مجرم کون ؟

بابری مسجد کو منہدم کرنے والے قصورواروں کے تعلق سے آج لکھنو میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے اس فیصلے میںتمام ملزمان کو عدالت نے بری کردیا ہے،لیکن سوال پھر سے یہی اٹھ رہا ہے کہ آخر مجرم کون ہے؟۔ کیونکہ اس مقدمے میں ملوث تمام ملزمان کو عدالت نے با عزت بری کردیا ہے اورجن شرپسندوں کے تعلق سے ہندوستان کی تاریخ میں بدنما داغ پیدا کیا تھا انہیںیہ کہہ کر رہا کیا ہے کہ یہ لیڈران بابری مسجد کو منہدم ہونے سے روکنے کی کوشش کررہے تھے ، سی بی آئی نے انہیں خومخوا ہ اس معاملے میں ملزم ٹہرایا ہے۔ سی بی آئی کی جانب سے جو ثبوت عدالت میں پیش کئے گیے ہیں وہ ناکافی ہیں جو بھڑکائو تقریر مسجد کے انہدام سے قبل دی گئی تھی وہ تقریر صاف نہیں ہے۔ اس لئے اس معاملے میں تمام ملزم لیڈروں کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ پورے 28 سال بعدعدالت نے ملزمین کو بری کرتے ہوئے انصاف کا حق تو ادا نہیں کیا البتہ پھر سے ثابت کردیا ہے کہ اب عدالتیں بھی ہمیشہ کیلئے آنکھ بند کرکے فیصلے سنارہی ہیں۔ ایک طرف سنجیو بھٹ، صفورہ زرگر، آنند تیلتومڑے، عمر خالید جیسے لوگ بے گناہ ہوکر بھی جیلوں میں اپنی زندگیاں گذاررہے ہیں ، وہیں اقتدار کے آڑ میں حقیقی ملزمان بے گناہ ہوکر باہر نکل رہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ بابری مسجد کو شہید کرنے اوروہاں رام مندر بنانے کیلئے ایل کے اڈوانی جیسے لیڈروں نے ہی ملک بھر کا دورہ کیا تھا۔ ملک کی عوام کو ورغلایا تھاکہ بابر کی بنائی ہوئی مسجد کو ہم توڑ دیںگے، اسکے بعد 1992 تک اس تعلق سے کئی جلسے کئے گئے ان تمام جلسوں میں ایک ہی رٹ لگائی گئی تھی کہ بابری مسجد کو توڑنا ہے اورہر حال میں توڑنا ہے، باوجود اسکے اب عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ ان لوگوں کو مسجد کے انہدام میں ملزم ٹہرایا نہیں جاسکتا ۔ اس میں زیادہ حیرت بھی نہیں ہوگی کیونکہ پہلے بھی عدالتیں ایسے فیصلے دے چکی ہیں۔ جس بابری مسجد کے مسجد ہونے اورمندر نہ ہونے کے ثبوت دئے جاچکے ہیں اس بابری مسجد کی زمین کو ہی مسلمانوں سے چھین کر سنگیوں کے حوالے کردیا گیا ہے تو اب ان سے کیا امید رکھی جائے کہ یہ لوگ ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر مسجد کے انہدام میں شرکت کرنے والے ملزمان کو سزادیںگے۔ عدالتوں کے پاس ثبوت ہونے چاہئےلیکن ہم نے تو فلموں میں اورکتابوں میں یہ دیکھا ہے کہ ثبوتوں کی باریک کی سوئی بھی ملزم کو مجرم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے لیکن یہاں ثبوت کے انبار لگائے جانے کے باوجود بھی عدالتیں ملزموں کو بے قصور قرار دے کر رہا کررہی ہے۔ افسوس صد افسوس اور افسوس کہ ملک کا عدالتی نظام بھی دیمک کھانے لگا ہے۔ یہ اوربات ہے کہ ان ملزمان کے خلا ف کارروائی کرنے کیلئے اب اعلیٰ عدالتوں کا رخ کیا جاسکتا ہے لیکن وہاں سے انصاف ملے اسکی کوئی امید نہیں کیونکہ ہم نے فیض آباد کورٹ سے آلہ باد کورٹ اورآلہ آباد کورٹ سے سپریم کورٹ تک بھی دیکھ لیا ہے کہ انصاف کیسے کیسے رنگ بدلتا ہےاورکیسے کیسے فیصلے سناتا ہے۔ ہندوستان کی جانچ ایجنسیاں بھی اس وقت کٹھ گھڑے میں ہیں انہوں نے 28 سال تک تحقیق کی ان ثبوتوں کو اکھٹا کیا وہ تمام ثبوت اورگواہ آخر کیوں بے کار ثابت ہوئے۔ سی بی آئی جیسی جانچ ایجنسی جس نے لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے بعد ملزمان کو مجرم ٹہرانے کیلئےعدالت میں جو ثبوت پیش کئے تھے وہ تمام ثبوت کھوکھلے ثابت ہوئےاوران پر یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ ہماری جانچ ایجنسی کے پاس اتنی بھی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف پختہ ثبوت پیش کریں، ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ وہی قاتل وہی منصف، عدالت اسکی وہ شاہد ۔۔۔ اب مسلمانوں کو عدالتوں سے بھی زیادہ امید لگانے کی ضرورت نہیں بس احتیاط برتیں اوراپنے اوقاف کی خود حفاظت کریں ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.