پاکستان کی سیاست اور آئینی مستقبل 27ویں ترمیم کے اثرات
(Muhammad Mansoor, Karachi)
| یہ ترمیم پاکستان کے آئینی اور سیاسی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ حکومت اسے اصلاح قرار دیتی ہے، جبکہ ناقدین اسے جمہوریت اور عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مستقبل میں اس کے اثرات پاکستان کے آئینی توازن اور ادارہ جاتی خودمختاری پر گہرے ہوں گے۔ |
|
*پاکستان کے موجودہ حالات اور 27ویں آئینی ترمیم — ایک تجزیاتی جائزہ*
*ابتدائی پس منظر*
پاکستان میں اقتدار اور آئینی توازن کی بحث طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ ملکی سیاست میں فوج کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے، اور مختلف ادوار میں آئینی ترامیم نے اس توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ 27ویں ترمیم انہی تنازعات کا تازہ منبع ہے، اور اس کے اثرات ممکنہ طور پر پاکستان کی جمہوری اور قانونی ڈھانچہ پر گہرے ہوں گے۔
*27ویں آئینی ترمیم: بنیادی نکات*
یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہو چکی ہے اور اس میں بہت سی سنجیدہ تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ چند اہم نکات یہ ہیں:
1. نیا وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) ترمیم کے تحت ایک نئی “فیڈرل آئینی عدالت” قائم کی جائے گی، جو آئینی تشریح، وفاقی اور صوبائی تنازعات، اور بنیادی حقوق سے متعلق معاملات کی پیروی کرے گی۔
اس عدالت کے ججوں کی تقرری کے لیے پارلیمنٹ کی ٹیم اور عدالتی کمیشن کا کردار ہو گا۔
موجودہ سپریم کورٹ کی طاقت محدود ہو جائے گی؛ سپریم کورٹ بنیادی طور پر اپیلوں اور عمومی معاملات تک محدود ہو سکتی ہے۔
عدالت کا مستقل دفتر اسلام آباد میں ہوگا۔
2. فوجی کمانڈ سٹرکچر میں تبدیلی
آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آفس ختم کیے جائیں گے اور فوج کے سربراہ کو چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) کا عہدہ دیا جائے گا۔
موجودہ فوجی سربراہ، فیلڈ مارشل عاصم منیر، کو یہ عہدہ ملے گا، اور انہیں زندگی بھر قانونی تحفظ (لائف ٹائم امیونیٹی) فراہم کیا جائے گا۔
فوجی افسران کو "فیلڈ مارشل" اور دیگر اعزازی رینک دینے کا انتظام ہے۔
ایک نیا قومی اسٹریٹجک کمانڈ (National Strategic Command) قائم کیا جائے گا، جو جوہری جنگی صلاحیتوں کی نگرانی کرے گا۔
3. عدالتی آزادی اور نگرانی پر اثرات
سپریم کورٹ کی آئینی نوعیت کی طاقت کم ہونے کی تشویش ہے، کیونکہ آئینی معاملات نئی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائیں گے۔
بعض قانونی مبصرین کا کہنا ہے کہ ججوں کی تقرری اور ان کی آزادانہ کارروائی پر حکومت کا اثر بڑھ جائے گا، کیونکہ نئی عدالت کی تشکیل اور اس کے ججوں کی تقرری میں سیاسی مداخلت کا امکان ہے۔
ترمیم کے تحت “آرٹیکل 6” (غداری) میں تبدیلی کی گئی ہے کہ کسی بھی عدالت (سپریم، ہائی کورٹ، یا فیڈرل آئینی عدالت) کو ملک کے آئین کی منسوخی کو قانونی قرار دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
4. پارلیمانی راستہ اور منظوری
ترمیم سینیٹ میں چلے اور دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئی۔
قومی اسمبلی (نیشنل اسمبلی) میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی۔
صدر آصف علی زرداری نے ترمیم پر دستخط کر کے اسے قانونی شکل دے دی ہے۔
*تنقید اور خطرات*
یہ ترمیم نہ صرف فوجی طاقت کو آئینی تحفظ دیتی ہے بلکہ جمہوری اور عدالتی توازن کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ چند اہم تنقیدی نکات درج ذیل ہیں:
1. جمہوری حکمرانی کا خطرہ قانونی روک ٹوک اور شفافیت کی کمی کے خدشات ہیں۔ لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ فوجی سربراہ (فیملارشل عاصم منیر) آئینی تحفظ کے ساتھ اتنا مضبوط ہوجائے گا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ممکن نہ رہے گی، جو جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔
2. عدالتی آزادی کا خاتمہ نئی آئینی عدالت کی تشکیل اور سپریم کورٹ کی طاقت میں کمی سے عدلیہ کی آزادانہ حیثیت متاثر ہوسکتی ہے۔ سیاسی اثر و نفوذ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جو عدالتی جانبداری اور ذاتیات پر مبنی فیصلوں کے امکان کو فروغ دے سکتا ہے۔
3. آئینی توازن اور وفاقی اصول کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم 18ویں آئینی ترمیم (جو صوبائی خودمختاری کو مضبوط کرتی تھی) کے بنیادی اصول کو کمزور کرتی ہے۔
4. سیاسی مخالفت اور عدم اتفاق ترمیم کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سخت احتجاج کیا۔ سینیٹ میں ووٹنگ کے دوران شورش اور واک آؤٹ جیسی صورتحال سامنے آئی۔ قانونی ماہرین، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اسے جمہوری طریقہ کار کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔
5. طویل دورانیہ اور جوابدہی کی کمی زندگی بھر کی امیونیٹی اور اعلیٰ فوجی عہدے پر تقرری کی گارنٹی مستقبل میں فوجی بالادستی اور اداراتی خودمختاری کو سنگین نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے “آئینی قبضہ” کے مترادف سمجھ رہے ہیں، جہاں آئین کو طاقت کے سہارا لینے والے افراد کی خدمت میں ڈھالا گیا ہے۔
*حکومت کا موقف اور وجوہات*
سرکاری موقف کے مطابق، اس ترمیم کا مقصد قومی دفاع اور آئینی استحکام کو مضبوط کرنا ہے:
نائب وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ترمیم شفاف اور مشاورتی عمل کے ذریعے لائی گئی ہے اور تمام اتحادی جماعتوں سے بات چیت کی گئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈ سٹرکچر کو نئے خطرات اور جغرافیائی چیلنجز کے پیشِ نظر جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
اس ترمیم کو “تاریخی لمحہ” قرار دیتے ہوئے، وزیر قانون اور حکومت کی قیادت نے اسے آئینی استحکام اور دفاعی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کی کوشش کہا ہے۔
حکومت یہ بھی موقف رکھتی ہے کہ اس طرح آئینی عدالت کے قیام سے آئینی تفہیم اور وفاقی تنازعات کا ایک واضح اور ماہر فورم ملے گا، جو پورے ملک میں قانون کی یکسانیت کو بہتر بنائے گا۔
*ممکنہ نتائج اور مستقبل کا منظرنامہ*
27ویں آئینی ترمیم کے اثرات بہت وسیع اور دیرپا ہو سکتے ہیں:
1. جمہوری اصولوں پر دباؤ اگر فوجی سربراہ کو مستقل آئینی قوت حاصل ہو جائے تو یہ پاکستان میں سول اور فوجی طاقت کے درمیان توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔ جمہوری ادارے، خاص طور پر عدلیہ، کمزور ہو سکتے ہیں، اور سیاسی اقتدار پر فوج کا اثر مزید بڑھ سکتا ہے۔
2. بین الاقوامی تاثر عالمی سطح پر یہ اقدام پاکستان کی سیاسی سمت پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ ملک اور ادارے جو جمہوریت اور شہری آزادیوں کی حامی ہیں، اس ترمیم کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے۔
3. اندورونی مخالفت اور احتجاج اگر عوامی، قانونی اور سیاسی سطح پر شدید مخالفت جاری رہی تو بڑے پیمانے پر احتجاج، قانونی چیلنجز اور آئینی تنازعے سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کے سیاسی استحکام کو متاثر کرے گا۔
4. آئینی بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نیا آئینی ڈھانچہ (جس میں آئینی عدالت، فوجی کمانڈ سٹرکچر، ججوں کی تقرری اور تقرر کی پالیسی) پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک نیا باب لکھے گا۔ آئینی اور قانونی ماہرین کے لیے یہ ایک اہم تجربہ ہوگا کہ آیا یہ نظام آئینی استحکام اور شفافیت فراہم کر سکے گا یا اقتدار مرکزیت کی طرف مڑ جائے گا۔
*نتیجہ*
27ویں آئینی ترمیم پاکستان کی آئینی، سیاسی اور دفاعی سمت کو تبدیل کرنے والا فیصلہ ہے۔ یہ ترمیم نہ صرف فوجی کمانڈ کو آئینی حیثیت دیتی ہے، بلکہ عدالتی نگرانی کے ڈھانچے میں بھی بنیادی تبدیلیاں لاتی ہے۔ حکومت اسے “ضروری اصلاح” کہتی ہے تاکہ دفاع اور آئینی توازن کو مضبوط کیا جائے، لیکن ناقدین اسے جمہوریت اور عدلیہ کی خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اگرچہ قانون سازی مکمل ہو چکی ہے، مگر اس ترمیم کے اثرات کا اندازہ آنے والے وقت میں زیادہ واضح ہوگا۔ مستقبل میں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ آئینی ڈھانچہ کس حد تک شفاف، جوابدہ اور عوام نواز رہے گا، اور آیا یہ طاقت کے مرکزیت کے بجائے آئینی توازن کی ضمانت بنے گا یا اس کی روح کو مٹا دے گا۔
|
|