بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیوں پر خاموشی کیوں؟

بلیک واٹر دنیا کی سب سے بڑی، سب سے مالدار، مہلک ترین اور انتہائی طاقت ور کرائے کی فوج ہے، جو اپنے آپریشنز امریکا سے کنٹرول کرتی ہے۔ یہ اتنی طاقت ور تنظیم ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کا بھی اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، حالاں کہ یہ ہمیشہ سے ہی دنیا بھر میں امریکی فوج کی معاونت کرتی ہے۔

یہ دنیا بھر سے ریٹائرڈ فوجی افسران، ولنز اور کرمنلز کو اپنے آپریشنز کے لیے بھرتی کرتی ہے۔ کرائے کی یہ فوج دولت سمیٹنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک کو خصوصاً اپنا نشانہ بناتی ہے۔ یہ غریب ممالک میں ایک این جی او اور فلاحی تنظیم کے طور پر کام کرتی اور لوگوں کی خدمات انہیں خوابوں کی سرزمین امریکا بھجوانے کے نام پر بھرتی کرتی ہے۔

یہ ہمیشہ ہی قدرتی آفات سے متاثرہ ملکوں میں پہنچ کر بے سہارا مگر مضبوط لوگوں کو انتخاب کرتی اور انہیں ملازمتیں دیتی ہے۔ عراق اس کی محض ایک مثال ہے، جہاں اُس نے عراقی لوگوں کو بھرتی کر کے انہیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کیا۔ عراقی اس شیطان صفت تنظیم سے بہ خوبی آگاہ ہیں اور فلوجہ میں انہوں نے بلیک واٹر کے ایجنٹوں کو ہلاک کر کے ان کی نعشیں دریائے فرات کے کناروں پر لٹکا دی تھیں۔ یہ ایجنٹس فوڈ کنٹریکٹرز کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔

بلیک واٹر اب کامیابی سے پاکستان میں سرائیت کرچکی ہے، جس نے ملک بھر میں اپنے مراکز قائم کرلیے ہیں۔ قبل ازیں اس کے آپریشنز فطرت کے اعتبار سے خفیہ تھے تاہم پچھلے برس پاکستان کے لوگوں نے اس کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کچھ سنا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ حکومت اور عدلیہ کی لڑائی میں محو ہوگئے جو کہ اب تک جاری ہے۔

وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک حالیہ خط سے بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ متعلقہ محکمے بلیک واٹر کی سرگرمیوں سے آگاہ ہیں تاہم وہ اس غیر قانونی سیکورٹی ادارے کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنے سے ہچکچا رہے ہیں یا پھر چپ سادھ لی ہے۔

وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق بلیک واٹر پاکستان میں رسک اینڈ سیکورٹی مینجمنٹ (آر ایس ایم) کے نام سے متحرک ہے۔ آر ایس ایم درحقیقت ایک امریکی کمپنی ہے جس کا ہیڈ آفس رج ٹاپ، سرکل ڈلاس میں واقع ہے۔ اس کمپنی کی قیادت مائیکل بلیتھ کررہا ہے جو کہ برٹش آرمی میں 14 برس تک میرین کمانڈو کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا ہے۔ امریکی فوج کی ایک سابق خاتون اہل کار سے شادی کے بعد وہ امریکا میں مستقل طور پر آباد ہوگیا۔ گزشتہ 18 برسوں میں وہ پرائیویٹ سیکورٹی کے بزنس سے وابستہ ہے۔

پاکستان میں بلیتھ نے ایک آپریشنل بیس قائم کی، جب کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک خط کے مطابق وہ ایک امریکی این جی او ایف آئی آر ایم ایس (فرمز) کے ایک پارٹنر کیمونکس (Chemonics) کے شیڈو کے ماتحت کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں وہ برآمدات بڑھانے، مزید لوگوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے مقاصد پر کام کررہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کے تحت مقاصد کا حصول پالیسی کی سطح پر کام کرتے ہوئے حاصل کیا جانا ہے جب کہ بزنس سیکٹرز اور انفرادی فرمس کے ہمراہ کام کر کے پیداواری صلاحیتوں اور مسابقت میں بہتری کے ذریعے پاکستان کو تیزی سے ترقی کرنے والے دنیا کے 20ویں مرکز کی حیثیت دلانی ہے۔ اسے کیری لوگر امدادی پیکیج کے تحت 7.63 ارب روپے سے زائد رقم بھی فراہم کی گئی ہے۔

بلیتھ نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کے لیے ایک نوجوان پاکستانی شہباز کو اعلیٰ عہدہ پر ملازمت فراہم کی جو کہ مطالعہ کے لیے انگلینڈ گیا تھا مگر سکیورٹی بزنس سے وابستہ ہوگیا۔ اب وہ بلیتھ کے لیے پاکستان بھر سے انٹیلی جنس جمع کرتا ہے۔ شہباز نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کے لیے کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے بعض افسران کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں۔

جب آر ایس ایم پاکستان میں ایک کمپنی کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تو اس سے دو مقامی سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات بھاری مشاہروں کے عوض حاصل کرلیں۔ اُس نے وفاقی وزارتِ داخلہ سے این او سی لیے بغیر ان مقامی سکیورٹی کمپنیوں سے معاہدے بھی کرلیے۔ اس نے لاہور میں اپنا ہیڈ آفس جب کہ مختلف صوبائی دارالحکومتوں میں اپنے علاقائی دفاتر بھی قائم کرلیے۔ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے دُور دراز علاقے میں بھی سرائیت کرگئے اور کیمونکس کے نام سے ایک فلاحی این جی او کی حیثیت سے کام بھی شروع کردیا۔ ان کے نزدیک پاکستان کے آئین اور قواعد و ضوابط کی کیا حیثیت ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے بھی وضاحت حاصل کرنے کا تکلف گوارہ نہیں کیا۔

یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود وفاقی وزارتِ داخلہ بہ شمول صوبائی ہوم ڈپارٹمنٹ ان کی مشکوک سرگرمیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے جھجک کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ عام آدمی بھی یہ بآسانی سمجھ سکتاہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بلیک واٹر افسران کے خلاف کوئی کاروائی کرنے میں کتنا پریشر مانع ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلیک واٹر افسران ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے باوجود بڑی دلیری سے ملک میں قیام پذیر ہیں، جب کہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ دوسری جانب وزارتِ داخلہ کے کرتا دھرتاؤں کے اپنے مخصوص مفادات انہیں کسی کارروائی سے روکتے ہیں۔ تاہم سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی اس غیر قانونی بزنس پر خاموشی ناقابلِ فہم ہے۔

جب سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا مؤقف تھا کہ جب کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرتی ہے تو یہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے۔ وزارتِ داخلہ ہی کسی غیر قانونی سرگرمی کی صورت میں انہیں اپنا بزنس سمیٹنے کا حکم دے سکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کی رجسٹریشن اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ وہ قانونی شرائط پوری نہ کردیں۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کئی سکیورٹی تجزیہ کار وسطی اور جنوبی پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی کی موجودہ لہر کا تعلق بلیک واٹر سے جوڑتے ہیں۔ یہ الزامات صحیح ہیں یا غلط تاہم پاکستان کی عمل داری کا تقاضا ہے کہ ایسی تمام غیر قانونی تنظیموں کو ملک سے نکال باہر کر کے ان غیر ملکیوں کو سزا دی جائے جنہوں نے مقامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مقامی پولیس اور رینجرز نے بلیک واٹر کے ایجنٹوں کو کئی بار گاڑیوں میں غیر قانونی جدید اسلحہ کے ہمراہ پکڑا، تاہم اعلیٰ حکام کی مداخلت پر انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ پاکستان عراق اور افغانستان کی طرح ایک شکست خوردہ ملک نہیں ہے۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 76264 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More