مسلمانوں کی قتل گاہ "برما"

ہرمسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،پھر برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرمسلم حکمران خاموش کیوں ہیں؟
کیا ہر جگہ مسلمانوں کا خون اس قدر سستا ہے کہ کفار طاقتیں بے دریغ بہا رہی ہیں
کہاں ہیں طارق بن زیاد، سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم ۔کیا یہ سب افسانوی کردار تھے

نبی کریم ﷺ کو فرمان عالی شان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔جسم کے کسی حصے کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو لازماً پورا جسم اس کی تکلیف کی شدت کو محسوس کرتا ہے ۔برما برصغیرپاک و ہند میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں کے رہنے والوں کا مذہب بدھ مت ہے ۔جس کا نیا نام میانمار ہے ۔یہ جنوب مشرقی ایشیا ء کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں بنگلہ دیش، بھارت ،چین ،لاؤس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں ۔میانمار کو سونے کی وادی بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ملک میں وسیع قدرتی ذخائر اور دلفریب مناظر کی دولت کی حد درجہ فراوانی ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کو رنگون کا لفظ بہت اچھی طرح یاد ہوگا کیونکہ پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی کئی صدیوں سے جاری حکومت کا خاتمہ جب انگریزوں نے کیا تو مسلمانوں کے آخری فرماں روا بہادر شاہ ظفر کو( جنہوں نے 1837ء سے 1857ء کی جنگ آزادی تک حکومت کی تھی)جلاوطن کرکے برما کے شہر رنگون میں نظر بند کردیا تھا جہاں نہایت بے بسی کے عالم میں وہ 7نومبر 1862ء کو اس حالت میں انتقال کرگئے کہ کوئی رونے والا بھی وہاں موجود نہ تھا ۔ جس گھر میں انہیں قید کیا گیا تھا اسی گھر کی پچھلی جانب ایک کونے میں انہیں دفنایا گیا جن کی قبرآج بھی حسرت و یاس کی علامت بنی نظرآتی ہے ۔

میانمار نے 4جنوری 1948ء کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔19اپریلِ 1948ء کو برما نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کی۔اس میں چار کروڑ سے زائد لو گ آباد ہیں ان میں 80فیصد بدھسٹ ہیں باقی آبادی میں مسلمانوں اورعیسائیو ں پر مشتمل ہے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ تبتی ،برمی، کوہ ہمالیہ کے مشرق سے اور تائی نسل کے لوگ جنوب مغربی چین سے یہاں آئے اور ہمیشہ کے لیے یہاں کے ہی ہوکر رہ گئے ۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک میں 135نسلی گروہ آباد ہیں ۔اس ملک کی 75فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے ۔برما کے سات صوبے ہیں، یہاں انگلش، اردو،چائینز اور ہندی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں ۔میانمار کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 13فیصد بنتا ہے جنہیں برمی نژاد مسلمان کہا جاتا ہے۔برطانیہ سے آزادی کے بعد ہی سے برمی فوج کسی نہ کسی طرح اقتدار اور اختیارات پر قابض چلی آرہی ہے ۔

اب ذہنوں میں یہ سوال یقینا پیدا ہوتا ہے کہ ایک بدھ مت ملک میں مسلمان کہاں سے آئے اور یہاں ان کی آمد کب اور کیسے ممکن ہوئی؟اس کا جواب محمد فاروق عزمی اپنی کتاب میں کچھ اسطرح دیتے ہیں کہ روایت کے مطابق یہاں پہنچنے والا قافلہ حضرت علی ؓ کے خاندان کے ایک فرد محمد بن حنیفہ ؒ اور ان کی بیوی خایہ بری ؒ اور دوسرے عزیزواقارب پر مشتمل تھا۔انہوں نے اسی سرزمین پر وفات پائی ۔محمد بن حنیفہ ؒ اور ان کی اہلیہ کی قبریں مینگڈو نامی ٹاؤن کی پہاڑی پر واقع ہیں ۔آپ نے سمندری سفر اختیار کرتے ہوئے کچھ اصحاب کو کوفہ چھوڑا اور خودبذریعہ کشتی خلیج بنگال کے ایک مقام اراکان پہنچے ۔اس کے بعد برما کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئے۔مسلمانوں کی تبلیغ ، حسن سلوک ، سچ بولنے ،ایک اﷲ کی عبادت کرنے، تجارت میں ایمانداری کو لازم و ملزم رکھنے کی خوبیوں نے مقامی لوگوں کو اسلام کی جانب راغب کیا اور بڑی تعداد میں مقامی لوگ مسلمان ہونے لگے۔جب مسلمانوں کی تعداد اس بستی میں زیادہ ہونے لگی تو مسلمان ،برما کے ایک مشہور قریبی دریا "اریا وادی" کے ڈیلٹا میں پہنچے جو "نائین تھرائی " ساحلی علاقے کے قریب ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمان "راخین"کے علاقے میں بھی آباد ہونے لگے اور 9ویں صدی ہجری تک وہیں قیام پذیر رہے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے برما پر ساڑھے تین سو سال1430ء سے لے کر1784ء تک مسلمانوں نے حکومت کی۔1784ء میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمان حکمرانوں پر غلبہ حاصل کرلیا اور بدھ مت مذہب کے پیروکار بادشاہ "بورا بانی " کی حکمرانی قائم ہوئی۔بس اسی دور سے برما (میانمار) میں مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اور متشدادانہ کاروائیوں کا آغاز ہوا۔پورے ملک میں مساجد و مدارس کو مسمار کردیا گیا کئی مقامات پر مساجد کو شہید کرکے مندروں میں تبدیل کردیاگیا۔جہاں ہر وقت نماز اور قرآن پڑھے جاتے تھے، وہاں بدھ مت کے پیروکاروں کی تصویریں اور بت نصب کردیئے گئے۔مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا ۔اس موقع پر بدھ مت حکومت نے مسلمان علما اور مبلغین کو قتل کرنے کے لیے ایک دہشت گرد فوج (میگ ) کی بنیاد رکھی اس فوج کا کام ہی مسلمانوں کو قتل کرکے ان کی املاک لوٹنا ، گھروں کو جلانے اور مسلمانوں کی مساجد کو تباہ کرنا تھا۔ حکومتی سرپرستی میں برمی فوج نے اسلحی طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کی صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کررکھا ہے ۔حکومت کی طرف سے بھرتی کیے گئے ان بدمعاش دہشت گردفوج کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا جس کی بنا پر مسلمانوں کا بڑی تعداد میں قتل عام ہوا۔

اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ میانمار اپنی سرزمین سے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین کے نمائندے "جان مک کسک "کا کہنا ہے کہ رخائن (اراکان ) ریاست میں مسلح افواج روہنگیا افراد کا قتل کرتی رہی ہیں۔جس سے بڑ ی تعداد میں روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کرگئے ۔گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کے پورے گاؤں جلا دیے گئے ۔ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔برما کی درندہ صفت فوج نے بچوں کو بھی نہیں بخشا ۔ان کی گردنیں توڑ کر انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔روہنگیاکے مسلم نوجوانوں کو زندہ جلا کر ان کا تماشہ دیکھا جاتا رہا۔ کئی مقامات پر زندہ مسلمانوں کو اجتمائی قبروں میں دفن کردیا گیا ۔خواتین کی لاشوں کے الیکٹرک کٹر سے ٹکڑے کیے گئے۔ خواتین کو برہنہ کرکے درختوں اور بانسوں کی ٹکٹکی کے ساتھ باندھ کر لٹکایا گیا ۔

ایک اور رپورٹ میں مسلمانوں پر برمی فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی مناظر کشی پانچ سال کی عمر کے ساٹھ ستر بچے ہیں ان کو ایک لائن میں گھٹنوں کے بل بٹھا یا جاتا ہے ۔انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ہاتھ اور بازو لمبے کرکے اپنے سامنے زمین پر رکھیں ۔پھر ایک فوجی وردی میں ملبوس ہیوی ڈیوٹی موٹربائیک سوار ان معصوم بچوں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں اور بازووں کے اوپر بائیک دوڑتا ہے ۔جب تکلیف سے بچوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں اور درندہ صفت تماشائی قہقہہ لگاتے ہیں ۔ان درندوں میں برمی فوج اور بدھ مت کے
پیروکار شامل ہیں ۔

ایک اور ویڈیو نے انسانیت کو چیخنے پر مجبور کردیا اس ویڈیو میں ایک نو عمر لڑکا جسے لوگوں نے زخمی کردیا ،سڑک پر رینگ رہا ہے ۔اردگرد کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں وہ درد سے تڑپ رہا ہے ۔کچھ لوگ اسے ٹھوکریں مار رہے ہیں ،تشدد بڑھایا جا رہا ہے ۔جب وہ زخموں سے چورُ نہ اٹھ سکتا ، نہ بھاگ سکتا تو ایک جلتا ہوا پرانا ٹائر اس کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔بچے کی چیخیں تماشائیوں کے قہقہوں کے شور میں دب جاتی ہیں ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایسے مظالم ڈھانے والوں کو پھر بھی انسان کہا جا تا ہے ،جبکہ انسانیت کی تمام حدوں وہ پھلانگ چکے ہیں ۔یہ سب امن کا پرچار کرنے والے گوتم بدھ کے پیروکار ہیں ۔برمی فوج کے ہاتھوں رہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی صرف دو ویڈیو کا تذکرہ میں نے یہاں دل پر پتھر رکھ کرکیا ہے لیکن اس کتاب کے مصنف جناب فاروق عزمی صاحب کو اﷲ اپنی حفاظت میں رکھے ،انہوں نے نہ جانے کتنے صبرآزما واقعات کو کتاب میں الفاظ کی شکل دے کر اس لیے شامل کیا ہے کہ شاید کسی مسلمان حکمران کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ طارق بن سلطان اور صلاح الدین ایوبی بن کر برمی فوج ،حکومت اور ان تمام قومی اور بین الاقوامی اداروں کو تہس نہس کردے جو بطور خاص مسلمانوں پر مظالم کے لیے بنائے گئے ہیں۔

اب چند انسانی حقوق کی تنظیمون اور عالمی میڈیا گروپس کی رپورٹس کا تذکرہ بھی کرتا چلوں ۔برطانیہ کے شہر گلاسکو کی سٹی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت نہ کرنے پر میانمار کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو دیا گیا ایوارڈ "فریڈم آف گلاسکو "واپس لے لیاہے ۔یہ ایوارڈ 2009ء کو اس وقت دیا گیا تھا جب وہ گھر میں نظر بند تھیں ۔ایشیا ڈویژن میں ہیومین رائٹس واچ کے ڈائریکٹر فیلم کین کے مطابق آنگ سان سوچی کی حکومت کے ترجمان اشتعال انگیز پروپیگنڈا کررہے ہیں اور میانمار کے مقامی لوگوں کو روہنگیا مسلمانوں اور امدادی کارکنوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں پر ابھار رہے ہیں ۔ان مظالم میں بچوں کے سر کاٹ کر انہیں ٹھوکریں مارنا اور مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے واقعات ،گھروں کو جلایا جانا شامل ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے محض چند خبریں اور تصویریں اور ویڈیوز ہی آسکی ہیں ۔تاہم حقائق ان سے کہیں زیادہ بھیانک اور خوفناک ہیں ۔ان ویڈیوز اور تصویروں کو دیکھ کر ہی اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ برمی فوج میانمار سے مسلمانوں کے مکمل خاتمے کے مشن پر گامزن ہیں ۔جہاں ایک سو کلومیٹر سے زائد رقبے پر مسلمانوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے اور مجبور کیاجا رہا ہے کہ مسلمان میانمار کو چھوڑ کر بنگلہ دیش ہجرت کرجائیں ۔

ایک اندازے کے مطابق چارلاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان سمندری راستے کے ذریعے بنگلہ دیش ہجرت کرچکے ہیں ۔اس دوران سینکڑوں مسلمان سمندر کے بے رحم لہروں کی نذر ہوچکے ہیں اور ہزاروں بنگلہ دیشی سیکورٹی فورس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں ۔جن کوناقص اور ناکافی خوراک اور مختلف بیماریوں کا سامنا ہے جو ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے ۔روہنگیا کے بدنصیب مسلمان دنیا کے واحد لوگ ہیں جو اس کرہ ارض پر کسی ملک کے شہری نہیں ہیں جنہیں کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔جن کے سر پر نہ سائباں ہے اور نہ پاؤں کے نیچے زمین جسے وہ اپنا وطن کہہ سکیں ۔ان بدترین حالات میں ایک مسلم نوجوان محبت کی لافانی مثال بن گیا جو اپنے والد اور والدہ دونوں کو کندھوں پر اٹھا کر سات دن جنگلوں ، دریاؤں اور نالوں کو عبور کرتا ہوا بنگلہ دیش جا پہنچا۔

حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ نے فرمایا تھا مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی ۔کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ خاموش امت کا نام ہے ،اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر مسلم امہ کی خاموشی شرمناک ہے ۔سوائے ترک صدر طیب اردگان کے ، مدد کرنا تو درکنار کسی نے اظہار ہمدردی کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔ترک خاتون اول امینہ اردگان نے بھی روتے بلکتے بچوں اور مجبور و بے بس خواتین کو گلے لگایا اور انہیں پیغام دیا کہ اپنے آنسو مجھے دے دو۔

اس کے باوجود کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق مسلمان ایک جسد واحد کا نام ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بد ترین مظالم اور تکالیف کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی کہ مسلمان اب نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ۔یہ بات حیران کن ہے کہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے اور نقصان پہنچانے کے لیے غیر مسلم ممالک اکٹھے ہوجاتے ہیں اور گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں پوری امت مسلمہ کے خلاف ان کی سازشیں جگہ جگہ عیاں بھی ہورہی ہیں لیکن مسلم ممالک کے حکمران کسی جائز مسئلے پر بھی اکٹھے نہیں ہوتے ۔برمی مسلمانوں کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور سوچی حکومت کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔بھارتی حکومت نے بدھ مت دہشت گردوں سے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو ہی دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق بھارت میں چالیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں جو مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں مقیم ہیں ۔جب سے مودی نے دوبارہ اقتدار سنبھالا ، ہندو انتہاء پسند قوتوں کے حوصلے بہت بلند ہوگئے ہیں وہ ڈنکے کی چوٹ پربھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے پرتلی ہوئی ہے ۔ان حالات میں سعودی عرب جو سب سے امیر اور مقدس مقامات کی وجہ سے مسلمانوں کا مرکز ہے وہ مسلمانوں کے قتل نریندر مودی کو اپنے گھر بلا کر سعودیہ کا سب سے بڑا ایوارڈ سے نوازتے ہیں ،نہ جانے اس لمحے ان کی غیرت کہاں مر جاتی ہے ۔ کیا انہیں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کو جلانے والوں کے مکروہ چہرے دکھائی نہیں دیتے ۔یہی عالم متحدہ عرب امارت حکومت کا ہے جو اپنے کاروباری مفادات کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کے قصائی نریندر مودی کے گلے میں فخریہ طورپر سونے کے ہار ڈالتے ہیں ۔

اس لمحے مجھے ایک حدیث یاد آرہی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا "کہ قریب ہے کہ اقوام عالم آپس میں ایک دوسرے کوتم پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دیں گے ، جیسا کہ کھانا چننے کے بعد دسترخوان کی طرف بلایا جاتا ہے کہ کھانا چن دیا گیا ہے ۔آئیں اس سے اپنا اپنا حصہ حاصل کریں ۔" ایک صحابی نے سوال کیا ۔یا رسول اﷲ ﷺ کیا ہم تعداد میں اتنے کم ہو جائیں گے کہ ہم اقوام عالم کے رحم وکرم پر ہوں گے ۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تمہاری تعداد بہت کثیرہوگی لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے خس وخاشاک کی سی ہوگی ۔اﷲ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری دہشت نکال دے گا ۔پھر پوچھا گیا اے اﷲ کے رسول ﷺ ایسا کیوں ہوگا ؟ فرمایا اﷲ تعالی تمہارے دلوں میں وہن کی بیماری پیدا فرمادے گا ۔پوچھا گیا یہ وہن کیا ہے ؟ فرمایا ،دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ۔دنیا کی محبت جب تمہارے دلوں میں گھر کر جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ موت کے ناپسندیدہ شے بن جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔جیسا کہ یہودیوں کے دلوں میں دنیا کی محبت بہت زیادہ پیدا ہو گئی تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا تھا کہ ان میں سے ہرشخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر ہزار برس ہو جائے ۔یہ مرنے کے لیے تیار نہیں اس لیے آگے بڑھ کر لڑ نہیں سکتے ۔

آج پورے عالم اسلام کا یہی حال ہے ، دنیا جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کرتی رہے لیکن ہم مکمل طور پر بے حس اور بے بس ہیں ۔ہماری غیرت اور حمیت ماضی کا حصہ بن چکی ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد، محمود غزنوی ، ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم سب افسانوی کردار تھے ۔ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں نہ کوئی تڑپ ہے اور نہ کوئی احساس ۔یہ خاموشی بے حسی اور بے غیرتی اور دین اسلام سے غداری کے مترادف ہے۔میں سمجھتا ہوں اسی غداری ، بے حسی ، بزدلی کی سزا ہمیں برما،کشمیر ،فلسطین اور بھارت میں مل رہی ہے ۔

جناب فاروق عزمی کے قلم سے لکھی ہوئی اس کتاب "مسلمانوں کی قتل گاہ برما" کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر مردہ دل مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے ۔ضمیر اگر زندہ ہوتے تو قتل گاہوں میں تڑپنے والے مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہتے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب مسلم حکمرانوں کے ضمیر مر چکے ہیں اور مردے کبھی زندہ نہیں ہوتے ۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل بنک سٹاپ ، یثرب کالونی والٹن روڈ لاہور کینٹ کے زیر انتظام شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 1500/- روپے ہے ۔یہ کتاب ہر درد دل رکھنے والے مسلمانوں کو ضرور پڑھنی چاہیے اگر تلوار سے جہاد ممکن نہیں رہا تو زبان سے ہی مذمت کر لی جائے ، اگر ایسا بھی نہیں ہوسکتا تو دل میں ہی برمی فوج پر لعنت بھیج دی جائے ۔یہی سب سے کمزور ترین ایمان کی علامت ہے ۔اﷲ ہم سب مسلمانوں کو غیرت ملی عطا فرمائے اور جہاں جہاں مسلمانوں کفار کے ہاتھوں ظلم و تشدد برداشت کررہے ہیں اﷲ انہیں اس ظلم و استبداد سے نجات عطا فرمائے۔آمین

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.