ارون مشرا:کھودا پہاڑ نکلا سکہّ

پہاڑ کو کھودنے پر چوہا نکلے یہ ضروری نہیں ہے بلکہ فرہاد تو اپنی شیرین کے لیے پہاڑ کاٹ کر نہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پرشانت بھوشن اگر معافی مانگ لیتے تو جسٹس مشرا کی من مراد بھی پوری ہوجاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔مشرا جی کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑ کر بھوشن سے معافی مانگنے کی گہار لگانے لگے لیکن وہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ اس لیے مجبور مشرا جی نے اپنا تیشہ اپنے سر پر مار لیا اور پرشانت بھوشن پر 1 روپئے کا جرمانہ لگادیا ہے۔ مشراجی نے کمال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک روپیہ جرمانہ ادا کرنے کے لیے 15 ستمبر تک کا وقت بھی عطا کر دیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آج کے زمانے میں ایک روپیہ کا سکہ تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ پرشانت بھوشن اس کے لیے سرکاری ٹکسال سے رجوع کریں تو وہ ایک ماہ کا وقت مانگے اور عدالت عظمیٰ کو اپنی مدت میں توسیع کرنے ضرورت پیش آجائے۔ ویسے اگر پرشانت بھوشن پانچ روپئے کا سکہ جمع کرکے باقی ریزگاری واپس طلب کریں تو عدالت عظمیٰ کے پسینے چھوٹ جائیں گے۔ اس لیے کہ ایک روپیہ تو آج کل فقیر بھی نہیں لیتے ۔ عدلیہ کا وقار بچانے کے نام پر ارون مشرا جی نےعدالتِ عظمی کی جس رسوائی سے دوچار کیا ہے اس کو مورخ فراموش نہیں کرسکے گا ۔

عدالت میں عام طور پر ملزم رحم کی بھیک مانگتا ہے جج صاحبان آنکھیں دکھاتے ہیں لیکن جسٹس مشرا کے ساتھ الٹا معاملہ ہوگیا ۔ اپنی پچھلی سماعت میں انہوں نے ایک ملزم کو اپنا دکھڑا سناتے ہوئے کہا تھا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ’’میں سبکدوش ہورہا ہوں‘‘۔انہوں نے بڑی انکساری کے ساتھ معافی پر اصرار کرتے ہوئے پوچھا تھا ’’لفظ’معافی‘ استعمال کرلینے میں کیا غلط ہے، کیا اس سے جرم کا اظہار ہوجائےگا؟معافی تو ایک جادوئی لفظ ہے۔ میں پرشانت بھوشن کے بارے میں نہیں عمومی بات کررہا ہوں، اگر آپ معافی مانگ لیں تو آپ مہاتما گاندھی کی زمرے میں آجائیں گے۔گاندھی ایسا کرتے تھے۔ اگر آپ نے کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو آپ کو مرہم بھی لگانا چاہئے۔ اس سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا۔‘‘ یہ تلقین و نصیحت کا انداز سادھو بابا مودی کو تو زیب دے سکتا ہے لیکن کرسیٔ عدالت پر فائز جج کے شایانِ شان نہیں ہے۔

اس معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ دونوں فریق متضاد رویہ اختیار کرنے کے لیے گاندھی جی کا حوالہ دے رہے تھے ۔ پرشانت بھوشن جس گاندھی کے نام پر کہہ رہے تھے کہ میرے ساتھ رحمدلی یا دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے سزا دی جائے ، اسی گاندھی کا حوالہ دے کرجسٹس ارون مشرا معذرت چاہنے کا اصرار کررہے تھے ۔ یہی وجہ ہے بھوشن کے وکیل نے الٹا عدالت کو کٹہرے میں کھڑا کرکے کہہ دیا کہ معاملہ ختم کرنے کے لیےملزم پر معافی مانگنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ دباؤ ڈالنا غلط ہےاورکوئی عدالت ایسا حکم نہیں جاری کرسکتی کہ ہم آپ کو اتنے دن دےرہے ہیں آپ معافی مانگ لیں ۔ اس توہین کو برداشت کرلینے بعد بھی جج صاحب نے پرشانت بھوشن کو سوچنے کے لیے مزید۳۰؍ منٹ کا مزید وقت دے دیا گیا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا بالآخر مشرا جی کی عالمِ بیچارگی پر غالب کا یہ شعر صادق آگیا؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

جسٹس ارون مشرا نےاس سے پہلے بھی پرشانت بھوشن کومعافی مانگنے کیلئے ۲؍ سے ۳؍ دن کا وقت دیا تھا ۔اس مہلت کے خاتمہ پر پرشانت بھوشن نے جوبیان درج کرایا اس پر عدالت نے افسردگی کااظہار کرتےہوئے کہا تھا کہ اسے تکلیف پہنچی ہے۔ یہ تکلیف دراصل بھوشن کے بیان سے نہیں بلکہ ان سے باندھی جانے والی غلط توقعات کےپورا نہ ہونے باعث پہنچی تھی ۔ اس حقیقت کا اعتراف عدالت نے یہ کہہ کرکیا کہ اسے کسی اور طرح کے بیان کی توقع تھی۔ سہ رکنی بنچ کے مطابقپرشانت بھوشن جیسے ۳۰؍ سال کا تجربہ کار وکیل کا یہ رویہ قطعی غلط ہے۔ گزشتہ سماعت میں جب پرشانت بھوشن نےصاف کہہ دیا تھا کہعدالت اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے سزا سنائے تو جج صاحبان کی تمام خوش فہمیوں کا ختم ہو جانی چاہیے تھیں لیکن اگر اس کے باوجود کوئی بیجا توقعات وابستہ کرکے اپنے آپ کو مایوس کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے وہ خود بنچ ذمہ دار ہے۔

عدالت کی سہ روزہ مہلت کے خاتمہ پرپرشانت بھوشن کا جواب یہ تھا کہ ’’عوامی سطح پر اس رائے کااظہار میں نے ایک شہری اور اس کورٹ کے ایک وفادار افسرہونے کی حیثیت سے ضروری محسوس کیا۔اس لئے ان آراء کے اظہار پر مشروط یا غیر مشروط معافی مخلصانہ نہیں ہوگی۔‘‘ اصل میں کسی کے جذبۂ اخلاص کی قدر دانی وہی کرسکتا ہے جو کسی عظیم مقصد کے حصول کی خاطر خود مخلص ہو ۔ پرشانے بھوشن کی ایک نہایت معقول کا بات کا جسٹس مشرا بلاوجہ برا مان گئے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’جس بیان پر میں یقین رکھتا ہوں اور سچ سمجھتا ہوں اسے اگر اس کوعدالت کے سامنے واپس لے لیتا ہوں ، یا فریب دہی کے تحت معافی مانگ لیتا ہوں تو میری نظروں میں یہ میرے ضمیر اوراس ادارے (سپریم کورٹ) کی توہین ہوگی جس کی میں بے انتہا قدر کرتاہوں۔‘‘ عزم و استقلال کا مظاہرہ کرنے کے لیے ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے عصر حاضر کے بیشتر جج حضرات جس طرح کی ابن الوقتی اور موقع پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کو دیکھنے کے بعد ضمیر صاحب وینٹی لیٹر پر چلے جاتے ہیں ۔

جسٹس مشرا کی یہ پیشکش کہ ’’ معافی مانگنے میں کیا حرج ہے ‘‘ اپنے آپ میں منافقت کی کھلی ترغیب ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسے معیوب نہیں سمجھاجاتا بلکہ ایسا کرنے والےایک مشہور سیاسی رہنماونائک دامود ر ساورکر کو ویر کے خطاب سے نوازہ جاتا ہے ۔ بڑے فخر کے ساتھ ایوان پارلیمان میں ان کا مجسمہ نصب کیا جاتا ہے۔آر ایس ایس کے شعبہ اشاعت تک سے شائع ہونے والی آر سی مجُمدار کی کتاب”پینل سیٹلمنٹ ان دی اڈمنس“ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 1911میں جب ساورکر کو کرانتی کاری سرگرمیوں کےسبب کالا پانی کی سزا سنائی گئی اور انڈومان نکوبار کے سلیولر جیل میں بھی بھیج دیاگیاتو کچھ ماہ بعد انہوں نے انگریز حکومت سے رہائی کی گہار لگادی۔
دامودر ونائک ساورکر کے معافی ناموں کی تفصیل خاصی دلچسپ اور طویل ہے۔انڈمان نکوبار کی جیل میں بند ساورکر نے 1911 سے 1920 کے درمیان چار بار انگریزوں سے تحریری معافی مانگی ۔ تاریخی دستاویزوں کے مطابق سیلولر جیل میں پہنچنے کے ٹھیک ایک مہینے بعد ہی ساورکر نے 30 اگست 1911 کو پہلا معافی نامہ لکھا تھا۔ چار دن کے بعد ہی اسے 3 ستمبر کو برطانوی حکومت نے خارج کر دیا۔ اس کے دو سال بعد 1913 میں ساورکر نے پھر ایک بار انگریزوں کو معافی نامہ لکھا۔اس پٹیشن کو ساورکر نے ازخود گورنر جنرل کونسل کے رکن سر رینالڈ کراڈوک کو سونپا لیکن یہ سعی بے سود رہی ۔ اس معافی نامہ میں ساورکر نے خود کو انگریزی حکومت کی اولاد بتایا تھا۔ اس کے چار سال بعد 1917 میں ساورکر نے مختلف قیدیوں کو دیجانے والے معافی کی بنیاد پر رحم کی عرضی پیش کی مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چوتھی بار جولائی 1920 میں ساورکر نے ماضی کی انقلابی سرگرمیوں کے لیے انگریزوں سے معافی مانگتے ہوئے رہائی کی اپیل کی تھی۔

ساورکر نے چونکہ اپنی پٹیشن میںصاف طور پر لکھا تھا کہ مجھے رہاکردیاگیاتو میں بھارت کی آزادی کی لڑائی چھوڑ دوں گا اور انگریزی حکومت کے لئے وفادار رہوں گا اس لیےسپریم کورٹ کے سبکدوش جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق صدر جسٹس مارکنڈے کاٹجوکہتےہیں کہ ساورکر 1910تک ہی راشٹروادی تھے۔ جیل میں دس سال گذارنے کے بعدجب انگریزوں کی طرف سے ساورکر کو حکومت کا حامی بن جا نےکی پیش کش کی گئیتو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ انگریزوں کا حق نمک ادا کرنے کے لیے سلیولر جیل سے چھوٹنے کے بعد کرانتی کاری ساورکر ہندو فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کے کام میں جٹ گئے ۔ویسے ساوکر پر تنقید کرنے والے کانگریسیوں کو بھی یہ یادرکھنا چاہیے کہ چوتھی عرضی کے خارج ہونے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس سمیت مہاتما گاندھی اور بال گنگا دھر تلک جیسے لیڈروں نے ساورکر کی ’بلا شرط رہائی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

ونائک دامودر ساورکر کا تعلق چونکہ مہاراشٹر سے تھا اس لیے ایک زمانے میں وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے انہیں بھارت رتن دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ساورکر اس ملک کے وزیراعظم ہوتے تو پاکستان کا جنم نہیں ہوتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ساورکر کا ایک ریکارڈموجود ہے جس میں ساورکر نے کہا تھا کہ ”دوقومی نظریہ پر شری جناح کے ساتھ میری کوئی کشیدگی نہیں ہے۔ہم ہندو اپنے آپ میں ایک قوم ہیں اور یہ ایک تاریخی ثبوت ہے کہ ہندو او رمسلمان دوقومیں ہیں“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ساورکر بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کے قائل تھے ۔ ادھو ٹھاکرے کے برخلاف چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل ساورکر کو ’ویر‘ کہہ کر مخاطب کرنے کے بھی مخالف ہیں ۔ انھوں یہاں تک کہا تھا کہ ’’ساورکر جیسے انسان کو، جس کا گاندھی جی کے قتل میں سیدھا ہاتھ ہے، بھارت رتن دینے کی پیشکش کرنا حیران کن بدقسمتی ہے۔‘‘ بگھیل نے کہا تھا کہ کانگریس گاندھی کو اپنا رول ماڈل مانتی ہے جب کہ بی جے پی کے رول ماڈل ساورکر اور گوڈسے ہیں۔ پرشانت بھوشن اور ارون مشرا کے معافی مانگنے اور انکار کرنے کے اختلاف کو اگر گاندھی اور ساورکر کے تناظر میں دیکھا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.