پروپیگنڈہ توڑ: وقت کی ضرورت

تحریر: مراد مقصود

قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک ہم نے بڑا ہی کٹھن سفر طے کیا ہے۔ بلاشبہ خدا ئے لم یزل کا فضل اورکرم ہی ہے جو مصیبتوں کے سیلاب اور اپنے جگر گوشوں کے خون سے وطن عزیزکی سرحدوں کی آبیاری کے لیے یقین محکم اور عمل پیہم کے ہتھیاروںسے لیس دہشتگردوں کے خلاف نا صرف کمر بستہ ہیںبلکہ آج ہم دنیاکی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی جوہری قوت، اقوام عالم میں اپنے محل وقوع، جغرافیائی اہمیت اور فوجی قوت کے حوالے سے ممتاز مقام بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ایبٹ آباد میں امریکہ کی سپیشل فورسز کی جانب سے خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت دہشتگردی کی جنگ میں بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان مخالف عناصر بشمول امریکہ اور ہندوستان نے اس واقعہ کو ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعدمغربی دنیا کی جانب سے ہمارے مثبت اقدامات کا اعتراف کم اور ڈومور کا تقاضا زیادہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔اوردوسری طرف پاکستان میں منفی ردِعمل بھی سامنے آیاہے،کیونکہ پاکستان کے عوام نے محسوس کیا ہے کہ ان کے وطن عزیز کی خود مختاری کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی اور اسکی حاکمیت اعلیٰ کو پامال کیا گیا۔ پاکستانیوں کو اس بات کا ملال بھی ہے کہ پوری دنیامیںپاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میںجس قدر نقصانات اٹھائے اور قربانیاں دیں ہیں، دنیا نے انہیں فوراً ہی بھلا دیاہے۔چار سدہ میں ایف سی سنٹر میںخودکش دھماکہ، پی این ایس مہران بیس حملہ اور ہنگوخودکش دھماکہ جنہیں اسامہ ہلاکت کے جواب میں مزاحمت یا جوابی کاروائیاں بھی کہہ سکتے ہیں دنیا ہماری ان موجودہ اور ماضی کی بے تحاشہ قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

امریکی اوربھارتی میڈیا نے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کے ذریعے ہمارے جوہری اثاثوں، پاک فوج اور اس کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو نشانہ بنایاہوا ہے۔ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ہلاکت پر اپنے پرانے مؤقف کو دہرا رہے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ” اسامہ پاکستان میں ہی قیام پذیر ہے ۔القاعدہ کے رہنما کا پاکستان میں موجودگی سے یہ ظاہرہوتاہے کہ پاکستانی جوہری تنصیبات کس قدر غیر محفوظ اور انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتیں ہیں۔“ہندوستان اس واقعہ سے مزیدفائد حاصل کرتے ہوئے حکومت پاکستان، آئی ایس آئی اورپاک فوج پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ ممبئی حملوں میں یا تو ملوث تھے یا انہوں نے دہشتگردوں کی پشت پناہی کی تھی۔ساتھ ہی امریکہ جو پاکستان کا نام نہاد اتحادی ہے ، اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر تکبر اور گھمنڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کیاہوئے ہے۔ مزید براں امریکی سیاسی اور فوجی قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیاہواہے کہ مستقبل میں اگر پاکستان میں ایسے بڑے ہدف کا پتہ چلا تو پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر کمانڈو آپریشن کریں گے۔ امریکی قیادت اور میڈیا ان سوالات کے جوابات مانگ رہا ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان اتنا عرصہ کیسے رہائش پذیررہا؟پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتّحادی ہے ،اور ہم اس جنگ میں اپنے حصّے کی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں حصہ بننے کے بعد خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنوںمیں ہزاروں پاکستانیوں کی ہلاکت سے پہلے ہی پاکستانی عوام امریکہ مخالف جذبات رکھتے ہیں۔دہشتگردی کی جنگ میں بھرپورتعاون کی فراہمی کے باوجود پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کوبدنام کرنا سراسر زیادتی اورناانصافی ہے۔

ریمنڈڈیوس کیس ،ڈرون حملوں اورپاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کے بارے گمراہ کن اور مایوس کن میڈیا رپورٹس کی اشاعت سے ناصرف پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں بلکہ پاک امریکہ تعلقات میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوا ،جو اب اسامہ کی ہلاکت سے مزید عیاں ہو گیا،اور یہ لگتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات انتہائی نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم پاک امریکہ تعلقات پر نظر ثانی کریں اور بین الاقوامی پروپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیں ۔فوجی قیادت کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بریفینگ کے بعد پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیّت ،اس کے خدوخال کا تعیّن اور واضح پالیسی مرتّب کرے۔اس ضمن میں قومی سیاسی قیادت کی جانب سے جامع اُصول و ضوابط اور صحیح سمت کا تعین ہونا چاہیے جن پر عمل پیرا ہو کر پاک فوج قومی مفادات کے تحفّظ کو یقینی بنا سکے۔ہم سب کی خصوصاًقومی ذرائع ابلا غ کی ذ مہ داری ہے کہ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قومی اتّحاد اور اتفاق کی ضرورت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی جائے۔ اہم قومی معاملات میںسیاسی و عوامی شخصیات اپنے ذاتی، فروعی جھگڑوں اور متفرق مؤقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مؤقف کی حمایت کرےں،تاکہ پاکستان دشمن عناصر کو یہ باور کرایا جاسکے کہ پوری قوم پاک فوج اور خفیہ اداروںجو پاکستان کے قومی مفادات کے نگران ہیں، کی پُشت پر کھڑی ہے۔اس امر کی ترویج کی جائے کہ سیاسی قیادت اور اسٹبلشمنٹ بشمول پاک فوج، قومی مفادات کے تحفّظ کے لیے ہم قدم اور ہم آواز ہیں۔ہمیں دنیا کو واضح طور پر بتا دینا چاہیے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت ہماری سب سے اوّلین ترجیح ہے اورہم اس سلسلے میں کسی قسم کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کریں گے۔کسی ایک واقعے کی بنیاد پر (اُسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور قتل ) پاکستان کی بیش بہاقربانیوں اور نقصانات کو، جو اس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اُٹھائے ہیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کا ادراک ہے کہ وطن عزیز کی بقاءخطرات میں گھری ہوئی ہے اسلئے متفقہ طور پر ایک قومی رائے کو دنیا کے کانوں تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔یہ ایسا وقت ہے کہ خطے کی تمام دشمن طاقتوں نے ہمارا محاصرہ کرلیا ہے اورہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ، سیاستدان ، مذہبی جماعتیں، دینی مدارس آپس کی رنجشیں بھلاکر،ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اور یکجا ہو کراسلام اور پاکستان دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے حکومت ،پاک فوج اور خفیہ اداروں کو اپنے بھرپور تعاون کا احساس دلائیں۔متحد ہو کر اسے سیاسی اور معاشی طور پر اتنا مضبوط بنائیں کہ کسی کو ہمارا حق مارنے کی جرات ہو نہ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ پائے۔

پاکستان کوجغرافیائی اور تزویراتی چیلنجوںسے نمٹنے کے علاوہ اس وقت سنگین اقتصادی مسائل بھی درپیش ہیں جن میں سُست اقتصادی نمواورافراطِ زر کی بلند شرح شامل ہیں۔جہاں ہمہ گیر مشکلات پر قابوپانے کے لیے دوست ممالک سے اخلاقی اور اقتصادی تعاون کی درخواست کی جائے وہاں انہیں اصل حقائق سے آگاہ کرکے پاکستان مخالف منفی پروپیگنڈے کے توڑ کے سلسلے میںتعاون بھی طلب کیا جائے ۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 17 Articles with 16900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.