مغرب اب تک یہ دلیل سمجھنے میں
ناکام رہا ہے کہ ہمیں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی بنیادی وجوہات
سمجھنے کی ضرورت ہے، جس کا سبب سیاسی ناانصافیوں، حقوق سے انکار اور محرومی
ہے۔ کسی قوم یا لوگوں سے سیاسی ناانصافیاں غربت اور ناخواندگی کی موجوگی
میں صورتِ حال کو دھماکہ خیز بنا دیتی ہیں۔ اس کے باعث ناامیدی اور بے
اختیار ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس مہلک بیماری کی شکار قوم بہ آسانی
عسکریت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اقدامات کے لیے پروپیگنڈے کا
شکار ہوجاتی ہے۔ یہ اسلام عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دیتا،
بلکہ یہ سیاسی تنازعے ہیں جو مسلم عوام کے درمیان ایسے جذبات پیدا ہونے کا
باعث بنتے ہیں۔
ماضی قریب میں مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی کبھی اتنے عروج پر نہیں
تھی جتنی کہ آج ہے۔ قبل ازیں اس کی تشریح سیاسی اور تاریخی بنیادوں پر کی
جاتی تھی، تاہم بہ تدریج یہ کشیدگی نے گرجا گھروں میں ہونے والی حملوں میں
شامل ہوگئی اور دونوں مذاہب کے درمیان مباحثہ کی شکل اختیار کر گئی۔ امریکی
انتظامیہ میں شامل نیو کنزرویٹیوز کی جانب سے 9/11 کے تناظر میں انتقام اور
نفرت پر مبنی پالیسیاں عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کا باعث
بنی۔ بعدازاں اس میں شام، سوڈان اور ایران تک توسیع ہوگئی۔
9/11 کے واقعہ کو ایک ”ٹرم آف ریفرنس“ کے طور پر استعمال کیا گیا جب کہ اسے
خوف اور خطرہ میں اضافہ کے طور پر دیکھا گیا۔ ”اسلامک دہشت گردی“ کے خلاف
ردِعمل ہمہ جہتی تھا، ان کے ٹارگٹ مسلم ممالک اور مذہب ہے جسے مغرب اور اُس
کی جمہوری اور انسانی حقوق کی قدروں کے خلاف ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا
گیا، مسلم اداروں مثلاً دینی مدارس اور سماجی بہبود کی تنظیمیں جو کہ کلی
طور پر مستحقین اور ضرورت مند لوگوں کے لیے کام کررہی ہیں، انہیں دہشت
گردوں کی نرسری کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان پر پابندی عائد
کر کے اثاثے منجمد کردیے گئے۔
مختصر یہ کہ 9/11 کے ذریعے اسلام اور تمام مسلمانوں کا منفی امیج تخلیق کیا
گیا اور ان کے مذہبی ذرائع کو تشدد، عدم برداشت اور دہشت گردی میں ملوث
قرار دیا گیا۔ عیسائی دنیا اور اسلامی اُمہ کے درمیان رابطوں کی کمی کے
باعث ہر کیمپ میں ایک دوسرے کے خلاف جذبات میں تیزی آئی۔ سازشی تھیوریوں
اور سیاسی اظہار میں اضافہ کے باعث مذہبی شدت پسندی بھی بڑھی۔ مسلمانوں کو
مغرب کی سیاسی اور نظریاتی اقدامات میں ناانصافی نظر آئی، جب کہ مغرب نے
اسے اسلامی بنیاد پرستوں اور مغربی تہذیب کے درمیان ثقافت کا ٹکراؤ قرار
دیا۔
ڈنماک میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت اور مغربی
جارحیت نے مسلمانوں کو دیوار سے لگا دیا۔ ڈینش وزیرِاعظم اینڈرس فورگھ
رامیوسر نے سرکاری سطح پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ خاکے خلافِ قانون نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف پیغمبرِ اسلامﷺ بلکہ دیگر الہامی مذاہب کا
بھی مکمل احترام کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب بالخصوص ڈینش وزیرِاعظم اور
امریکی و برطانوی رہنما مسلمانوں کے احساسات کا ادراک نہیں کرسکے۔ مغرب کے
اس دُہرے معیار نے اسلامی دنیا میں مسلمانوں کو مشتعل کیا جس کے نتیجے میں
نفرتوں میں اضافہ ہوا۔ مغرب بالخصوص امریکا کی جانب سے مختلف اسلامی ممالک
میں قتلِ عام نے پہلے سے مشتعل مسلمانوں کے جذبات مزید بھڑکا دیے۔
آخر مسلمان اس خبر پر کیوں ردِعمل نہیں ظاہر کریں گے کہ عراق پر 2003ءمیں
امریکی چڑھائی کے بعد سے اب تک 600,000 عراقی شہری موت کے گھاٹ اتار دیے
گئے۔ یا اسرائیل نے اپنے سپاہی کے اغوا پر غزہ میں 52 نوجوان فلسطینیوں کو
شہید کردیا۔ آخر وہ لبنان میں بربریت اور تباہی پر کیوں خاموش رہ سکتے ہیں۔
اسلام اور عیسائی دنیا میں کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں کے برخلاف ایسے
ریماکس دیے گئے جن سے مسلمانوں میں مزید بے چینی پیدا ہو۔ سنڈیکیٹ کالم
نگار تھامس فرائیڈ مین نے غصے سے سوال کیا کہ اگر مسلمان سوڈان، عراق، مصر
اور پاکستان میں مسلمانوں کو ذبح کررہے ہیں اور اردن میں بہت کم مذہبی
ردِعمل ہوا ہے، جب کہ کارٹون اور یورپ کے ریمارکس پر دنیا بھر میں احتجاجی
مظاہرے کیے گئے، تو پھر اسلام آج کہاں کھڑا ہے؟
سابق امریکی اٹارنی ایشکرافٹ نے یہ ریمارکس دیے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے
جس میں خدا کی خوشنودی کے لیے بیٹوں کو مرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، جب
کہ عیسائیت ایک ایسا مذہب ہے جس میں خدا اپنے بیٹے کو مرنے کے لیے بھیجتا
ہے۔ بیشتر مغربی دانش وروں نے پوپ بینڈیکٹ کے متعلقہ اور غیر متعلقہ
ریمارکس کا جس انداز سے دفاع کیا اس سے مغربی ثقافت میں اسلام کے خلاف نفرت
میں اضافہ ہوا۔ مغرب کے اس رویّے نے مسلمان بنیاد پرستوں اور القاعدہ کے
حامیوں کو مزید مضبوط کیا۔ ان میں یہ خیال راسخ ہوا کہ واقعی مسلمانوں کو
نقصان پہنچانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
سابق ایرانی صدر خاتمی کے یہ ریمارکس کہ ”پوپ اور بش ایک صلیبی جنگ دُہرانے
کے لیے متحد ہوگئے ہیں“ کو اس ضمن میں بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ اس قسم کے قابلِ اعتراض اور متنازع بیانات ایک تنازع اور
پولرائزیشن کا باعث ہو کر تہذیبوں کے ٹکراؤ کی پیش گوئی پوری ہونے کا سبب
ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ دونوں مذاہب کے سنجیدہ عناصر درپیش خطرہ کو دیکھتے ہوئے جاگ
جائیں اور ایک حقیقی اور پُرخلوص ڈائیلاگ کے ذریعے دنیا کو 21ویں صدی کے
صلیبی تصادم سے بچانے کے لیے باہمی اقدامات کریں۔ |