معروف ناول نگار بمل مترا نے 1953 میںٹوٹ کر بکھرتے ہوئے
جاگیردارانہ نظام پر بنگالی زبان میں ایک ناول لکھا ۔ اس کے 35 سالبعد
مغربی بنگال میں بڑے پیمانے پر زمینی اصلاحات (Land reforms) ہوئے اور بمل
مترا کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ ایک زبردست نظام کہ جس نے صدیوں تک عوام
کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا تھا منتشرہو گیا۔ 1977میں مغربی بنگال کے اندر
اشتراکی اقتدار میں آگئے۔ گیارہ سال کے بعد انہوں نے دو سال پر محیط
انقلابی اصلاحات کرکے کاشتکارمزدوروں کو زمین کے حقوق دے دیئے اور دیہاتوں
میں ایسی پکڑ بنائی کہ جملہ ۳۵ سالوں تک حکومت کی۔ 2008 میں سی پی ایم نے
اس کی کمیوں کو ختم کرنے کی پھر سے کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آگے چل کر
اقتدار بھی چلا گیا اور اب وہ پہلے نمبر کی ناقابلِ تسخیر نظر آنے والی
سیاسی پارٹی چوتھے نمبر پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ گردش زمانہ نے ایک نظام
کو بدل دینے والی پارٹی کو بدل کررکھ دیا ۔
مغربی بنگال میں جاگیردارانہ نظام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہی فی الحال دہلی کے
اندر عدلیہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ ایک نہایت مضبوط دکھائی دینے والا عدالتی
نظام ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہا ہے بلکہ سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مطابق وہ
پوری طرح زمین دوز ہوچکا ہے۔مغربی بنگال میں جس طرح بے یارو مددگار سی پی
ایم ایک سرمایہ دارانہ جماعت بی جے پی کو اقتدار میں آتے ہوئے دیکھ رہی ہے
اسی طرح عدالتی نظام کو قائم کرنے میں اپنا خون پسینہ لگانے والے مارکنڈے
کاٹجو جیسے لوگ عدلیہ کی پامالی کو دیکھ کر کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ ان کے
مطابق اب اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے بلکہیہ ملک ایک عظیم انقلاب کا
متقاضی ہے۔ ماضی میں جسٹس کاٹجو اس طرح کی باتیں ایمرجنسی اور بابری مسجد
کے متنازع فیصلے سے متعلق کرتے رہے ہیں اور اب پرشانت بھوشن کے بارے میں
حالیہ فیصلے کے بعد انہوں نے پھر ایک بار پھر ستیہ چینل پر اپنا وہی موقف
نہایت واضح انداز میں دوہرایا ہے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے نعروں کی حامل
جئے پرکاش نارائن اوراور جوش و خروش سے لبریز اناّ ہزارے کی تحریکوں کو غیر
انقلابی قرار دیا کیوں کہ اس کے پس پشت کوئی انقلابی نظریہ کار فرما نہیں
تھا۔ جسٹس کاٹجو کے مطابق انقلاب ناگزیر تو ہے مگرنظریاتی بنیادوں کے بغیر
ممکن نہیں ہے ۔
پرشانت بھوشن اس حد تک تو نہیں جاتے لیکن انہوں نے دی وائر سے گفتگو میں یہ
ضرور کہا کہ بہت سارے سپریم کورٹ کے جج حکومت کے خلاف فیصلہ کرنے سے ڈرتے
ہیں۔ یہ کوئی بے بنیاد الزام نہیں ہے دوسال قبل سی بی آئی کے عبوری
ڈائریکٹر کے طور پر ایم ناگیشور راؤ کی تقرری کے خلاف کامن کاز کی پی آئی
ایل پرسماعت کے دوران چیف جسٹس رنجن گگوئی کے بعد دوسرے نمبر کے سینئر جج
جسٹس اے کے سیکری نے خود کو الگ کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل دشینت دوے
سے کہا تھا ،’’ برائے مہربانی میری حالت کو سمجھیں ۔ میں یہ معاملہ نہیں سن
سکتا ہوں‘‘۔جسٹس اے کے سیکری چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی اس
اعلیٰ سطحی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے آلوک ورما کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے
عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے چشم دید گواہ ہونے کے سبب یہ مقدمہ
انہیں کو سننا چاہیے تھا ۔اس فیصلےپر تنقید کی وجہ سے جسٹس اے کے سیکری نے
کنی کاٹ لی تھی ۔ چیف جسٹس اور ان کے نائب کا اس متنازع مقدمہ سےا لگ
ہوجانا پرشانت بھوشن کے بیان کی تائید کرتا ہے۔
جج حضرات کی سیاسی آرزو مندی ان سے کس قسم کی حرکات سرزد کرواتی ہے اس کی
نہایت دلچسپ مثال چند سال قبل راجستھان میں سامنے آئی تھی۔ مئی 2017 میں
جبکہ گائے کے نام پر ہجومی قتل و غارتگری کا بول بالہ تھا اس دوران
راجستھان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مہیش چندر شرما نے اپنی سبکدوشی سے قبل اول
توگائے کو قومی جانور بنانے کی سفارش کرتے ہوئے چیف سکریٹر ی اور ایڈوکیٹ
جنرل کو گائے کاقانونی سرپرست مقرر کردیا لیکن جب اس سے بھی بات نہیں بنی
تو مور کے متعلق کر عجیب و غریب بیان دےڈالا ۔ انہوں نے مور کو اس لئے قومی
پرندہ بنانے کی وکالت کی کیونکہ وہ برہم چاری ہے۔ وہ مورنی کے ساتھ جنسی
تعلق نہیں قائم کرتابلکہ مورنی تو مور کے آنسو پی کر حاملہ ہوجاتی ہے۔ اس
لیے شری کرشن بھی اپنے سر پر مور کا پنکھ لگاتے تھے۔ ایک برہما چاری پرندے
سے ایک برہما چاری وزیر اعظم کی رفاقت تو قابلِ فہم ہے مگر اس کا ورنداون
کی گوپیوں کے ساتھ راس لیلا کرنے والے شری کرشن سے بھلا کیا تعلق؟ مہیش
چندر شرما کی سیاسی آرزو مندی اگران سے اس طرح کا احمقانہ بیان دلوا سکتی
ہے تو ارون شرما کو کیسے روک سکتی ہے؟
جسٹس ارون مشرا نے پرشانت بھوشن کا معاملہ ازخود اٹھا کر عدالت عظمی ٰ کے
وقار کو کس طرح داوں پر لگا دیا اس بات کا اندازہ ماہر قانون سولی سوراب جی
کے ردعمل سے کیا جاسکتا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کی توجہ مبذول
کراتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کاوقار پرشانت بھوشن کو سزا دینےسے نہیں بلکہ
عدالت پر لگنے والے الزامات پر توجہ دینے سے بحال ہوگا۔ اس لیے عدالت انہیں
تنبیہ کردے مگر سزا نہ دے۔ یہ بہت ہی نازک توازن ہے جسے قائم رکھنے کی
ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بنیادی نوعیت کا سوال اٹھایا کہ کیا کسی کو اختلاف
رائے کے سبب سزا دی جا سکتی ہے؟ سوراب جی نے کھری کھری سناتے ہوئے یہ بھی
کہا کہ ’’کورٹ کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے خلاف کوئی نہیں بول سکتا۔ آپ کوئی
آسمانی ادارہ نہیں ہیں جس کے خلاف ہم بول نہیں سکتے‘‘۔
سولی سوراب جی نے پوچھا عام آدمی حیران ہوگا کہ پرشانت بھوشن کو کیوں نہیں
بولنے دیاگیا؟‘‘ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ’’کیا عدلیہ میں بدعنوانی ہے؟
بھوشن کو شروع میں ہی کیوں خاموش کردیا گیا... میں نہیں سمجھتا کہ جج
بدعنوان ہیں مگر کسی کو اسلئے سزا نہ دیں کہ وہ بدعنوانی کو بے نقاب
کررہاہے‘‘۔ویسے توجسٹس ارون مشرا بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اپنے ۲۴؍ سالہ
کریئر میں انہوں نےکسی کو توہین عدالت کی سزا نہیں دیمگر جاتے جاتے ایک
روپیہ جرمانہ کی مضحکہ خیز سزا دے کر رخصت ہوئے ۔جسٹس مشرا اس تنازع پر
شاید اتنے نادم تھے کہ کورونا کا بہانہ بناکر الوداعی تقریب میں شرکت سے
انکار کردیاحالانکہ آج کل وہ بھی عدالت کی طرح زوم پر ہوجاتی ہے۔ انہیں
اندیشہ رہا ہوگا کہ الوداعیتقریب میں پرشانت بھوشن جیسا کوئی جنونی اس طرح
کا شعر نہ پڑھ دے اس لیے مہاکالیشور مندر پر آخری فیصلہ سنا کر شیوجی سے
عقیدت کا اظہار کرے چل دیئے ؎
میرا یہ فرض بنتا ہے میں اس کے ہاتھ دھلواوں
سنا ہے اس نے میری ذات پر کیچڑ اچھالا ہے
بمل مترا کے ناول سے شروع ہونے والی بات اس کی کہانی پر مبنی مشہور فلم
’صاحب ، بی بی اور غلام ‘ کے بغیر ادھوری ہے۔ 1962 میں گرودت نےیہ فلم
بنائی تھی جسے ناقدین نے خوب سراہا ۔ اسے چار فلم فیئر ایوارڈ ملے ۔ وہ
برلن فلم فیسٹیول میں شامل ہوئی اور اسے آسکر میں بھی بھیجنے کی کوشش کی
گئی لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ شاہکار باکس آفس پر فلاپ ہوگیا ۔ ناول کا
مرکزی خیال غلط فہمی کا ایک مثلث ہے ۔ پرشانت بھوشن ، ارون مشرا اور وینو
گوپال کے مثلث کی کہانی بھی اسی سے مماثل ہے۔ عدلیہ کی تہلکہ خیز کہانی میں
جہاں صاحب اور بی بی جسٹس ارون مشرا اور پرشانت بھوشن ہیں وہیں اٹارنی جنرل
وینو گوپال کی حیثیت سرکار کے پیروکار یعنی غلام کی ہے۔ فلم اور حقیقت میں
فرق یہ ہے کہ وہاں غلام کے سبب غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور یہاں غلام اس کو
دور کردیتا ہے۔ اس فلم کی بابت یہ تنازع بھی پیدا ہوگیا کہ آکر اس کا
ہدایتکار کون ہے ؟ فلم کے تعارف میں ابرار علوی کا نام ہدایتکار کے طور پر
آیا ۔ فلم سے متعلق سبھی افراد نے ابرار علوی کو ڈائرکٹر کہا اور انہیں کو
بہترین ہدایتکاری کا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا پھر بھی عوام گرودت کو اس کا
کریڈٹ دیتے رہے ۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ جو کچھ جسٹس ارون مشرا کرتے رہے
اس کے لیے لوگ حکومت کی جانب مشکوک نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ ویسے اب جسٹس
ارون مشرا پراسی فلم میں شکیل بدایونی کا مندرجہ ذیل نغمہ معمولی سی ترمیم
کے ساتھ صادق آتا ہے؎
بھنورا بڑا نادان ہائے، بغین کا مہمان ہائے
پھر بھی جانے نا، جانے نا جانےنا بھوشن کی مسکان ہائے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|