جنسی درندوں کا علاج مگر کیسے۔۔؟

بادشاہ تو ہم میں سے بہت بنے مگرافسوس کمہارکوئی نہیں بنا۔وہ کمہارتوآپ کویادہوگاجس نے گدھوں کوسیدھارکھنے کارازبادشاہ کوبتایاتھا۔یہ ذکرہم پہلے بھی کسی کالم میں کرچکے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے گدھوں کوقطارمیں چلتے دیکھاتوکمہارسے پوچھا،تم انہیں کس طرح سیدھارکھتے ہو۔؟کمہارنے جواب دیاکہ ،جوبھی گدھالائن توڑتاہے،میں اسے سزادیتاہوں،بس اسی خوف سے یہ سب سیدھاچلتے ہیں۔بادشاہ نے کہا،کیاتم میرے ملک میں امن قائم کرسکتے ہو۔؟کمہارنے حامی بھرلی،بادشاہ نے اسے منصب عطاء کردیا۔پہلے ہی دن کمہارکے سامنے ایک چوری کامقدمہ لایاگیا۔کمہارنے فیصلہ سنایاکہ،چورکے ہاتھ کاٹ دو،جلادنے وزیرکی طرف دیکھااورکمہارکے کان میں بولاکہ،جناب یہ وزیرصاحب کاخاص آدمی ہے۔کمہارنے دوبارہ کہاکہ ،چورکے ہاتھ کاٹ دو۔اس کے بعدخودوزیرصاحب کمہارکے قریب ہوئے اورکان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہاکہ جناب تھوڑاخیال کریں۔یہ اپناخاص بندہ ہے۔وزیرکی یہ بات سنتے ہی کمہاربولا۔چورکے ہاتھ اوروزیرکی زبان کاٹ دی جائے۔کہتے ہیں کمہارکے اس ایک فیصلے کے بعدپھرپورے ملک میں امن قائم ہوا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے لیکرموجودہ وزیراعظم عمران خان تک بادشاہ،خان اورنواب ٹائپ کے حکمران توہمیں بہت ملے لیکن اس کمہارکی طرح گدھوں کوسیدھاکرنے والاکمہاریاحکمران ہمیں کوئی نہیں ملا۔ہمیں اگران حکمرانوں میں کوئی ایک بھی حکمران اس کمہارکی طرح گدھوں کوسیدھاکرنے والاملتاتوآج اس ملک میں انسانی گدھوں کی نہ اتنی کثرت ہوتی اورنہ ہی یہ اس طرح ظلم ،بربریت اوردرندگی کامظاہرہ کرکے لائنوں پرلائنیں توڑتے۔موٹروے پرمعصوم بچوں کے سامنے خاتون کی آبروریزی یہ اس ملک میں نہ کوئی پہلاواقعہ ہے اورنہ ہی کوئی آخری۔برسوں سے اس ملک میں نہ صرف ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی عزتیں تارتارہورہی ہیں بلکہ ہمارے وہ معصوم اورپھول جیسے بچے وبچیاں جن کودیکھ کرشیطان بھی حیاکرتاہوگا کوبھی اس ملک کی گلیوں اورمحلوں میں جنسی ہوس اوردرندگی کانشانہ بناکرروزقیامت پرایک نئی قیامت برپاکی جارہی ہے۔اب تواس ملک میں شائد ایساکوئی علاقہ اورچپہ بچانہیں جہاں ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی عزت اورعصمت سے کھیلانہ گیاہو۔روزہماری کوئی ماں،کوئی بہن اورکوئی بیٹی ان درندوں اورشیطانوں کی شیطانیت اورخباثت کانشانہ بن کرعمربھرکے لئے زندہ درگورہوجاتی ہے۔یہ درندے جنگلی بھیڑیؤں،آوارہ کتوں اورچالاک لومڑیوں کی طرح روزانہ ہمارے اس آنگن اورچمن سے ہمارے پھول جیسے بچوں وبچیوں کواپنے منحوس پنجوں میں اٹھاکرلے جاتے ہیں اورہم پھران کی ہڈیاں اور بوٹیاں ہی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔قصور،لاہور،اسلام آباد،پشاور،کراچی،مانسہرہ،ایبٹ آباد،بٹگرام اورراولپنڈی سمیت ملک کے دیگرشہروں اورعلاقوں سے اب تک ہم نے درندگی کانشانہ بننے والے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں پھولوں کی نعشیں اٹھائیں۔۔گندگی کے ہر ڈھیراورخالی پلاٹوں سے ہم نے فرشتوں جیسے اپنے ان معصوموں کے خون آلودکپڑے،جوتے اورکھیلونے اٹھائے۔یہ درندے ماؤں کی گودسے جومعصوم فرشتے غائب کرگئے انہیں جنگلوں اوربیابانوں سے لیکرشہرکے سبزہ زاروں تک ہم نے پھرکہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔؟ان ظالموں اوردرندوں سے ہمارے بچے محفوظ رہے نہ ہی ہماری بچیاں ان کے شراورظلم سے بچیں۔ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے دامن کوداغدارکرنے کے ساتھ ان ظالموں نے ماؤں کی گودکوبھی سلامت نہیں چھوڑا۔درجنوں نہیں بلکہ ہماری سینکڑوں مائیں،بہنیں اوربیٹیاں فرشتہ،کلثوم،زینب،رباب،ہاجرہ،ارسلان،عرفان،وقار،راشداوراسدپکارکرننگے پاؤں اپنے پھول اورلخت جگرڈھونڈتی رہیں مگریہ درندے مرغیوں کی طرح انہیں ذبح اورلکڑیوں کی طرح جلاکرایسے غائب کرگئے کہ جیسے فرشتہ،کلثوم،زینب،رباب اورہاجرہ جیسے پھول اس دنیامیں پیداہی نہ ہوئے ہوں۔موٹروے پرمعصوم بچوں کے سامنے ماں کی عصمت دری یہ اگرظلم،بربریت اوردرندگی کاکوئی پہلایاآخری واقعہ ہوتاتوشائدکہ ہم اسے بھول جاتے مگرہماری کتابیں،کاپیاں،دل ودماغ توایسے خوفناک،اندوہناک اورافسوسناک واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ظلم کی یہ دستانیں اورکہانیاں لکھتے لکھتے ہمارے ہاتھ تھک چکے۔۔۔اپنی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوبے آبرواوربے توقیردیکھ کرکلیجے دردوغم سے ہمارے پھٹ چکے۔۔اپنے معصوم اورپھول جیسے بچوں وبچیوں کی خون آلوداورتشددزدہ نعشوں ولاشوں پرآنسوبہاتے بہاتے آنکھیں ہماری خشک ہوچکی ہیں۔درندوں کی درندگی اورظلم کی بھینٹ چڑھنے والے بچوں اوربچیوں کے جنازے اٹھا اٹھاکر کندھے ہمارے بے جان ہوچکے ہیں۔واﷲ ۔اب مزیدہم میں نہ کسی پھول کے جنازے کواٹھانے کی طاقت اورسکت ہے اورنہ ہی کسی ماں،بہن اوربیٹی کی داؤپرلگی چادر اٹھانے کی کوئی ہمت۔واﷲ۔دل ہمارے ریزہ ریزہ۔۔اور۔۔بدن۔۔سرسے پاؤں تک زخموں سے چورچورہیں۔۔ہم قصورکی زینب ، اسلام آبادکی فرشتہ،پشاورکی پلوشہ،حویلیاں کی فریال ودیگردرندگی تلے روندے گئے پھولوں کوبھولے ہیں نہ ہی بٹگرام کے عاطف وعدنان اورنہ ہی ہریپورکے عمرہمارے دل ودماغ سے ایک لمحے کے لئے بھی کبھی نکلے ہیں۔ایسے میں معصوم بچوں کے سامنے ظلم اوربربریت کانشانہ بننے والی اس بدقسمت ماں کوہم کیسے بھول پائیں گے۔۔؟ہمارے بادشاہوں جیسے حکمران توشائدکچھ دن پرجوش تقریریں کرنے اوربیانات جاری کرنے کے بعدماضی کی طرح اس واقعہ کوبھی اقتدارکی غلام گردشوں میں ہمیشہ کے لئے بھول جائیں لیکن اس ملک کے عوام کے لئے اس واقعے کوبھولناہرگزممکن نہیں۔کیونکہ ماں،بہن اوربیٹی ہرگھرمیں ہوتی ہے اوربھلاماں،بہن یابیٹی کوبھی کوئی بھول سکتاہے۔۔؟پھرماں توماں ہوتی ہے چاہے وہ اپنی ہویاپرائے۔ویسے ماں توکبھی پرائے نہیں ہوتی ہے۔اس لئے موٹروے پرکسی ایک کی نہیں پوری قوم کی ماں کی عزت تارتارہوئی ہے۔اس واقعہ پرپوری قوم رنجیدہ اورغمزدہ ہے۔ہم درندوں کے ساتھ یہ کرلیں گے وہ کرلیں گے۔اس قسم کے ڈائیلاگ ہم پچھلے کافی عرصے سے سن رہے ہیں۔ہمارے ان بادشاہ حکمرانوں نے جنسی بھیڑیوں اوردرندوں کے ساتھ اب تک جوکچھ کیاوہ نہ صرف قوم بلکہ پوری دنیاکے سامنے ہے۔ہمارے حکمران اگراس کمہارکی طرح کسی ایک درندے کی گردن اڑااوران کی ترجمانی کرنے والے کسی ایک شیطان کی زبان کاٹ دیتے توآج یہ دن ہمیں کبھی دیکھنانہ پڑتا۔ملک میں جنسی درندوں اوربھیڑیوں کی اس طرح دیدہ دلیری کودیکھ کرلگتاہے کہ ہمیں نوازشریف،آصف علی زرداری اورعمران خان کی طرح بادشاہوں کی نہیں بس اس کمہارجیسے ایک کمہارکی ضرورت ہے جوڈنڈالیکرہمارے درمیان موجودان انسانی گدھوں کوسیدھاکردیں۔جب تک یہ گدھے سیدھانہیں ہوں گے اس وقت تک اس ملک میں نہ ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی عزتیں وعصمتیں محفوظ ہونگی اورنہ ہی گلی محلے میں کھیلنے اورگھومنے والے ہمارے بچے وبچیاں ان درندوں سے محفوظ رہیں گی۔ملک کوان جنسی بھیڑیوں سے پاک کرنے کے لئے ان گدھوں کوسیدھاکرناضروری ہے اوران گدھوں کو ہمارے حکمرانوں کی طرح کوئی بادشاہ نہیں بلکہ کوئی کمہارہی سیدھاکرسکتاہے۔اس لئے ہمیں بادشاہ نہیں کوئی ایساکمہارچاہیئے جوان گدھوں سے ہمیشہ کے لئے ہماری جان چھڑادے ۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.