بالآخر شہباز شریف کی زیرِ قیادت
پنجاب حکومت نے پنجاب کے ہر ضلع میں اسپیشل پرپز ٹاسک فورسز کے ذریعے 17
کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق
کریک ڈاؤن کا فیصلہ وفاقی حکومت نے کیا تھا، جب کہ صوبائی حکومت بہ دلِ نہ
خواستہ اس میں حصہ لے رہی ہے۔
کالعدم تنظیموں میں لشکرِ جھنگوی، سپاہِ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی)، لشکرِ
طیبہ، جیشِ محمد، سپاہِ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، تحریکِ نفاذِ
شریعتِ محمدی، ملتِ اسلامیہ پاکستان (سابقہ تحریکِ جعفریہ)، حزب التحریر،
جمعیت انصار (سابقہ حرکت المجاہدین)، جماعت الفرقان (جیشِ محمد سے علیحدہ
ہوجانے والا دھڑا)، خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ،
بلوچستان لبریشن آرمی اور جماعت الدعوة شامل ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ صوبائی فہرست میں عبدالرشید غازی سے منسوب غازی فورس،
حرکت الجہاد اسلامی (قاری سیف اللہ اختر اور الیاس کاشمیری گروپ) اور تحریکِ
طالبان پاکستان کے نام شامل نہیں ہیں، حالاں کہ انٹیلی جنس اداروں کی
رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ باہمی طور پر منسلک یہ تینوں گروپ پنجاب میں
حالات خراب کرنے میں ملوث ہیں۔
اس خود ساختہ کریک ڈاؤن میں کئی دیگر مسائل بھی ہیں، ٹارگٹ کی جانے والی 17
تنظیموں میں سے بیشتر نئے ناموں سے انتہائی متحرک ہیں۔ کالعدم تحریکِ
جعفریہ اور اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی قائدِ ملتِ
جعفریہ کے نام سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ سپاہِ صحابہ پاکستان
(ملتِ اسلامیہ) اہلِ سنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے اور اس کے سربراہ
مولانا احمد لدھانوی کھلے عام سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ جماعت الدعوة
تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت کا پلیٹ فارم استعمال کررہی ہے اور اس کا چیریٹی
ونگ بھی متحرک ہے۔ جیشِ محمد بھی اپنے چیریٹی ونگ الرحمت ٹرسٹ کے بینر تلے
کام کررہی ہے۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا کہ بعض نامعلوم وجوہات کے
باعث شہباز شریف پنجاب میں کریک ڈاؤن کے لیے کسی بھی طرح تیار نہیں تھے،
مگر داتا دربار پر حملے اور عوامی ردِعمل کے باعث انہیں وفاقی حکومت کے
دباؤ پر ہتھیار ڈالنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
دہشت گرد گروپوں پر مستقل نظر رکھنے کے لیے صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کی
منظوری سے اینٹی ٹیررازم بورڈ تشکیل دیا ہے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں اینٹی
ٹیررازم بورڈ کی اسپیشل ٹاسک فورسز نے کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ وزیرِاعلیٰ
پنجاب اس بورڈ کے سربراہ ہوں گے، جب کہ صوبائی وزیرِ قانون، چیف سیکریٹری،
ہوم سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، سیکریٹری پراسیکیوشن اور متعدد صوبائی
پارلیمانی سیکریٹریز بورڈ کے ارکان ہوں گے۔ 300 سے زائد اعلیٰ تربیت یافتہ
اہل کار دہشت گردی کے خلاف پولیس اور انٹیلی جنس اداروں سے رابطے میں رہیں
گے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسران اپنے اپنے اضلاع میں ٹاسک فورسز کو دیے گئے اہداف
کی نگرانی کریں گے۔
اب تک پولیس نے اہم عسکریت پسند گروپوں کے درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا
ہے۔ پنجاب پولیس کے ترجمان ڈی آئی جی اکرم نعیم بھروکا پُریقین ہیں کہ کریک
ڈاؤن بامقصد ثابت ہوگا اور صوبہ سے عسکریت پسندی اور دہشت گردی ختم کرنے
میں مددگار ہوگا۔ بہرکیف انٹیلی جنس افسران کریک ڈاؤن کی کامیابی کے لیے
بہت کم توقعات کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ
عسکریت پسندوں نے صوبہ کے مختلف حصوں میں اپنے محفوط ٹھکانے قائم کرر رکھے
ہیں اور اب وہ سندھ میں بھی اپنے اڈے بنا رہے ہیں۔
ایک دوسرے انٹیلی جنس افسر نے کہا کہ ”کریک ڈاؤن پر ماضی کا تجربہ مجھے
بتاتا ہے کہ یہ ایک بے نتیجہ مشق ہوگی۔ ماضی میں ہم نے متعدد عسکریت پسندوں
اور دہشت گردوں کو گرفتار کیا مگر پولیس انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت
فراہم کرنے میں ناکام رہی، اس کے نتیجے میں عدالتوں نے انہیں عدم ثبوت کی
بنا پر رہا کردیا۔“
حال ہی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر
پر حملے کے ملزم ہجرت اللہ کو رہا کردیا۔ اُسے مختلف گروپوں کے ٹاپ عسکریت
پسندوں کی طرح ناکافی ثبوت کے باعث بیشتر کیسوں میں ضمانت پر رہا کردیا
گیا۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران پاکستان نے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف چار
ملک گیر کریک ڈاؤن کیے، تاہم ان میں سے بیشتر عسکریت پسند چند دنوں بعد
ضمانتوں پر رہا کردیے گئے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں۔
میاں چنوں کے ماسٹر ریاض علی کا کیس انتہائی سبق آموز ہے۔ جولائی 2009ءکو
اُس کے گھر میں رکھا گیا دھماکہ خیز مواد زبردست دھماکہ سے پھٹ گیا۔ اس کے
نتیجے میں پڑوس کے درجنوں مکانات منہدم ہوگئے۔ ریاض کو زخمی حالت میں اس کے
تباہ شدہ مکان سے گرفتار کرلیا گیا۔ بعدازان تفتیشی افسران کو پتہ چلا کہ
وہ سابقہ کریک ڈاؤنز میں لشکرِ جھنگوی کا کارکن ہونے کے باعث دو مرتبہ پہلے
بھی گرفتار ہوچکا ہے۔ مگر مقامی پولیس نے اُسے رہا کردیا۔ جب یہ واقعہ پیش
آیا تو وہ حرکت الجہاد اسلامی کے لیے کام کررہا تھا۔ یہ ماسٹر ریاض تھا جس
نے بتایا کہ عسکریت پسند جی ایچ کیو پر حملہ کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
سویلین انٹیلی جنس سروس کے ایک اعلیٰ ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ ”کریک
ڈاؤن مسئلہ کا حل نہیں۔ حقیقی حل دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو ہدف پر
لانا ہے جو کہ انتہائی تربیت یافتہ پولیس اور بے خوف ججوں کے بغیر ممکن
نہیں۔“ تاہم پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ مثبت نتائج
کا حامل ہوگا۔ |