حسینیت قلوب کے اندر ایک ایسی بھڑکتی چنگاری کا نام ہے جو
کہ انسانیت کو تباہی کے دہانے سے نکال کر کامیابی و کامرانی کی اعلیٰ منازل
پر فائز ہونے کا سبب بنتی ہے۔ یہ انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین اقداروں
سے روشناس کرواتی ہے۔ اس کے لیے رنگ و نسل، علاقہ اور زبان معنیٰ نہیں
رکھتی۔ حسینیت قیامت تک کے آنے والے یزیدیوں کے مظالم کا پردہ فاش کرنے کا
نام ہے۔ ان کو ابدی موت دینے کا نام ہے۔حسینیت رائے حق ہے۔ جو اس راہ سے
بھٹک جاتا ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔
دوستو! آج میرا موضوع انتہائی حساس ہے۔ اس دنیا میں ہر نیک دل انسان چاہتا
ہے کہ وہ اپنی زندگی خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف کرے۔ مگر اس کا نظریہ و
مقصد تاقیامت زندہ و جاوید رہے۔ ہر ایسا نظریہ جو کہ ملک و ملت کے علاوہ
عالم انسانی کے لیے موثر ہو اس میں حسینیت کے عظیم کارنامہ و نظریہ کی بہت
ضرورت پڑتی ہے۔ آپ کوئی بھی نیک کام اپنے ملک و ملت کے لیے کرنا چاہتے ہیں
تو اس میں آپ کو بے حد تکلیف و مصائب سے گزرنا پڑے گا۔ اگر آپ کو اس دنیا
میں عظیم الشان ہستیوں کی طرح زندہ رہنا ہے تو آپ کو حضرت امام حسین علیہ
الصلاۃ والسلام کی زندگی سے سبق لینا ہی پڑے گا۔ان کی زندگی میں صبر و تحمل،
اخلاق و آداب وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے خود کو دین خدا پر قربان کرکے عالمِ
اسلامی بلکہ پوری دنیا کو یہ سبق دیا کہ کٹ جاؤ مگر حق کے لیے ایک قدم بھی
پیچھے ہٹنا نہیں۔ اگر آج اس عظیم الشان ہستی کا ہم خود کو کو محب کہتے ہیں
تو ہمیں یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ ہم ان کی زندگی سے کیا کچھ حاصل کر
رہے ہیں۔اگر ایک شخص کسی کو اپنا محبوب کہتا ہو۔ اس کا عاشق و مرید کہتا ہو۔
مگر اس کی کسی بھی بات کو دل وجان سے تسلیم نہ کرے۔ تو ظاہری بات ہے اس کا
مریدی کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اگر ان کی محبت آپ کا ایمان ہے تو آپ کو یہ
دیکھنا پڑے گا کہ ایمان کسے کہتے ہیں؟
حضرت امام علی علیہ الصلاۃ والسلام سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے
فرمایاکہ؛
" ایمان دل کا عقیدہ, زبان سے اقرار کرنا اور اعضاء و جوارح کے عمل کا نام
ہے۔"
اگر آج ہم اپنے اعضاء و جوارح سے عمل نہیں کرتے تو دراصل ہمارا اس شخص پر
ایمان ہی نہیں ہے جس کا ہم دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں۔ان سے غیر مسلم بھی سبق
لیتے ہیں ہم کیوں نہ لیں۔
نیلسن منڈیلا کا مشہور واقعہ ہے۔وہ کہتا ہے کہ؛
"جب میں جیل میں پابند سلاسل تھا۔ انتہائی سختیوں اور مصائب سے دوچار ہوتے
ہوہے ایک دن میں نے سوچا کہ اب حکومت وقت کی ہر ایک شرط منظور کر لیتا ہوں
اور رہائی پاتا ہوں۔ تب مجھے امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام کا کربلا کا
واقعہ یاد آیا اور پھر میں ثابت قدم رہا۔"
آج اگر ہم مظلوم کی مدد کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ تب بھی ہم
گنہگار ہیں۔ ہمارے سامنے کشمیر اور فلسطین کے حالات ہیں۔ میں اکثر اس بات
کا اپنے دوستوں سے ذکر کرتا ہوں کہ اگر کشمیر و فلسطین غیر مسلم علاقے ہوتے
تووہ کب کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ آج بھی وہاں انسانیت تڑپ تڑپ کر مر رہی ہے۔
کبھی نوجوانوں کے جنازے بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر تو کبھی بڑوں کی لاشوں
پر بیٹھے کمسن بچے رو رہے ہوتے ہیں۔قرآن کریم میں بار بار یہ ارشاد ہوا ہے
کہ اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ اگر آج ہم
میں سے ہی کچھ مسلم ممالک ان سے دوستی کر لیں تو پھر مسلمانوں کا اللہ ہی
حافظ و ناصر ہے۔شروع سے ہی ان غیر مسلم اقوام کا وطیرہ رہا ہے کہ مسلمانوں
کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑوا کر باہمی فائدہ نکالا جائے۔ اس کا نتیجہ
دنیا میں مسلمانوں کے درمیان ہونے والی چپکلش سے آپ نکال سکتے ہیں۔حسینیت
نام ہی ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کا اور ظالم کو لحد
میں ڈال کر نست و نعبود کرنے کا نام ہے۔ اگر اس وقت ہم میں سے مسلمانوں کا
دشمن ہے تو وہی ہے جو اختلافات ڈالے۔ جو امت مسلمہ میں دراڑیں پیدا کرے۔
ہمیں اس وقت بھی اپنے ملک میں سنبھلنا ہوگا۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان ایک
بار پھر فرقہ واریت کی لپیٹ میں آجائے۔ہمیں مل کر ایک دوسرے کو صبر و تحمل
کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا۔ ہم سب نے متحد ہوکر دشمن ممالک کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈالنی ہیں۔باطل کو بچھاڑنا ہے۔اور جن جن ممالک میں انسانیت پر ظلم
ہو رہا ہے وہاں مظلوم کی مدد کرنی ہے۔خصوصاً کشمیر اور فلسطین میں انسانیت
کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانا ہے۔انشاءاللہ ہم سب مل کر حق کے ساتھ باطل کو
نست ونابود کریں گے۔
"نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ"
|