کیا اسلامی ممالک آزاد ہیں؟؟

اتفاق سے آزاد کشمیر جانا ہوا، راستے میں جاتے ہوئے سر سبز و شاداب وادیوں کو دیکھا تو ایسا محسوس کررہا تھا کہ میں کہی دوسری دنیا میں داخل ہوگیا ہوں جیسا جیسا سفر آگے بڑھتا رہا ویسا میرے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتا جارہا تھا ایک طرف جلدی سے کشمیر پہنچنا چارہا تھا تو دوسری طرف جی چاہتا کہ سفر اور بھی لمبا ہوجائے کیونکہ ہم نے ایسے خوبصورت مناظر کہا دیکھے تھے،خیر بالآخر ہم وادی نیلم پہنچ ہی گئے صبح فجر کا وقت تھا کہ ہم پہنچ گئے جب صبح کا روشنی تھوڑا لگ گئی تو لوگ اپنے اپنے کاموں کے لیے نکل گئے لیکن اس جنت نظیر وادی میں بجائے خوشی کے میں زیادہ تر لوگوں کے چہروں پر ایک عجیب کیفیت دیکھ رہا تھا ، میں نے چاہا کہ میں کسی سے وجہ پوچھوں کہ یہ لوگ کیوں ایسے مرجھے ہوئے ہے لیکن دوستوں نے مجھے منع کیا کہ ہوسکتا ہے یہ لوگ پوچھنے پہ برا مانے میں نے دوستوں کے مشورے میں عافیت سمجھا جب ہم تھوڑا آگے بڑے تو ایک ہوٹل میں ناشتے کے لیے رک گئے ہوٹل میں ایک بوڑھا بابا بھی پہلے سے ناشتے کے لیے بیٹھا تھا اس سے ہمارا دعا سلام ہوگیا بابا بھی بہت خوش مزاج تھا وہ ہمارے ساتھ باتوں میں لگ گیا تو میں نے بابا سے ہی ماجرا پوچھنا چاہا دوستوں نے پھر مجھے منع کرنے کی بہت کوشش کی لیکن میں ایک نہ مانا اور بابا سے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا میں نے آدھی بات ہی کی تھی کہ بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئ اور میں جیسا ہی بات آگے بڑا رہا تھا بابا کہ آنکھوں سے آنسوؤں ٹپک گئی میں بھی جذباتی ہوگیا لیکن سوال پوچھتا گیا تھوڑی خاموشی کہ بعد بابا نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا بیٹھا میں آج آپ کو یہ حقیقت بتا رہا ہوں بابا ایک بار پھر جذبات پہ قابو نہ رکھتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور فرمانے لگے میرے تین بیٹے ہیں دو مقبوضہ کشمیر میں رہتے تھیں اور ایک میرے ساتھ آزاد کشمیر میں ہے ، مقبوضہ کشمیر میں جو رہتے تھے وہ ہر وقت چھوٹے موٹے ظلم و ستم کے شکار ہوتے تھے لیکن پھر بھی وہ گزارہ کرتے لیکن جب سے بھارت نے آئین میں ترمیم کی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے تو کشمیر میں مظاہرے شروع ہوگئے جس میں میرے دو جوان بیٹے بھی شامل تھے سرینگر میں ان پر قابض بھارتی فوج نے فائرنگ کردی جس میں میرا ایک بیٹا شہید دوسرا شدید زخمی ہوگیا اور زخمی کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے جب مجھے پتہ چلا تو میں جانا چاہا لیکن مجھے نہیں چھوڑا اور یو میں نے بیٹے کا آخری دیدار بھی نہیں کیا، بابا کی باتیں سنتے ہوئے میری بھی آنکھوں میں آنسو آگئ لیکن بابا کی باتوں کو خاموشی سے سن رہا تھا، بابا بولا بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے ٹھیک چار دن بعد میرے بیٹوں کے گھر پر چھاپہ مارا اور میرے جوان بہو اور پوتی کی بے عزتی بھی کی اور ان کو بھی اپنے ساتھ لے گئی اور یہ الزام لگایا کہ آپ عورتوں کو بھارت کے خلاف منظم کرتی ہیں اور بھارت کے خلاف مہم چلا رہے ہوں اور یوں ہمیں اب ان کی موت اور زندگی کا کوئی پتہ نہیں اور یہ خال سارے کشمیر کے لوگوں کی ہیں، خیر بابا اس بات کو یہاں پر ادھورا چھوڑتے ہوئے اور اپنے آنسو کو پونچتے ہوئے بولا بیٹا آپکو پتہ ہے میں اپنے غم پہ نہیں روتا میں تو اپنی قربانیوں پہ خوش ہوں کیونکہ جس طرح ندی کو پل کے بعیر پار نہیں کیا جاسکتا اس طرح آزادی کی منزل پر قربانی کے بعیر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور آزادی کا پل سیمنٹ اور ریت سے نہیں خون سے بنتا ہے،بابا پھر بولا ہاں بات کر رہا تھا رونے کی تو مجھے رونا اسلامی دنیا کی کمزوری پہ آتا ہے 57 ممالک میں ایک بھی آزاد نہیں بلکہ سارے غلام ہے اور ہم تو آزادی کا پل بنارہے ہے اس کے لیے خون دے رہے ہیں آج نہیں تو کل یہ پل بن جائیگا اور کشمیر پر آزادی کا سورج طلوع ہوجائیگا لیکن ہمارے علاوہ کوئی اسلامی ملک اس پل کو اپنے لئے بنانے کے لئے تیار نہیں اور یہ جو آج نیم غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے آنے والے نسلے ہمیشہ کے لئے مکمل طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکھڑے گی اور ان سے یہ پل پھر اس حد تک دور جائیگا کہ پھر خون سے بھی نہیں بنےگا،باباجی کی باتوں میں ایک عجیب درد بھی تھا مگر ایک تلخ حقیقت بھی تھی، لیکن اس وقت میں نے بابا کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ سارے ممالک غلام ہے اور بابا سے اختلاف کرتے ہوئے بولا بابا باقی اسلامی ممالک تو آزاد ہے بابا نے ہستے ہوئے صرف یہ بولا آپ سمجھ جاوگے کہ باقی آزاد ہے یا غلام اور ناشتہ کرتےہوئے بابا چلا گیا مگر مجھے ایک عجیب سوچ میں چھوڑ گیا اور ایک ایسے سوچ میں جس کا جواب مجھے کہی نہیں مل رہا تھا اور بالآخر مجھے وہ جواب تب ملا جب نریندررمودی دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر گئے اور اسلامی دنیا کے سب سے مضبوط معاشی ممالک کے حکومتوں نے اس کشمیری ماوں بہنوں کے عزتوں کو لوٹنے والے، ان کے قاتل اور زمانہ وقت کے سب سے بڑے ظالم اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے کو ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا تو مجھے جواب مل ہی گیا کہ ہاں واقعی سارے اسلامی ممالک غلام ہی ہیں ۔۔

Abdul Sami
About the Author: Abdul Sami Read More Articles by Abdul Sami: 8 Articles with 6068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.