عسکریت پسندوں کی نئی پوزیشن

وزیرستان، اورکزئی اور خیبر ایجنسیز کے عسکریت پسند (جہاں فوجی آپریشنز یا تو مکمل ہوگئے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں) اپنی پوزیشنز جنوب، مغربی اور مغربی پشاور بہ شمول مہمند اور باجوڑ ایجنسیز میں مستحکم بنا رہے ہیں۔ اس امر کا ثبوت عسکریت پسندوں کے حالیہ حملوں میں اضافے اور ان کی ان علاقوں میں نقلِ مکانی کی رپورٹوں سے ملتا ہے۔

مثال کے طور پر ادے زئی قومی لشکر کے چیف دلاور خان کے مطابق عسکریت پسند فرنٹیر ریجن (پشاور) کے پستوانہ اور بورا کے علاقوں میں منظم ہورہے ہیں۔ یہ علاقہ پشاور شہر کے جنوب میں صرف 20 کلومیٹر کے قریب واقع ہے۔ عسکریت پسند اس روٹ کو قریبی منظم علاقوں مٹانی اور مزید آگے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پستوانہ کی ایک اسٹرٹیجک اہمیت ہے۔ یہاں سے پشاور اور ضلع نوشہرہ کے پہاڑی حصوں کے منظم علاقوں میں جانے کے لیے داخلے کا راستہ ملتا ہے۔ پیرا ملٹری فورسز نے رواں سال فروری میں اس علاقہ کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے ”آپریشن اسپرنگ کلیننگ“ کیا تھا۔

دلاور خان کے مطابق بورا کے علاقے سے بڑی تعداد میں خاندان عسکریت پسندوں کی انتقامی کاروائیوں سے بچنے کے لیے بھاگ کر پشاور آگئے تھے، جنہیں عسکریت پسندوں نے اپنے لیے حجرے کھلے رکھنے وگرنہ انتقامی کارروائیوں کی دھمکی دی تھی۔ عسکریت پسندوں نے مزید دھمکی دی تھی کہ اپنے آبائی علاقوں یا اپنے گھروں کو واپس آنے والے مقامی افراد کے مکانات منہدم کردیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان علاقوں میں عسکریت پسندوں نے پشاور کے نزدیک اپنے محفوظ ٹھکانے بنالیے ہیں اور وہ مٹانی میں مقامی لوگوں کو ہراساں کررہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر پشاور اور ایف آر پشاور کے ایڈمنسٹریٹر سراج احمد نے جانی خیل، اشوخیل اور حسن خیل کے قبائلی عمائدین کا اجلاس طلب کر کے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ عسکریت پسندوں کو تحفظ فراہم نہ کریں۔ اس اجلاس کی تفصیلات سے واقف ایک ذریعہ کے ذریعے مطابق سول انتظامیہ نے خطے میں سکیورٹی فورسز کی مستقل موجودگی کی تجویز دی۔

حکام نے یہ بھی بتایا کہ اورکزئی اور خیبر ایجنسی سے فرار ہونے والے عسکریت پسند پشاور کے مغربی مضافات بہ شمول شیخاں، سربند اور ادے زئی میں چھپے ہوئے ہیں، جہاں سے وہ اکثر سرکاری تنصیبات پر حملے کرتے ہیں۔ ایک افسر کا کہنا تھا کہ پشاور کے شمال، مچھانی اور شب قدر کے علاقوں اور مہمند ایجنسی سے متصل سرحدی علاقوں میں بھی عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

درحقیقت 9 جولائی کو ایجنسی میں ایک خوفناک خودکُش دھماکہ اُس وقت ہوا جب مہمند کے سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز اکّا گھند پر اتمان خیل قبائلی لشکر کی جانب سے پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر کی مدد سے ایک جرگے کا انعقاد ہونے والا تھا۔ اس حملہ میں 110 سے زائد افراد ہلاک اور 183 زخمی ہوگئے تھے۔ کسی نامعلوم جگہ سے ہیرالڈ سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ طالبان مہمند چیپٹر کے ایک ترجمان اکرام اللہ مہمند نے اس خودکُش حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد اتمام خیل لشکر کے رضاکاروں کو نقصان پہنچانا تھا۔

جون کے آغاز میں مہمند کے پولیٹیکل ایجنٹ امجد علی نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں کو باکی زئی اور دعوے زئی کے علاقوں سے دُور رکھا گیا ہے۔ لگ بھگ اسی وقت فرنٹیر کور کے ایک لیفٹیننٹ جنرل پشاور کے صحافیوں کو ایجنسی کے چمرکند ایریا میں لے گئے اور دعویٰ کیا کہ مہمند کے 90 فیصد علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کردیا گیا ہے۔ تاہم پاک افغان سرحد کے ساتھ کچھ علاقوں میں سرائیت کرگئے ہیں۔ حتیٰ کہ اکاگند ٹریجڈی کے بعد بھی امجد نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور وہ صرف باکی زئی تحصیل کے سرحدی علاقوں اور پندیالی تحصیل کے دعوے زئی کے علاقے میں موجود ہیں۔

تاہم ان دعوؤں سے مقامی قبائل اور مبصرین مطمئن نہیں ہوئے، کیوں کہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں تسلسل کے ساتھ حملوں میں شدت اور اضافہ ہورہا تھا۔ مثال کے طور پر سرد کلی میں سڑک کے کنارے اُس وقت ایک بارودی سرنگ پھٹ گئی جب قبائلی علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر ملک وارث خان آفریدی اور صدر آصف علی زرداری کے ایک مشیر مرزا محمد جہادی ایک وفد کے ہمراہ اکاگند کی جانب جارہے تھے، وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ 20 جولائی کو خاوے زئی تحصیل کے کووانگ کے علاقے میں عسکریت پسندوں نے ایک امن کمیٹی کی پوسٹ پر حملہ کردیا، اس حملے میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک فائرنگ ہوتی رہی۔ اگلے روز صفی تحصیل کی سیکورٹی پوسٹوں پر دوبارہ حملے کیے گئے جب کہ تیسرا حملہ باکی زئی تحصیل میں گھانم شاہ پوسٹ پر کیا گیا۔

طالبان باجوڑ سے مہمند ایجنسی کے سرحدی علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ مہمند ایجنسی کے عمر خالد گروپ کے زیر کمان ایک طالبان گروپ جو کہ پرویز گروپ کے نام سے معروف ہے، باجوڑ ایجنسی کے نواگائی تحصیل میں سرگرم ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وہ مہمند اور نواگئی کے درمیان آتے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کچھ عرصہ قبل افغان سرحد سے مہمند ایجنسی میں آگئے تھے۔ وہ شونکراکی بارڈر پوسٹ پر حملے کے بعد یہاں آئے تھے۔ یہ وہی حملہ تھا جس کے بارے میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کا کہنا تھا کہ اس پر 600 عسکریت پسندوں نے افغان سرحد کی جانب سے حملہ کیا۔ اس حملے میں 65 سیکورٹی اہل کار لاپتہ ہوگئے تھے۔ بعدازاں ان کی نعشیں برآمد کرلی گئی تھیں۔ بعض سیکورٹی اہل کار افغانستان کی طرف بھاگ گئے تھے، جہاں انہوں نے کابل میں خود کو پاکستانی سفارت خانہ کے حوالے کردیا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق 30 سیکورٹی اہل کار تاحال لاپتہ ہیں۔

خیبر پختونخواہ حکومت ان علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال سے آگاہ معلوم ہوتی ہے۔ صوبائی وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان کو صوبہ کے ان علاقوں میں دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ ہیرالڈ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان ان علاقوں میں منظم ہونے کے خواہش مند ہیں مگر ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

پولیس اور پیراملٹری فورسز نے 29 جولائی کو پشاور اور نوشہرہ کے اضلاع میں ایک سخت سرچ آپریشن کیا۔ میاں افتخار حسین کے مطابق پولیس نے ان آپریشنز میں 500 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا جس میں سے 25 کا تعلق عسکریت پسندوں سے ہے۔ تاہم جماعتِ اسلامی کے مقامی لیڈروں نے 16 جولائی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران سرچ آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ سرچ آپریشن کے نام پر لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں صرف ضلع پشاور سے کم از کم 3000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

درحقیقت علاقہ میں متعدد آپریشنز کیے جانے کے باوجود سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کی ان علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں (نوٹ: یہ مضمون سیلاب آنے سے قبل .لکھا گیا تھا، اس دوران علاقہ کی صورتِ حال میں کافی فرق آگیا ہے)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 76268 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More