غیر ملکی جہادی اور پاکستان

شمالی وزیرستان جہادیوں کا مرکز و گڑہ (Epicenter)ہے اور حقانی نیٹ ورک و القائدہ کا مسکن ہے۔ وزیرستان کا دشوار گزار پہاڑی علاقہ گیارہ ہزار پانچ سو پچاسی مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ان علاقوں کی آبادی کا تخمینہ بالترتیب چھ اور آٹھ لاکھ لگایا گیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ دریائے ٹوچی اور دریائے گومل کے درمیان پشاور کے مغرب و جنوب مغرب میں آتا ہے ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں۔ میران شاہ ، شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔

شمالی وزیرستان کا علاقہ پشتون اتمان زئی وزیر اور دایور قبایل کا مسکن ہے، ان کے علاوہ یہاں دوسرے چھوٹے قبائل گرباز ،خارسنز ، سادجیsaidgi)) اور محسود (Malakshis Mahsuds) بھی آباد ہیں۔ شمالی وزیرستان کے بڑے شہر رزمک،میر علی،دتا خیل اور میراں شاہ ہیں۔ دور دورتک دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کے پھیلا ہونے کی وجہ سے یہ القاعدہ ، ازبک ،چیچن ،طالبان، پنجابی طالبان،لشکر ظل( الیاس کشمیری)، جیش محمد، حرکت جہاد اسلامی،لشکر جھنگوی، گلبدین حکمت یار حقانی اور دوسرےغیر ملکی جنگجووں کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں سے دہشتگرد مقامی پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی علاقوں میں باآسانی کاروائیاں کرتے ہیں ۔ القائدہ کے مرکزی لیڈر بھی اسی علاقہ میں روپوش ہیں۔ یہ تمام گروپس اگرچہ علیحدہ علیحدہ ہیں مگر مل کر کام کرتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دوسرے گروپوں کی پناہ گاہیں پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ حقانی نیٹ ورک سب سے بڑا اور خطرناک گروپ ہے اور یہ دوسرے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔

جب حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں نے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب رجوع کیا تو انہیں یہا ں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا ۔ عسکریت پسندوں نے قبائلی لوگوں کی روایتی مہمان نوازی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جبکہ ان غیر ملکیوں کی موجودگی نے ریاست کے لیے امن و امان کے مسائل جنم دینے شروع کر دیے۔ بیرونی عسکریت پسندوں نے اپنی موجودگی کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خاص طور پر مقامی اور غیر ملکی جہادیوں کو فوجی تربیت فرایہم کرنا شروع کی اور ان مقاصد کی راہ میں مزاحم ہونے والی کسی بھی عسکر ی طاقت کے خلاف نمٹنے کی ترغیب و تربیت فراہم کی۔

حقانی نیٹ ورک کا بانی ،جلال الدین حقانی خوست،افغانستان کا رہنے والا ہے اور زردان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ افغانستان سے طالبان کی حکومت کے خاتمہ پر ہجرت کر کے شمالی وزیرستان میں آ گیا اور میران شاہ میں آباد ہو گیا جہاں بڑے حقانی نے مدرسہ منبا العلوم قائم کیا۔ اور اس نے شمالی وزیرستان میں ہی اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کر رکھا ہے۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زردان قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اطلاعات کے مطابق القاعدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تحریک طالبان اور ملا عمر سے بھی رابطے ہیں۔

حقانی نیٹ ورک، پاکستان کے علاوہ افغانستان میں اس علاقے پر کاروائیاں کرتے ہیں جسے"خوست کا پیالہ" کہا جاتا ہے اور جس میں پکتیکا، پکتیا اور خوست شامل ہیں۔۔حقانی نیٹ ورک کا طالبان سے الحاق ہے۔ القائدہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب پھیلا ہوا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی قیادت جلال الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے مگر جلال الدین حقانی کی مسلسل علالت اور پیرانہ سالی کے باعث سراج الدین حقانی، جو خلیفہ بھی کہلاتا ہے، اس گروپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔

" یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی طالبان کے درمیان رابطہ موجود ہے"، ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے بتایا جو کہ پاکستان کے لاقانونیت کا شکار قبائلی علاقوں میں سلامتی کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے مبصرین کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب ہر گروپ دوسرے سے استفادہ کرتا ہے۔ اور بالآخر اس تعلق سے سب سے زیادہ فائدہ القاعدہ کو پہنچتا ہے کیونکہ حقانی اور تحریک طالبان پاکستان دونوں ہی اسے سرحدوں کے دونوں جانب سہولیات اور دیگر امداد فراہم کرتے ہیں۔

قبائلی صحافی عمر دراز وزیر کا کہنا ہے کہ "عسکریت پسندی بہت سے بے روزگار قبائلی نوجوانوں کے لئے ایک متبادل ذریعہ روزگار ثابت ہوئی ہے"۔ حقانی نیٹ ورک فاٹا کے نوجوانوں اور عورتوں کو فوجی و عسکری تربیت دے کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں دہشت گرد و خود کش بمبار بنا رہے ہیں۔

چونکہ جغرافیائی اعتبار سے کرم ایجنسی کا علاقہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا یہ علاقہ افغان صوبوں پکتیا، ننگرہار اور خوست کے سامنے واقع ہے۔ اسے شمالی وزیرستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ کا مرکزی ٹھکانہ ہے۔ ماہرین کے مطابق کرم ایجنسی سے راستہ یقینی طور پر طلب کیا جائے گا اور اس کے ذریعے حقانی گروپ کے شدت پسند سرحدی علاقے کی اہم بلند چوٹیوں پر براجمان ہونے کے خواہشمند ہیں۔ حقانی گروپ ایک خبر کے مطابق کرم ایجنسی منتقل ہو چکا ہے۔ شمالی وزیرستان کےعلاقہ میں موجود طالبان کا حافظ گل بہادر گروپ حقانی گروپ کی حمایت کرتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار ہے ۔ یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور فاٹا کے علاقہ کا سکون غارت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مہمان بن کر آئے اور مالک بن کر بیٹھ گئے۔ یہ علاقہ میں قبائلی عمائدین کو قتل کرا کے قبائلی معاشرہ کی ساخت کو کمزور کر رہے ہیں اور قبائلیوں کو ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں، عوتوں اور بچوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ الیاس کشمیری اور بشمول القائدہ دوسرے ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کو عسکری تربیت و پناہ مہیا کر رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیرستان میں دہشت گردی کے ۹ تربیتی کیمپ ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ میر علی ،وزیرستان کے ایک کیمپ میں سنگین خان کمانڈر کی زیر نگرانی، ۳۵۰ بچے ،خودکش بمبار بننے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

"ہر کوئی شمالی وزیرستان میں ہے،وہاں عرب ہیں ،ازبک ہیں ،تاجک ،انڈونیشی ،بنگالی، پنجابی ،افغان ، چیچن اور سفید جہادی ۔ یورپین جہادی" کامران خان ممبر پارلیمنٹ، میران شاہ۔ "تقریبا ۱۰ ہزار غیر ملکی جہادی شمالی وزیرستان میں ہیں"( ڈیلی ڈان)

حقانی نیٹ ورک نے علاقہ اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور یہ تجارت پر ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ٹرک کمپنوں سے زبردستی بھتہ وصول کرنا اور باڈر کے پار لکڑی کی اور دوسری اشیا کی سمگلنگ کے کاروبار سے رقم بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور لوئی پکتیا کے علاقہ میں ٹھیکہ دار اور ضلعی بزرگ ،حقانیوں کو "حفاظتی رقم( Protection Money)" ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجدوں میں چندہ وصول کرنا اور خلیجی ریاستوں سے حاصل شدہ عطیات ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔

حقانیوں کے پاس ۱۲ ہزار سے زیادہ تربیت یافتہ جنگجو ہیں اور یہ مہمان ہونے کے باوجود غیر قانونی وغیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

حقانی نیٹ ورک اپنی تخریبی کاروائیوں سے پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں، وہ پاکستان کی اقتصادیت ، سیکورٹی اور سالمیت کو براہ راست خطرہ ہیں ،جس کی ان لوگوں کو اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا تمام غیر ملکیوں جہادیوں کو شمالی وزیرستان سے نکال باہر کیا جانا چاہئیے۔
Riaz Ahmad
About the Author: Riaz Ahmad Read More Articles by Riaz Ahmad: 3 Articles with 26165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.