مصر اور غزہ کے درمیان آمدورفت کی بحالی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

رات کتنی ہی اندھیری اور طویل ہو اور اس کا سحر کتنا ہی بھیانک و اندھوناک ہو با لآخر مشرق سے بلند ہو نے والے آفتاب کی کرنیں اپنے اجالوں سے اس تاریک شب کا گلا گھونٹ دیتی ہیں ۔امت مسلمہ کی گردن پر بھی دورغلامی کے بچے کھچے اندھیروں نے ہنوز اپنے آسیبی پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اس اندھیرے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے طاغوتی طاقتوں کے پروردہ اور استعمار کی آشیر باد کے حامل چمگادڑیں ملت کے اس سرسبزوشاداب پیڑ پر الٹی لٹکی اپنے عبرت انگیزانجام کی منتظر ہیں۔ماضی قریب میں مصر کے انقلابی نوجوانوں نے اسی قبیل سے متعلق اپنے اوپر مسلط ایک بدترین آمرکو جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکا ہے۔حسنی مبارک سالہا سال سے مصر ی مسلمانوں پر غیروں اور دشمنوں کی پالیسیاں نافذ کرنے میں سرگرم عمل تھا ،لیکن آخر کب تک،ایمان کی حدت کے سامنے برف پر پاؤں جمانے والے کب تک ٹکے رہ سکتے ہیں۔امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی ورضا کے حصول کی خاطر حسنی مبارک نے جون2007میں عین اس وقت غزہ سے ملنے والا فلسطین کاواحد زمینی راستہ بند کر دیا جب حماس نے زمام اقتدارسنبھالی ۔اس کے بعد فلسطینیوں پر اسرائیل نے متعدد بارمشق ستم توڑی لیکن اس مصری آمرنے اس راستے کے کھولنے کی اجازت نہ دی کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کی نافرمانی اس قبیل کے حکمرانوں کے عقیدہ و مذہب کے برخلاف ہے۔زمینی راستہ مصر کی طرف سے بندش کا شکار تھا جبکہ سمندر کے راستے کی اسرائیلی بحریہ نے ناکہ بندی کررکھی تھی جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام بیماری ،غربت اورمجبوری کی حالت میں انتہائی کسمپرسی کے دن گزارتے رہے لیکن مصر کے اس سابق حکمران کو ذرا بھی ترس نہ آیا حتی کی یورپ اور امریکی عوام تک نے غزہ کے لیے بحری راستوں سے انسانی ہمدردی کے تحت اجناس اور دوائیں بھیجیں جو کبھی اسرائیل نے جانے دی اور کبھی روک دی لیکن مصر کی طرف کا راستہ پھر بھی حسنی مبارک نے بند رکھا۔

غزہ کی پٹی پٹی پر جہاں مصر اور فلسطین کے درمیان سرحد واقع ہے اس گاؤں کا نام ”رفاح یارفح“ہے،یہ غزہ کا واحد زمینی راستہ ہے جو کسی دوسرے ملک کی طرف کھلتاہے ۔”رفاح“فلسطین کاجنوبی علاقہ ہے جو غزہ سے بمشکل تیس کلومیٹر کی جنوبی مسافت پر واقع ہے۔سات ہزار سے کچھ زائد نفوس پر مشتمل یہ علاقہ بنیادی طور پرفلسطینی مہاجرین کے لیے عالمی شہرت رکھتاہے جو اسرائیلی ظلم و ستم سے تنگ آکرپڑوسی مسلمان ملک کی پناہ لینے کے لیے یہاںخیمہ زن ہوئے لیکن مسلمان ملکوں کے سیکولر حکمرانوں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو سیکولزازم نے انہیں سکھایاتھا۔”رفاح“کاانتظام ایک ضلعی حکومت کے تحت چلایاجاتاہے،1998 میں یہاں ایک ہوائی اڈہ بھی تعمیر کیاگیاتھا لیکن اسرائیل کی صہیونی افواج نے اسے اپنی دہشت گردی کا شکارکر کے تو نیست و نابود کر دیا۔”رفاح“کی سرحد 1979ءمیں اسرائیل مصر امن معاہدے کی رو سے بین الاقوامی طور پر مسلمہ سرحد ہے جس کی طوالت بمشکل سات میل ہی ہے۔اسی معاہدے کے تحت 1982میں اسرائیل نے یہ علاقہ خالی کردیااوراس سرحدی حصے کی نگرانی مصر کو سونپی گئی۔تاہم یورپی یونین کے تحت اسرائیلی ائرپورٹ اتھارٹی یہاں پر نقل و حرکت اور آنے جانے والوں کی نگرانی کرتی رہی۔11ستمبر2005کواسرائیلی انتظامیہ نے رفاح کی سرحد مکمل طور پرخالی کردی اوریورپی یونین کے ادارے European Union Border Assistance Mission Rafah (EUBAM).نے یہاں پر آنے جانے والوں کی نگرانی شروع کر دی۔سیکولریورپی تہذیب کے خداوندان اگرانسانیت کے اتنے ہی خیرخواہ اور امن پسند ہوتے تو دنیاپر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کیوں مسلط کرتے۔مصراوراسرائیل مل کر جس سرحد کی برسوں نگرانی کرتے رہے اس سرحد پر اس یورپی ادارے کے وارد ہوتے ہی کچھ ہی عرصے میں اسرائیلی اور فلسطینیوں کی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔آگ لگانے کااپنا کام کر کے یورپی یونین کا یہ ادارہ واپس سدھار گیااوراسرائیل کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حسنی مبارک نے یہ سرحد مکمل طور پر بندکردی۔

اس کے بعد کئی مواقع پر فلسطینی مریضوں کو،مفلوک الحال عورتوں اور بچوں کواور طالب علموں ”رفاح“ کی اس سرحد پر جمع ہوتے دیکھاگیالیکن مصر کے سیکولر حکمرانوں نے اپنی پولیس اور افواج کی مدد سے ان ”انسانوں“کو واپس دھکیل دیا کہ سیکولرازم کا یہی سبق ہے بقول اقبال کے ”پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات“۔دوسری طرف مصرکی جانب اس ”رفاح“ کی سرحد پر کئی کئی ہفتوں تک کتنے ہی ڈاکٹرز اور انسان دوست تنظیمیں ،خوراک ،ادویات اور دیگرضروریات زندگی سے لدی پھندی گاڑیاں کے کر کھلے آسمان کے نیچے کھڑے رہے،وہ سامان زیست خراب ہو گیالیکن ان سیکولر حکمرانوں کا امریکہ اور اسرائیل پر ایمان متزلزل نہ ہوا۔ادھر غزہ کی پٹی کے مسلمان جنہیں سیکولرمغربی تہذیب انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اپنی زندگی کے بدترین ایام سے گزررہے تھے،ہسپتال مریضوں سے بھرے لیکن دوائیوں سے خالی،تعلیمی ادارے طالب علموں سے بھرے لیکن سامان تعلیم و تعلم سے خالی اور دکانیں اور بازار کھلے لیکن اشیائے خوردونوشت وضروریات زندگی سے خالی۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف توعرب حکمران لندن کے چڑیاگھرکوپچاس کروڑپونڈ کی خطیررقم ہدیہ کرکے آتے ہیں کیونکہ جانور بیمارپڑ گئے ہیں اور لندن کے بچوں کے چہروں سے ”مسکراہٹ“غائب ہو گئی ہے اور دوسری طرف فلسطینی بچوں کو موت کے منہ سے بچانے کے لیے ان کے زبان سے ایک اخباری بیان تک نہیں نکل پایا۔22جنوری2008کو حالات سے مجبوربلکہ زندگی سے مجبور غزہ کے عوام ایک سیلاب بن کر مصری سرحد پر ٹوٹ پڑے اور مصری فوج نے ان کی خوب پٹائی کی اوران بھوکے اور بیمار نہتے مظاہرین پر گولیاں بھی چلائیں کہ تمام اسلامی ممالک کی افواج کا یہی کردار ہے کہ وہ دشمن سے خوفزدہ ہو کر ان کے سامنے ہتھیارڈالتے ہیں اور اپنے نہتے عوام پر بندوقوں کے دہانے کھولتے ہیں،لیکن اب یہ سیلاب تھمنے والا نہ تھا چنانچہ اسی رات کو غزہ کے نوجوانوں نے ہمت کر کے توسرحد پر لگی مضبوط وبلندوبالاکنکریٹ کی دیوارکا دوسومیٹرجتنا حصہ توڑ دیاجس کے نتیجے میں دولاکھ سے سات لاکھ تک کی تعداد میں فلسطینی ”انسان“مصر میں داخل ہوئے اور انہیں ،ہسپتالوں اورضروریات زندگی کی دکانوں پرکثرت سے دیکھاگیا۔عوامی دباؤ کے تحت دس دن تک یہ سرحد کھلی رہی جسے استعمارکے گماشتوں نے2فروری کو پھر بند کر دیا۔

مصر سے حسنی مبارک کی بے آبرو روانگی کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے تھے اب اچھے دن قریب آن لگے ہیں۔پس28مئی2011کو مصر کی نئی انتظامیہ نے ”رفاح“سرحدچوکی کوفلسطینیوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا ہے اور پہلے گھنٹے میں ہی سینکڑوں لوگوں نے اس سرحد کو عبور کیاہے۔ابھی بھی اسرائیل کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد ہیں اور اسرائیلی ادارے آنے جانے والوں کی اوران کے سامان کی سخت قسم کی تلاشی لیتے ہیں تاہم ذرائع کے مطابق مصری حکومت کے وزیرخارجہ بہت جلدحماس کے ذمہ داران سے مزاکرات کرنے والے ہیں جس میں سفر کو مزید آسان اور پابندیوں کو کم سے کم کرنے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔سرحد کھلنے پر ایک 65سالہ بزرگ جو ایک عرصے سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے انہوں نے اپنے بچوں کے الوداعی بوسے لیے اور علاج کے لیے مصر کو روانہ ہوئے،کئی طالب علوں کے جن کے داخلے ہو چکے تھے وہ اپنی تعلیم کے لیے مختلف ملکوں اور شہروں کو سدھار گئے اور کئی تجار سامان زندگی کی فراہمی کے لیے مصر گئے تاکہ غزہ کے مکینوں کی زندگی کو آسان تر بنایا جا سکے۔اسی طرح بہت سے ہسپتالوں سے وابسطہ ڈاکٹروں نے بھی سرحد پار کی تاکہ دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنا کر علاج معالجہ کی سہولتوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں افراد اب تک سفر کے لیے اپنی رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔

یہ ٹھنڈی ہواکے ابتدائی جھونکوںمیں سے ایک جھونکا ضرور ہے لیکن آخری نہیں،صدیوں غلامی کا طلسم اگر چہ ٹوٹتے ٹوٹتے ٹوٹے گا لیکن اب میرے رب نے چاہا تودو اچھی خبروں کے درمیان کا وقفہ کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گاکہ موجودہ صدی خلافت علی منہاج نبوت کی صدی ہے ۔ہم مصر کی نئی انتظامیہ کو اس اہم اور خوش آئند اقدام پر ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہیں اور مستقبل میں اس سے بھی بہتر اورجراتمندانہ اقدامات کی توقع بھی رکھتے ہیں۔مصر کے بعد صحرائے مشرق وسطی میں بھی بیداری کی لہر نے عرب اقوام کو گہری نیند سے بیدار کر دیا ہے اور امت میں بس ایک قیادت کی کمی تھی جو قرون اولی کی طرح اب بھی عربوں نے ہی فراہم کرنی ہے اور امت کے عظمت رفتہ کو واپس لانا ہے۔فلسطینیوں کی چوتھی نسل سیکولر مغربی تہذیب کی ”انسان دوستی“کی بھینٹ چڑھ رہی ہے لیکن قومیں قوموں کو معاف نہیں کیاکرتی کے مصداق آخر کو یہ رات اپنے انجام کو پہنچنی ہے اور پھرجس طرح جہاد افغانستان کے نتیجے میں کیمونزم کو ماسکو میں پناہ نہ مل سکی اور لینن گراڈ چوک پر لینن کے دیوقامت مجسمے کوکرین کے ذریعے بلندی سے نیچے گراکر پاش پاش کردیاگیا اور آج وہ باطل نظریہ تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو چکا ہے اسی طرح سود ی استحصال اور عورت کوعریانی و فحاشی کے ترازو میں تولنے والی سیکولرمغربی تہذیب کے دن بھی گنے جاچکے ہیں اور فلسطین سمیت افغانستان،عراق ،شیشان،کشمیر،برما،اریٹیریااور دنیاکے وہ تمام خطے جہاں اس سیکولر مغربی تہذیب نے یورپ اور امریکہ کی آہنی و استعماری قوت سے انسانوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر دریاؤں میں پانی کی جگہ آدم زادی خون بہایا ہے ان کی نسلوں کی آندھی اور طوفان میں،جینوا پیرس،لندن اور واشنگٹن بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے کہ اس انسانیت کا مستقبل صرف محسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات سے ہی وابسطہ و پیوستہ ہے۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 523696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.