وقف

ہندوستان پر مسلمانوں نے800 سال حکومت کی،ان800 سالوںمیں ہندوستان کا جو موجودہ نقشہ ہے وہ بالکل بھی نہ تھا،اس نقشے میں بنگلہ دیش،پورا پاکستان اور آدھا افغانستان شامل تھا۔800 سال تک حکومت کرنے کے بعد آج بھلے ہی مسلمانوںکے پاس اس پورے نقشے کے ممالک نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان میں انگریزوںکی آمدکے بعد مسلمانوںکی حکومت باقی رہی،لیکن مسلم حکمرانوںکی جانب سے جو املاک وجائیداد باقی چھوڑ گئے تھے وہ بھی مسلمانوںکے پاس نہیں رہی۔اب اگر مسلمانوں کے پاس تو کچھ ہے اور مسلمان اپنے آپ کو قابل فخر محسوس کرتے ہیں تو وہ وقف املاک ہے جس کی تعداد ہندوستان میںتیسری سب سے بڑی املاک کے طو رپر قرار دی گئی ہے اور یہ پوری املاک ملک کے مختلف وقف بورڈ کے ماتحت آتی ہے اور اسے حکومت کی نگرانی میں انفرادی طور پر کنٹرول کیاجاتاہے۔لیکن کیا کسی مسلمان نے یہ سُناہے کہ وقف املاک پر قبضہ کرنے والے مسلمانوں کو یا قابض لوگوں کو سزا ملی ہے،یا پھر اپنی ہی املاک کو حاصل کرنے کیلئے دستاویزات ہونے اور اوقافی اداروںکی تصدیق ہونے کے باوجود بھی مسلمان کبھی بھی ان اوقافی اداروں کو کھل کر استعمال نہیں کرپائے ہیں۔حالانکہ وقف بورڈ کو آٹانومس باڈی یعنی خود ساختہ ادارہ ہے،باوجود اس کے اس ادارے میںآئی اے ایس و دیگر پی ایس آئی افسران موجود رہتے ہیںاور یہ افسران حکومت کے دائرےمیں ہی کام کرتے ہیں،جس کی وجہ سےیہ افسران کبھی بھی کیسے بھی اپنے احکامات وقف بورڈ پر صادر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جس سے آج بھی وقف بورڈ حکومت کا ہی غلام کہاجاسکتا ہے۔دیکھنے اور سننے والوں کو وقف بورڈبہت طاقتور ادارہ دکھتا ہے لیکن سب سے زیادہ کھوکھلا ادارہ ہے۔اربوںروپیوںکی آمدنی والے اس ادارے کی دیکھ ریکھ کیلئے حکومت کی جانب سے افسروںکی تقرری کی جاتی ہے جبکہ یہ افسران حکومت کے ہی نمائندے ہوتے ہیں۔جن لوگوں کو دین،اوقاف اور شرعی قوانین کی الف تک معلوم نہیںایسے لوگ اوقافی اداروں کے متولی یاسرپرست بن جاتے ہیں۔ملک میں پوری طرح سے وقف بورڈ کانظام درہم برہم ہے،اس نظام کو بہتر بناناہے تو اسے حکومت اور سیاست سے آزاد کرناہوگا۔یہ ادارہ اب نام کیلئے وقف بورڈ ہے لیکن یہاں صرف اور صرف سیاست ہی چلتی ہےاور یہاں چور واچکّے،لوفرو لفنگے،شرابی ،جواڑی و کبابی اور زانی ممبر،صدر ،متولی بننے لگے ہیں۔اس سے صاف ظاہرہے کہ یہ ادارہ اب دینی ادارہ نہیں رہا،بلکہ ضرورت کے مطابق اپنی سیاست کو چمکانے کا ادارہ بن گیا۔اگر واقعی وقف بورڈ کو کارآمدبناناہے تو اسے اب ایسے لوگوں سے آزادی دلوانے کی ضرورت ہے۔جس طرح سے سکھوںاور عیسائیوںمیں ان کے اوقافی اداروں کی دیکھ ریکھ اور فلاح وبہبودی کیلئے علیحدہ ادارے قائم ہیں،اسی طرح سے مسلمانوں کوبھی چاہیے کہ وہ ان اداروں کو وقف بورڈ کے چنگل سے چھڑالیںاور آزادنہ طو رپر اپنے اداروںکی فلاح وبہبودی کرائیں،ضرورت پڑے تو قانونی ماہرین اور مشیروں کا تعائون لیں،تب جاکر وقف بورڈکو ایک نئی سمت مل سکتی ہے۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.