ایک زمانہ تھا جب ساری دنیا کے جمہوری ممالک امریکہ بہادر
سے انتخاب جیتنے کے گرُ سیکھتے تھے اب یہ حال ہے کہ امریکہ ہندوستان سے
انتخابی ہتھکنڈے سیکھ رہا ہے۔ دوسال قبل بھیماکورے گاوں کے بارے میں یہ خبر
اڑائی گئی تھی کہ وہاں پر بے ضرر دانشور وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی
سازش رچ رہے تھے ۔ یہ مودی جی کا پرانا حربہ تھا ۔ گجرات کے ہر انتخاب سے
قبل کچھ بے قصور لوگوں کو جعلی مذبھیڑ میں مار گرایا جاتا اوریہ خبر اڑائی
جاتی کہ وہ وہ لوگ وزیر اعلیٰ مودی کو قتل کرنے کے لیے آرہے تھے ۔ عشرت
جہاں کے بارے میں یہی مشہور کرکے ہمدردیاں سمیٹی گئیں ۔ اب وائٹ ہاوس
انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھیجے گئے زہر سے
بھرے پیکٹ کی بروقت نشاندہی کرکے قتل کی سازش کو ناکام بنا دیا ۔ امریکی
میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ نامعلوم مقام اور شخص کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ
کو بھیجے گئے ایک مشکوک پیکٹ کو قبضے میں لیا گیا جس میں ‘ریسین’ نامی زہر
کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ٹرمپ اس بات کو بھول گئے کہ وہ گجرات میں نہیں امریکہ
میں انتخاب لڑ رہے ہیں اور وہاں یہ گھسے پٹے ٹوٹکے شاید ہی ان کے کسی کام
آسکیں ۔ ویسےاس خبر کو پڑھ کر امریکہ میں رہنے والے مودی بھکت ٹرمپ کو
ضرور ووٹ دیں گے۔
ٹرمپ کو اس طرح کی ناٹک بازی کے بجائے امریکہ میں نسلی منافرت کے زہر کی
جانب توجہ دینی چاہیے جس سے پھیلنے والی افراتفری اور بے چینی نت نئی
درندگی کو جنم دے رہی ہے۔ ریاست وسکونسن میں ایک نوجوان سیام فام جیکب بلیک
پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کے بعد سے پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ
جاری ہے جس میں اب تک دو عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ امریکی حکومت بھی سیاہ
فام عوام کے تئیں اسی طرح کی غیر حساسیت کا مظاہرہ کررہی ہے جس طرح
ہندوستانی حکمراں مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان مظلومین کے زخموں پر مرہم
رکھنے کے بجائے نمک پاشی کی جاتی ہے ۔ وسکونسن کے گورنر نے صدر ٹرمپ کو
شورش زدہ شہر کنوشا کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن ٹرمپ تو ایسے
سرپھرے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی بھی نہیں مانتے ۔ انہوں نے نہ صرف دورہ
کیا بلکہ صرف ان لوگوں سے ملاقات کی جن کی املاک کا نقصان ہوا تھا ۔ اس
دوران سفاک حفاظتی دستوں سے بھی بات چیت کی لیکن ان کے دل میں یہ خیال نہیں
آیا کہ پولیس کی گولی سے زخمی ہونے والے سیاہ فام افرادسے بھی رابطہ کیا
جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے مظاہرین کو فسادی قرار دے دیا۔
ریپبلکن کنونشن میں ایک روز قبل نائب صدر مائیک پینس نے بھی اپنی دوبارہ
نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے پولیس کی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا
کہ پولیس کے خلاف احتجاج کی وجہ سے پر تشدد مظاہرے شروع ہوئے۔ اس بیان کو
سننے کے بعد بے ساختہ دہلی اور بنگلورو کی پولس زیادتی یاد آتی ہے جس میں
پولس کی سرزنش کرکے بجائے اس کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ مائیک پینس کا کہنا
تھا کہ ''صدر ٹرمپ کی قیادت میں ہم ہمیشہ ان کا ساتھ دیں گے جو مشکل وقت
میں ساتھ دیتے ہیں۔ ہم پولیس کی فنڈنگ کم کرنے والے نہیں ہیں۔ نہ ابھی اور
نہ مستقبل میں کبھی۔'' یہ وہی امیت شاہ کی بولی ہےجو سرزمین امریکہ میں
سنائی دیتی ہے۔ ویسے امریکہ کے عباس نقوی یعنی سیاہ فام رہنما جیرون اسمتھ
نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے دل کی گہرائیوں میں ان افراد کے اہل خانہ کے لیے
ہمدردی ہے جن کے لواحقین تشدد میں مارے گئے۔ایسے موقع کے لیے مرزا غالب
فرما گئے ہیں ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
ویسے اس انتخابی مرحلے میں بائیڈن بھی پیچھے نہیں ہیں ہیں۔ انہوں نے ایک
پروگرام میں ٹرمپ پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ''ٹرمپ نے تشدد پر
قابو پانے کے بجائے اس کو اپنے سیاسی فائدے کے طورپر استعمال کیا ہے۔ ڈونلڈ
ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ امریکہ جو بائیڈن کے ہاتھ میں محفوظ نہیں رہے گا۔ اس
کا ثبوت کیا ہے؟ جو تشدد آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ تو ٹرمپ کی انتظامیہ میں
ہورہا ہے، یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ ہے۔ کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کے صدر
ٹرمپ ہیں؟'' امریکہ میں آج کل سیاسی حریف ایک دوسرے کے اوپر کس طرح کیچڑ
اچھال رہے ہیں اس کا اندازہ نہ ٹرمپ کے بیانات سے بلکہ ان کو ملنے والے جو
بائیڈن کے جوابات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ڈیلوئیر میں خطاب کرتے ہوئے جو
بائیڈن نےحاضرین مجلس سے پوچھا کہ آخر کتنی بار صدر ایسی باتیں کہیں گے کہ
آپ صرف یہ لکھنے سے رہ جائیں کہ وہ فراڈیا ہیں؟کسی صدارتی امیدوار نے ممکن
ہے پہلی بار اپنے حریف کو دھوکہ باز کہا ہو؟ بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ
زندگی میں کسی شخص سے اس قدر مایوس نہیں ہوئے جتنا ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوئے ہیں
۔ صدر ٹرمپ سے متعلق جریدے میں شائع ہونے والا مضمون اگر درست ہے تو
انتہائی شرمناک ہے۔
امریکی انتخابی مہم کا محور سیاہ فام لوگوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور ان
کےخلاف احتجاج ہوگیا ہے۔یہ اسی طرح کی فضا ہے جیسی کہ دہلی کے صوبائی
انتخاب سے قبل تھی۔ ایک طرف جامعہ کے مظلومین و شاہین باغ کے مظاہرین اور
دوسری جانب گولی مارو سالوں کی دھمکی دینے والے اربابِ اقتدار ۔ یہ مماثلت
جمہوریت کی دین ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں پر الزام
لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کی برسراقتدار ریاستوں اور شہروں میں تین
مہینوں سے ’بلیک لائیوز میٹر‘ موضوع پر ہو رہے تشدد پر مبنی تحریک کی مذمت
نہیں کی ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہندوستان میں زعفرانی
مسلمانوں کا خوف دلا کر ہندووں کو متحد کرتے ہیں اسی طرح سیاہ فام مظلومین
کے خلاف گورے انگریزوں کے جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اور ان کے خلاف نفرت
پھیلا کر اپنی سیاست چمکائی جارہی ہے۔ اس کے برعکس بائیڈن نے الزام لگایا
ہے کہ ٹرمپ مظاہروں کی مخالفت کرکے ملک کو متحد کرنے کے بجائے اسے اور
تقسیم کر رہے ہیں۔ انتخابی سیاست کا بنیادی نکتہ ہی عوام کو تقسیم کرنا ہے
۔ عوام اگر متحد ہوجائیں گے تو کسے ووٹ دیں گے؟ بائیڈن نے الزام لگایا ہے
کہ ٹرمپ کےا لفاظ اور پیغام ، قانون وانصرام قائم کرنے کے بجائے طوائف
الملوکی کی بیچ بو رہا ہے۔ ویسے جمہوری شریعت میں اپنے مقصد وحید یعنی
اقتدار کے حصول کی خاطر یہ فعل حرام نہیں بلکہ مستحب ہے۔
انتخابی مہمات میں عام طور پر امیدوار اپنے آپ کو ایک انقلابی رہنما کے
طور پر پیش کرتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کی الٹی منطق کے مطابق ان کےحریف کی
کامیابی امریکہ میں انقلاب برپا کردے گی ۔انہوں نے جوبائیڈن پر طنز کرتے
ہوئے کہا کہ ’’بائیڈن چیزوں کو درست نہیں کریں گے بلکہ ان پر قبضہ کرلیں
گے۔ وہ ایک کمزور انسان اور محض ایک کٹھ پتلی ہیں۔ وہ آپ کے شہروں پر قبضہ
کرلیں گے۔ یہ ایک انقلاب ہے جسے آپ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک انقلاب ہے اور ملک
کے عوام اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔‘‘ عوام کو اپنے مخالف سے ڈرانا ایک
سیاسی مجبوری ضرور ہے لیکن اس کے لیے اس قدر نیچے گر جانا کسی طرح مناسب
نہیں ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے مطابق ان کے خیالی ’انقلاب‘ کے لئے جس کی کوئی
حقیقت نہیں ہے بے وقوف لوگوں کے ذریعہ مالی مدد مل رہی ہے۔ و ہ لوگ بہت
امیر کبیر لوگ ہیں لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ اگر کبھی حقیقت میں
بائیڈن فاتح ہوئے تو انہیں سب سے پہلے نظرانداز کیا جائے گا۔‘‘ یہ ایک
نہایت مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ صدر ٹرمپ جیسا بڑا سرمایہ دار اپنے جیسے
دیگر سرمایہ داروں کو حماقت کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے اور وہ لوگ اپنی قبیل
کے امیدوار کا ساتھ دینے کے بجائے اس کے مخالف کی حمایت کررہے ہیں ۔
صدر ٹرمپ ہمیشہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مصیبت بنے رہے ہیں ۔ گزشتہ
انتخاب سے قبل مودی کی صدر اوبامہ سے بہت دوستی تھی اور ویسے بھی روایتی
طور پر ڈیموکریٹس ہندوستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس کے برعکس ریپبلکن
کا جھکاو عام طور پر پاکستان کی جانب ہوتا ہے لیکن ٹرمپ نے اس وقت اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی شروع کردی جس سے امریکہ میں رہنے والے
مودی بھکت پھول کر کُپا ّ ہوگئے لیکن ان کے سامنے مسئلہ یہ تھا مودی کی
حامی ہیلری کی حمایت کی جائے یا اسلام کے مخالف ٹرمپ کو ووٹ دیا جائے خیر
ان لوگوں نے غالباً بغض معاویہ میں ٹرمپ کی حمایت کردی ۔ ٹرمپ نے انتخاب
جیتنے کے بعد سعودی عرب کی خوشنودی کے لیے مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت
بند کردی ۔ اس سے پہلے کہ بھکت اس دھوکہ دھڑی سے ناراض ہوتے مودی جی نے
ٹرمپ کو سوریہ نمسکار کردیا ۔ ٹرمپ ہندوستانی معیشت کے ساتھ وہاں رہنے والے
ہندوستانیوں کے ساتھ ایچ ون بی ویزہ کو لے کر مشکلات بڑھاتے رہے لیکن
ہندوستانی نژاد خوش تھے کیونکہ مودی نے ہیوسٹن سے لے کر احمدآباد تک ٹرمپ
کی جئے جئے کار کر ڈالی۔
اس بار مودی اور ٹرمپ ساتھ تھے اس لیے بھکت بڑے آرا م سے انہیں ووٹ دینے
کا من بنا رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام یقین کا اظہار کررہے تھے آئندہ
صدارتی انتخابات میں ہندنژاد امریکی برادری انھیں ووٹ دے گی۔ہوسٹن کا حوالہ
دے کر انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ہندوستان اور وزیر اعظم مودی کی بڑی حمایت
حاصل ہے۔ اس رنگ میں بھنگ ڈیموکریٹس نے کملا ہیرس کو نائب صدر کا امیدوار
بنا کر ڈال دیا۔ کملا کا معاملہ بڑا عجیب ہے وہ خود پوری طرح امریکی ہیں
لیکن اگر ان کو والدین سے جوڑ کردیکھا جائے تو نصف امریکی بنتی ہیں اور
باقی کا آدھا دو حصوں میں منقسم ہے۔ یعنی ان کی ماں ہندوستانی نژاد ہیں
اور باپ افریقی نسل کے ہیں اس طرح ایک چوتھائی ہندوستانی اور ایک چوتھائی
افریقی ہوگئیں ۔ اب جہاں تک ہندوستان کا معاملہ ہے یہاں تو دھرتی ماتا ہے ،
گئوماتا ہے اور نہ جانے کون کون سی ماتائیں اس لیے کملا کو تو ماں کی وجہ
سے ہندوستانی ماننا ہی پڑے گا لیکن اگر ان کو ٹرمپ اپنا نائب بناتے تو کوئی
مسئلہ نہیں ہوتا ۔ فی الحال ٹرمپ ان کی زور و شور سے مخالفت کررہے ہیں اور
انہیں گوناگوں وجوہات کی بناء پر نااہل قرار دے رہے ہیں ۔ اب بھکتوں کے لیے
سنکٹ ہے مودی کے دوست کے ساتھ جائیں یا بھارت ماتا کی بیٹی کے ساتھ دیں ۔
مودی جی چپ چاپ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ جیت گئے تو دوست کی جیت کو چار
سلام ٹھونک دیں گے کملا جیت گئی تو ۷۰ سال میں پہلی بار ہندوستانی نائب صدر
کا جشن منایا جائے گا ۔ پٹاخے وہی پھٹیں گے لیکن وجہ تسمیہ بدل جائے گی ۔
ویسے 3 نومبر کی تاریخ اب بہت دور نہیں اور مودی کے دونوں ہاتھوں میں لڈو
تیار ہیں ۔
|