رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں فرق ہوتا ہے۔ جو
واقعہ موٹر وے پر ہوا وہ تو رات کے اندھیرے میں ہوا اس لیے خاتون پر تنقید
کی گئی کہ وہ رات کے اس پہر گھر سے نکلی ہی کیوں جب کہ یہ درندہ صفت انسان
جو کر رہا ہے وہ تو سرعام دن کے اجالے میں کر رہا ہے اس پر آپ کس کو مورد
الزام ٹھہرائیں گے کیا اس بچی کو؟؟؟ وہ بچی جس نے ابھی خواب دیکھنا شروع
کیے ہوں گے اور ان خوابوں کی تعبیر سوچی ہوگی اس جیسے بے حس اور بے ضمیر
لوگ اس کی معصومیت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ کیا اس بچی کے بھی کپڑوں
کا مسئلہ ہے؟ نہیں مسئلہ کپڑوں کا نہیں ٹائمنگ کا نہیں مسئلہ ان فرسٹیٹد
لوگوں کا ہے جو اپنی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی ہوس
کے آگے کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ اور آپ نے گھبرانا تو بالکل بھی نہیں ہے
کیونکہ اب عزت کے محافظ بھی عزتیں لوٹنے لگے ہیں۔
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا
دن بہ دن جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے کہانی وہی رہتی ہے بس
کردار بدل جاتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری حکومت ابھی تک یہ فیصلہ
نہیں کر پا رہی کہ سرعام پھانسی دینی ہے یا جنسی صلاحیت سے محروم کرنا ہے۔
اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کی “دی گریٹ پنجاب پولیس“ ابھی تک ملزم عابد کا
سراغ نہیں لگا سکی حالانکہ حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بہت
جلد ملزم کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جائے گا ۔ لیکن یہاں بھی گھبرانے
کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حکومت کو یو ٹرنز لینے کی عادت ہے۔ اور اوپر سے
قائد حزب اختلاف پارلیمنٹ میں یہ کریدٹ لینا نہیں بھولے کہ جہاں یہ واقعہ
ہوا وہ موٹر وے بھی ہم نے بنائی تھی یہ تو وہ حساب ہو گیا کہ “گھر میں میت
پڑی ہوئی ہے اور آپ ڈھول پیٹ رہے ہیں۔“
اس لیے اب انصاف کے حصول کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے
کیونکہ یہ فرانس نہیں لاہور ہے۔
کہاں ہے ارض و سماں کا مالک
کہ چاہتوں کی رگیں کریریں
ہوس کی سرخی رخ بشر کا
حسین غازہ بنی ہوئی ہے
ارے کوئی میسحا ادھر بھی دیکھے
کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے
زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
|