متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کو فلسطینی
عوام کے لیے پر امن زندگی کی بنیاد کہا جارہا ہے ۔موجودہ علاقائی پس منظر
میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا
اعلان واضح طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اسی سلسلے میں گزشتہ روزسعودی عرب
کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے اسرئیل کا طیارہ بھی ابو ظہبی پہنچا جس
میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی سوار تھے جو مذکورہ
معاہدہ کے بانی تصور کیے جاتے ہیں اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل سمیت
خطہ کے دیگر امور بارے مشیر بھی ہیں۔قرائن کا کہنا ہے کہ سمعاہدہ کے تحت یو
اے ای اور اسرائیل کے مابین سٹریٹجک شراکت داری سے دونوں فریقین اور
باالخصوص فلسطینیوں کی معاشی حالت مضبوط ہو گی۔تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے
گا۔اس معاہدہ سے فلسطینی عوام کو فاہدہ اٹھانا چاہیے۔ـــ’’حقانی انسٹی ٹیوٹ
فار ورلڈ پیس ‘‘کے زیر اہتمام ڈائیلاگ میں مقررین کا کہنا تھا کہ یو اے ای
کے محمد بن زید نے حالات کے مطابق فیصلہ کر کے اسرائیل کو فلسطینی علاقوں
پر مزید قبضہ سے روک دیا ہے جس کا ضامن امریکہ ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے
مطابق مذید عرب ممالک بھی ایسے معاہدات کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔واضح رہے کہ
گزشتہ روز اسرئیل سے پہلی بار براہ راست کمرشل پرواز امریکی اور اسرائیلی
وفود کو لیکر ابوظہبی پہنچی تھی۔ تل ابیب سے اڑان بھرنے ولاے طیارہ میں
ائیر ڈیفنس سسٹم استعمال کیا گیا، اسرائیلی طیارہ سعودی عرب کی فضائی حدود
سے گزرا طیارے میں دیگر مسافر بھی موجود تھے۔ یو اے ای پہنچنے پر وائٹ ہاؤس
مشیر اور ٹرمپ کے داماد جیر ڈکشنر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب
نے اسرائیلی طیارے کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی‘ ایسا پہلی بار
ہوااور اسے ممکن بنانے کے لئے سعودی عرب کے مشکور ہیں۔ ادھر امارات‘
اسرائیلی معاہدے پر دستخط کی تقریب وسط ستمبر میں واشنگٹن میں ہو گی۔وفد
میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر، اسرائیلی قومی سلامتی کے مشیر اور سربراہ
اسرائیلی قومی سلامتی کونسل شامل ہیں۔امریکی صدر کے مشیر جیرڈ کشنر کا کہنا
ہے کہ دیگر عرب اور مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے جلد
متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔
اسرائیلی سرمایہ کار اب متحدہ عرب امارات میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے
مارکیٹ میں قدم جما رہے ہیں۔اور دوسری جانب یو اے ای کو بھی ٹیکنالوجی کے
میدان کی کھلی منڈی مل جائے گی۔اس معاہدہ پر اگرچہ تھوڑی بہت تنقید بھی
سامنے آئی مگر اب سعودی عرب جو طاقتور ترین عرب ملک ہے کی جانب سے اسرائیل
کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے سے تنقیدی گرد قدرے کم ہو چکی
ہے۔متحدہ عرب امارات کو پوری دنیا کے لیے پر کشش ملک بنانے والے محمد بن
زید کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے امن اور اپنی مملکت کی راہ
ہموار کرے گا۔اسرائیل مذید فلسطینی علاقوں پر قبضہ نہیں کرے گا۔ہمارا
معاہدہ فلسطینیوں کے خلاف نہیں اور نہ ہی یہ فلسطینیوں کی قیمت پر کیا گیا
ہے ہم پوری دنیا میں امن کے لیے امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اور امریکہ کی
رضامندی سے امن معاہدہ طے پایا ہے۔متحدہ عرب امارات کی دنیا بھر میں اپنی
ایک شناخت اور مقام ہے اس شناخت اور مقام کو دھبہ نہیں لگنے دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 2002ء میں اس وقت کے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداﷲ نے بیروت میں
ایک امن منصوبہ میں پیش کیا تھا جس کے مطابق عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم
کرنے کے لیے تیار تھے تاہم اس کے لیے شرط یہ تھی کہ اسرائیل اپنی سرحد
1967ء میں ہونے والی جنگ سے پہلے والی حدود تک واپس لے جائے۔اب اسرائیل اس
پر رضامند ہو چکا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں پر مذید تعمیرات نہیں کرے گا اور
فلسطین کے مسئلے کو حل کیا جائے گا۔ابو عبد اﷲ کے مطابق متحدہ عرب امارات
نے یہ بیانیہ اختیار کیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم
کرنے کے منصوبوں کو ختم کرنے کی شرط پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر
راضی ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے خطے کے معاملات پر اثرا انداز ہونے اور
انھیں سلجھانے والے ملک کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور اس ضمن میں اس نے سعودی
عرب حیسے عرب دنیا کے روائتی طور پر بااثر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ
بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ عرب امارات کے موجودہ ولی عہد محمد
بن زید نے کئی قدم آگے بڑھ کر اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خطے
اور اس کے باہر بھی تنازعات پر اثر انداز ہونے اور ان کا حل اپنے حق میں
ممکن بنانے کے لیے تمام تر کوششیں جا ری رکھی ہوئی ہیں۔امارات کی جانب سے
قدرتی آفات کے دوران غریب ممالک کی مدد بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امارات
کے وزیر خارجہ انور گرگاش کیحوالہ سے بیان کو شمس حقانی نے ایسے بتایا کہ
غرب اردن کو ضم کرنے کا اسرائیلی پلان ایک ٹائم بم کی طرحتھا جس سے فلسطین
کے تنازع کے دو ریاستی حل کے تمام امکانات ختم ہو جاتے لیکن اب اس معاہدہ
سے دو ریاستی حل کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے۔معاہدے کے مطابق امریکا اور متحدہ
عرب امارات، اسرائیل سے دیگر مسلم ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لیے مل
کر کام کریں گے، اسرائیل سے امن کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے والے ممالک
کے مسلمان مقبوضہ بیت المقدس آ کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔
|