آخر کب تلک

ایک خاتون ایک عالم کے پاس گئی اور اس سے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہنے لگی کہ”مجھے کوئی ایسا وظیفہ یا تعویذ عطاء کیجئے کہ میرا خاوند مجھ سے جھگڑا و فساد نہ کرے ‘میرا مطیع و فرمانبردار بن جائے اور میر ی ہر بات کو بخوشی قبول کرے“۔

عالم فہم و فراست رکھتا تھا اس نے خاتون سے مخاطب ہو کر برجستہ کہا”کسی پاک برتن میں تھوڑا سا پانی لے آﺅ‘میں کچھ کلام پڑھ کر پانی دم کر دوں گا‘جب تمہارا مجازی خدا غیض و غضب میں مبتلا ہو تو اس دم شدہ پانی میں سے ایک گھونٹ منہ میں لے کر بیٹھ جانا مگر یاد رہے کہ کسی بھی صورت میں پانی حلق سے نیچے نہ اترنے پائے وگرنہ کلام بے اثر ہو جائے گا“۔الغر ض اس بنت حوا نے من و عن وہی عمل شروع کر دیا جو اسے عالم نے بتلایا تھا۔جب بھی اس کا خاوند غصے میں ہوتا یا حالات نا ساز ہوتے تو وہ منہ میں ایک گھونٹ لے کر مؤدب بیٹھ جاتی۔اب وہ گفت و شنید تو کر نہیں سکتی تھی ۔لہٰذا اس کو چپ لگ گئی اور اس کا غصہ رفتہ رفتہ مکمل طو ر پر ناپید ہو گیا۔

یہ فطرتی بات ہے کہ اگر ایک فریق یا گروہ تکرار و بحث سے کنارا کش ہو جائے اور خاموشی میں ہی عافیت کا ہنر جان جائے اور پلٹ کر کوئی جواب نہ دے تو جھگڑا بالشت بھر بھی نہیں بڑھ سکتا اور اس قسم کی صورت حال میں دوسرے فریق کے واسطے نرم پڑ جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ۔لیکن یہ فارمولا بھی فطرت کے مطابق استعمال کرنا چاہیے ۔کیونکہ شیر خدا حیدر کرار حضرت علیؓ فرماتے ہیں ”کمین آدمی کی یہ نشانی ہے کہ جب تو اس سے نرم گفتگو کرے گا تو وہ سخت جواب دے گا اور جب تو سخت لہجہ اپنائے گا تو وہ نرم پڑ جائے گا“۔

اس طرز عمل (دم شدہ پانی )کے جہاں معاشرتی زندگی میں بے پناہ فوائد ہیں وہاں ملکی معاملات میں منہ میں گھونٹ لے کر گم صم بیٹھے رہنے سے ملکی مفادات پر ایسی کاری ضرب لگتی ہے جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے جو بھی مسند اقتدار پر براجمان ہواوہ کبھی ہوس حکمرانی کے زعم میں تو کبھی مال وزر کی خاطر باباجی کا دم شدہ پانی استعمال کرتا آیا۔نتیجتاً ہر اہم ایشو پر ہمیں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔امریکہ نالاں ‘طالبان بھی ناراض۔کشمیر بھی نہ ملا اور مشرقی پاکستان بھی گنوا بیٹھے۔
یک نہ شد دو شد

اسی مضمون کو کسی شاعر نے یو ں بھی بیان کیا ہے
نہ ہی خدا ملا نہ ہی وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

محض قراردادیں پاس کر کے اس ابتلا کے دور میں عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکے گا۔قوم1947 میں تھی اب تو ہم فقط جم غفیر ہیں۔لسانی ‘علاقائی‘ذہنی طور پر منقسم ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان قومی مفاد میں اکٹھے ہو کر مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں ۔القاعدہ اور طالبان سے متعلق حقائق ان کے سامنے لائیں۔تاکہ قرارداد یں پاس کرنے کے بعد اس پر عمل درآمد بھی ممکن ہو سکے۔ہمہ وقت سرحدیں اور شہر بدامنی کا شکار ہیں۔50 ارب سے زائد کا نقصان اٹھا لینے کے باوجود ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی جاری ہے۔ڈرون و قرون (قارون )حملے جاری ہیں۔ جب تک ہمارے تمام سیاستدان اپنے رویوں میں تبدیلی نہ لائیں غیر سے گلہ مناسب نہیں ۔مارٹن لوتھر کنگ کہتا ہے ”کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر سوار نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ جھکی ہوئی نہ ہو“۔

کشکول رکھنے والی قوم قوم نہیں رہتی ۔اور نہ ہی اس کے سیاستدان آزاد خارجہ پالیسی مرتب کر سکتے ہیں۔وہاں اسمبلی کے اجلاس محض اس فارسی جملے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نشستند گفتند برخاستند
کب تلک محض بیانات سے عوام کو مطمئن کیا جاسکے گا‘آخر کب تلک؟
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174823 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.