کورونا کی وبا دسمبر ۲۰۱۹ میں پھوٹی اور اپریل تک اس نے
ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ دنیا کے سارے ماہرین معاشیات سمجھ گئے
ایک بہت بڑی تباہی سامنے منہ کھول کر کھڑی ہوئی ہے اور اس پر فوراً اقدامات
نہیں کیے گئے تو بہت دیر ہوجائے گی ۔ عالمی اقتصادی ادارے آئی ایم ایف نے
اپنی تنظیم نو کا کام شروع کیا اور ۱۲ ارکان پر مشتمل ایک مشاورتی مجلس
تشکیل دی ۔ اس کمیٹی میں ان لوگوں نے ہندوستانی نژاد رگھورام راجن کو بھی
شامل کیا جو فی الحال عالمی شہرت یافتہ شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
اس کمیٹی کا مقصد عالمی حالات کو پیش نظر رکھ کر اس وباء سے پیدا ہونے والی
معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ رگھو رام گووند راجن
کی دریافت کوئی آئی ایم ایف نے نہیں کی بلکہ وہ 4 ستمبر، 2016ء تک ریزرو
بینک آف انڈیا کے 23 ویں گورنر رہ چکے ہیں۔ 2013ء میں یہ عہدہ سنبھالنے سے
قبل وہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اقتصادی مشیر خاص تھے۔ 2003ء سے 2006ء تک
وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہر اقتصادیات و تحقیقی ناظم رہے اور
بھارت میں اقتصادی بہتری کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے مقرر کی گئی
کمیٹی کی قیادت بھی کی لیکن فی الحال وطن عزیز کے تعلق سے ان کی دردمندی کا
اظہار اس شعر کی مصداق ہے؎
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ڈاکٹر منموہن سنگھ جوہری تھے تو انہوں نے ڈاکٹر رگھورام راجن کی اس وقت
قدردانی کی جب مشہور نہیں ہوئے تھے اور ہمارے نادان وزیراعظم نے اپنی رعونت
سے ڈاکٹر رگھو رام راجن کو اس وقت بھگا دیا جب ساری دنیا ان کی مہارت کا
لوہا مان چکی تھی۔ سنہ 2011ء میں وہ امریکی فائنانس ایسوسی ایشن کے صدر تھے
اور اب وہ امریکی اکیڈمی آف آرٹس اینڈ اسٹڈیز کے رکن ہیں۔ حکومت ہند ان کے
ساتھ جو بھی سلوک کرے لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کا دل اب بھی اپنے ملک کے
لیے دھڑکتا ہے اور اس کی خاطر فکر مند رہتے ہیں۔ ابھی حال میں انہوں نے
اپنے ایک مضمون میں ہندوستان کے بارے میں ایسی بھیانک قیاس آرائی کی ہے کہ
وہ خود بھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ ایسا ہو ۔ انھوں نے کہا کہ ( ہندوستان میں
) راحت کے بغیر لوگ کھانا چھوڑ دیں گے، وہ بچوں کو اسکول سے نکال دیں گے
اور انھیں کام کرنے یا بھیک مانگنے کے لیے بھیج دیں گے، قرض لینے کے لیے
اپنا سونا گروی رکھ دیں گے، ای ایم آئی اور مکان کا کرایہ بڑھتا جائے گا۔
اسی طرح راحت کی کمی میں چھوٹی اور درمیانی کمپنیاں اپنے ملازمین کو تنخواہ
نہیں دے پائیں گی، ان کا قرض بڑھتا جائے گا اور آخر میں وہ بند ہو جائیں
گی۔ اس لیے بقول شاعرجب تک کورونا وائرس پر قابو پایا جائے گا، تب تک معیشت
برباد ہو جائے گی۔
رُلاتا ہے ترا نظّارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
ڈاکٹر رگھو رام راجن کی پیشنگوئی کوئی دیوانے کا خواب بہیں ہے ۔ ۹ ستمبر کو
شائع ہونے والی خبر کے مطابق کورونا وبا کے قہر سے بچنے کی کوشش میں جہاں
لاک ڈاؤن نے اقتصادی ترقی کی رفتار کو دھیما کر دیا وہیں اشیاء ضروریہ کی
بڑھتی قیمتوں سے مہنگائی کی مار نے عام لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
گزشتہ ماہ سے روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل ہو رہے اضافے
نے تشویشناک حالات پیدا کر دیئے ہیں ۔ ملک کی جی ڈی پی کے ریکارڈ سطح تک
غوطہ لگانے پر مستقبل میں ملک کے اقتصادی حالت اور ترقی کی رفتار کو لےکر
ماہرین طرح طرح کے اندیشوں کا شکار ہیں ۔اناج اور سبزی کی قیمتوں میں مسلسل
اضافہ سے مہنگائی کے بڑھنے کا خوف پیدا ہوگیا ہے جس کا اثر بازار میں
دکھائی دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے لاک ڈاون میں جو سبزی سستی ہوگئی تھی اب
وہ مہنگی ہونے لگی ہے۔ یہ عالمی اثرات ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے غریب
ملک زیادہ نظر آ رہا ہے ۔ایک طرف منفی جی ڈی پی کا کاروبار اور روزگار پر
اثر اور دوسری طرف مہنگائی کی دوہری مار عوام کو ادھ مرا کردیا ہے۔ ایسے
میں شاعر عوام کے دل کی آواز بن جاتا ہے؎
مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گُلستاں کا
وہ گُل ہوں مَیں، خزاں ہر گُل کی ہے گویا خزاں میری
رگھو رام راجن کے مطابق ہندوستانی معیشت کو امریکہ اور اٹلی سے بھی زیادہ
نقصان ہوا ہے۔ ان کے مطابق اگر غیر منظم شعبہ جات کے اعداد و شمار کو
جوڑاجائے تو معیشت میں 23.9 فیصد کی گراوٹ اور بدتر ہو سکتی ہے۔یہ کوئی نیا
انکشاف نہیں ہے ۲۷ مئی کو اسٹیٹ بنک آف انڈیا کے تحقیقی شعبے نے یہ بات
پیش کی تھی کہ آئیدہ سال کی پہلی سہ ماہی تک جی ڈی پی ۴۰ فیصد گھٹ جائے گی
یعنی کل ۳۰ لاکھ کروڈ کا نقصان ہوگا ۔ اس کے مطابق سرخ اور نارنگی معاشی
شعبوں میں اس ۹۰ فیصد اثر ہوگا یعنی وہ بستر مرگ پر پہنچ جائیں گے۔ جولائی
۲۰ کو اسی ادارے نے اپنے اعداد میں ترمیم کرکے اسے ۴۰ سے ۸۷ فیصد تک پہنچا
دیا جو نہایت تشویشناک ہے۔ رگھورام راجن کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت
نے اب تک جو راحت دی ہے، وہ ناکافی ہے۔ حکومت مستقبل میں حوصلہ افزائی
پیکیج دینے کے لیے آج وسائل کو بچانے کی پالیسی پر چل رہی ہے جو خودکش
ہے۔رام مندر کے خواب سے نکل کر حکومت کو حقیقت سے اپنی آنکھیں دوچار کرنی
چاہییں بقول شاعر مشرق ؎
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھَرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں
رگھو رام راجن نے آگے کہا کہ سرکاری افسر سوچ رہے ہیں کہ کووڈ-19 پر قابو
پائے جانے کے بعد راحت پیکیج دیں گے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جب مریض صحتیاب
ہوجائے تو اس بریانی کھلائیں گے حالانکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وینٹی
لیٹر پر پڑا ہوا یہ مریض اچھا ہونے سے قبل ہی داغِ مفارقت دے جائے ۔ ہماری
سرکاری ماہرین معاشیات حالت کی سنگینی کا کم تر اندازہ لگا رہے ہیں اور جب
انہیں ہوش آئے گا اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا ہوگا ۔ آر بی آئی کے سابق
گورنر رگھو رام راجن اس نظریہ کو پوری طرح مسترد کرتے ہیں کہ حکومت بیک وقت
ریلیف اور اسٹیمولس پر خرچ نہیں کر سکتی ۔ انھوں نے وسائل کو بڑھانے اور
سمجھداری کے ساتھ خرچ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ رگھو رام راجن جیسے کئی
ماہرین اس طرح کے مشورے اس حکومت کو دیکھ چکے ہیں لیکن حکومت کا رویہ دیکھ
کر وہ محاوہ یاد آتا ہے ’’بھینس کے آگے بین بجاو بھینس کھڑی پورائے‘‘۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک نازک گھڑی میں ملک کی قیادت نہایت بے حس اور
نااہل لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے جن پر اقبال یہ شعر صاق آتا ہے ؎
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
|