایسے چیمے چٹھے انسان بن چکے ہوں اور انہیں مظلومین کے تلوے چاٹ رہے ہونگے بات صرف اتحاد کی ہے مگر افسوس ہمیں تو ایکدوسرے پر طنز و تشنہ کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ چھوٹی سے بات کیا ہوئی اور ہم چلے لیڈر بننے اور اپنی چار اینٹوں کی مسجد کھڑی کر دی اور لوگوں کو بیوقوف بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بھی ہماری اپنی بھی کوتاہی ہوتی ہے مگر ہماری انا ہمیں وہ دیکھنے نہیں دیتی۔ ایسے لوگوں کو نہ تو مقصد کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی انکا مقصد ہوتا ہے یہ صرف اپنی دکانداری چمکانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں اگر دشمن کو شکست دینی ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی دھرتی کے غداروں اور بیوقوفوں سے بچنا ہوگا۔

خطہ سرائیکستان پر بسنے والے تمام لوگوں کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کون لوگ ہیں جو تحریک کو خراب کررہے ہیں وہ کون لوگ جو ہمارے حق کو خیرات میں بدل کر ہمیں دلوانا چاہتے ہیں۔ صوبہ سرائیکستان اس خطہ کی عوام کا حق ہے اسے حق کی طرح دیا جائے نہ کہ بھیک بنا کر ورنہ یہ قوم بھی اپنا حق استعمال کرنا جانتی ہے۔ جب اس قوم کو اس کا حق ملے گا تو یہ قوم طارق بشیر چیمے جیسے سفاک شخص سے نمٹنا بھی جانتی ہے جو کہ چوہدری برادران کا پالتو ہے اور سرائیکی قوم یہ بھی جانتی ہے کہ چیمے کا پٹہ چوہدری برادران کے ہاتھ میں۔ قارئین آپ شاید یہ سوچیں کہ میرے قلم سے آج اس طرح کے الفاظ تحریر ہو رہے ہیں تو ضرور سوچیں کیونکہ جیسے کو تیسا ضروری ہے میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا یہ سفاک شخص جو یہاں کے باسیوں کا قاتل ہے وہ انسان کہلانے کا حقدار ہے جس نے ناجائز خون بہایا صرف زمین و جائیداد کیلئے وہ انسان کیسے ہو سکتا ہے جب وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتا تو ہم اسے کیسے انسان مان لیں۔ میری تمام قوم پرستوں سے گزارش بھی ہے کہ خدا را ایک ہو جائیں اور اس چیمے کے گھر کا گھیراؤ کریں اسکے خلاف قوم کو باہر نکالیں کیونکہ یہ ہمارے وسیب کا خیر خواہ نہیں ہے بلکہ کھلا دشمن ہے۔ ہمیں اس کا کھل کر مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ سب دیکھ چکے ہیں اس نے ہمارے پکے پکائے حلوے کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے اور اسکی بنیاد سیکٹریٹ کا بہاولپور شفٹ ہونا پہلا عمل ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
 

Imran Zaffar
About the Author: Imran Zaffar Read More Articles by Imran Zaffar: 24 Articles with 23670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.