مغربی بنگال میں اردو کو
دوسری سرکاری زبان کا درجہ د ئے جانے کے وزیر اعلا ممتا بنرجی کے فیصلے
کا اردو دوستوں نے وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ
سنہ 1971ءمیں تحریک بنگلہ دیش کے دوران پورے بنگال میں اردو سے اجتناب
کی جو رو چل پڑی تھی اورپھرمذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے
تئیں بائیں بازو سرکار کی غیر عادلانہ روش کی بدولت ریاست میں اردوکو
جن مشکلات کا سامنا رہا، ان کی تلافی کی صورت نکلے گی۔ ایک ایسی ریاست
میں جس کو اردو کے پہلے اخبار(جام جہاں نما، مدیر منشی سکھ لال،سنہ1822
)کے اجراءکا شرف حاصل ہے، اس میں ناقص سرکاری پالیسی کی وجہ سے کئی
اخبارات و رسائل کا بند ہوجانابڑا افسوسناک ہے۔اقتدار کی تبدیلی کے دس
دن کے اندر لسانی اقلیتوں کے جائز حقوق کی بحالی کےلئے ممتا بنرجی کی
یہ فکر مندی مستحق مبارکبادہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت انتظامیہ کو
کس طرح ڈھب پر لاتی ہے کہ سرکاری فیصلوں کا اطلاق تندہی سے ہوسکے۔وزیر
اعلا اور ان کے مربی اس چیلنچ سے بیخبر نہیں کہ ضوابط و قواعد کے نام
پرانتظامیہ ایسی مشکلات کھڑی کردیتا ہے کہ سرکاری اسکیمیں نفاذ کے
مرحلہ تک پہنچتے پہنچے دم توڑ جاتی ہیں اور ان کا فیض ان کے اہداف تک
نہیں پہنچ پاتا۔
اردوکو کئی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جاچکاہے لیکن
صورتحال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔گنگا جمنی تہذیت کی پروردہ یہ
زبان اپنی سیکولر حیثیت سے دن بدن محروم ہوتی جارہی ہے اوراس کا دائرہ
ایک مذہبی اقلیت تک محدود ہوتا جارہا ہے۔ ہندستان کی دھرتی نے اب
دتاریہ کیفی ،مالک رام،جگن ناتھ آزاد، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کشن
چندر ،اوپندر ناتھ اشک ،رتن ناتھ سرشار، پریم چند،زار،خارو گلزار ،نارنگ
اور نولکشورجیسے صاحبان کمال پیدا کرنے بند کر دئے ہیں۔چنانچہ ہماری
نظر میں اردو کی باز یابی یہ نہیں کہ وہ ایک لسانی و مذہبی اقلیت کی
زبان کے طور پرباقی رہے بلکہ یہ ہے کہ وہ ویسے ہی ہندوﺅں، مسلمانوں اور
سکھوں کی لبوںپر سجی ہوئی اوران کے روزمرہ میں رواں دواں نظر آئے جیسے
سابق میں تھی۔ ممتابنرجی کی رہنمائی اگر ٹھیک سے کی گئی تو ایک قومی
زبان کی حیثیت سے اردو کے احیاءنو کا یہ سہرہ کلکتہ کے سر بند ھ سکتا
ہے اورفورٹ ولیم کالج کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ ہوسکتی ہے۔
ممتا بنرجی کی پہچان یہ ہے کہ وہ دھن کی پکی اورزبان کی سچی ہیں۔ اس
لئے امید ہے کہ ان کی سرکار کی روش یوپی،بہار، اندھرا پردیش ، اترانچل
اور دہلی کی سرکاروں سے مختلف ہوگی اور ان کا یہ اعلان محض سیاسی شعبدہ
بازی نہیں رہیگا بلکہ اس کا موثر طور سے اطلاق بھی ہوگا ۔یہ گمان بے
بنیادبھی نہیں ہے۔دیگر ریاستوں میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ دینے کا
اعلان ایسے حالات میں کیا گیا تھا جب حکمراں پارٹی عوامی مقبولیت سے
محروم ہوچکی تھیں اور اپنی بقا کےلئے مسلم ووٹ بنک کو رجھانے کی فکر
لاحق تھی۔ مثلاً بہار میں جب بھاگل پور مسلم کش فسادات(اکتوبر1989) کے
نتیجہ میں حکمرانوں کے پیروں کی زمین کھسک گئی تب وزیر اعلا ڈاکٹرجگن
ناتھ مشرا کو دور کی سوجھی اور انہوں نے 15 ایسے اضلاع میں جن میں مسلم
رائے دہندگان فیصلہ کن پوزیشن میں تھے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ
دینے کا اعلان کردیا۔ اسی طرح اتر پردیش میں جب پوجا کےلئے بابری مسجد
کا تالا کھلوانے اور پھرشلانیاس کرانے کی بدولت حکمراں جماعت مشکل میں
پڑ گئی تو1989میں نارائن دت تواری حکومت نے بہار کے طرز پراردو کو
سرکاری زبان بنانے کاپرفریب فرمان جاری کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی
تھی ریاست کی لسانی اقلیت کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیاگیا ہے تاکہ وہ
اجودھیا کے زخم کو بھول جائیں۔چنانچہ 1989میںیوپی اور بہارمیں اور2005
میں دہلی کے رائے دہندگان کو مغالطہ میں مبتلا کرنے کی سیاسی چال چلی
گئی اور محبان اردویہ سمجھ بیٹھے کہ اب تعلیم اور سرکاری کام کاج میں
اردو کو وہی سہولت اور وہی حیثیت حاصل ہوجائیگی جو سرکاری زبان کی ہوتی
ہے۔خداکرے مغربی بنگال میں ایسا نہ ہو۔ راج بھاشا ایکٹ میں کسی ناقص
ترمیم یاکسی ادھوری تدبیر سے اردو کی قسمت جاگ نہیں جائیگی۔سارا
دارومدار اس بات پر ہوگا کہ قانون میں اس بات کی کتنی گنجائش پیدا کی
جاتی ہے کہ اردوکا معاملہ سرکاری زبان کی طرح روزی روٹی سے جڑے ، اس کو
سرکاری زبان کی ہم جولی کا درجہ ملے اوراس کا استعمال چند اضلاع میں
گنتی کے چندکاموں تک محدود نہ رہے۔
سردست بہار اور یوپی میں جو ایکٹ نافذ ہیں ان کی رو سے صرف سات کاموں
کےلئے اردو کے استعمال کی منظوری دی گئی، جو اسطرح ہیں۔ حکام اردو
میںدرخواستیں منظور کریں گے اور ان کے جواب بھی اردو میں ہی دیں گے؛
رجسٹرار آفس اردو دستاویزات کو منظور کریگا؛ اہم سرکاری قواعد ، ضوابط
اورنوٹس اردو میں بھی شائع ہونگے؛عوامی اہمیت کے سرکاری احکامات،
اعلانات اور سرکلراردو میںبھی شائع ہونگے؛اہم سرکاری اشتہارات اردو میں
بھی شائع ہونگی؛ گزٹ کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوگا اور اہم دفاتر پر
تختیاں اور بورڈ اردو میں بھی ہونگے۔ یہ قانون کس قدر ناقص ہے ، اس کا
اندازہ اردو ڈولپمنٹ آرگنائزیشن کی رٹ پٹیشن (جنوری ۶۰۰۲) پر الہ آباد
ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہوجاتا ہے۔عدالت نے کہہ دیا کہ اس ایکٹ کے تحت
کسی بھی محکمہ کو اردو میں بھی بعض کام کاج کرنے کی ہدایت نہیں دی
جاسکتی۔
قومی راجدھانی دہلی میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ایکٹ منظورہوئے ۶ سال
گزر جانے کے باوجود اردو کی بحالی دور دور تک نظر نہیں آتی۔کسی دفتر
میں اردو کی درخواست لیکر جائیں، بڑی حکمت سے سمجھادیا جاتا ہے کہ اردو
کا اسٹاف نہیں ہے، کام کرانا ہے تو ہندی یا انگریزی میں درخواست لاﺅ۔
اردو اسکولوں میں ٹیچر نہیں ہیں۔پہلے کہا گیا کہ اہل ٹیچر
نہیںملتے۔چنانچہ انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک مہم چلائی اور معہ اسناد
چارسو ایسے اہل امیدواروں کی درخواستیں پیش کردیں جن کو اہلیت کی بنیاد
پر رد نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر ان کو سرد خانے میں ڈالدیا گیا۔ وزیر
تعلیم اور وزیر اعلا کو بار باریاددہانی کے بعد جواب ملاکہ ٹیچرس ایسے
مطلوب ہیں جو سائنس بھی پڑھا سکیں۔ چنانچہ پھر مشقت کی گئی اور کم و
بیش دوسو درخواستیں داخل کرائی گئیں ۔ اس کے باوجود کوئی تقرری نہیں
ہوئی۔گزشتہ سال اعلان کیا گیاکہ126 ٹیچر بھرتی کئے جارہے ہیں، مگر یہ
اعلان بھی ہنوزتشنہ تکمیل ہے۔اردو کی درسی کتابیں دستیاب نہیں۔بعض
اردواسکولوں کے پرنسپل تک غیر اردو داں ہیں۔ دفاتر کا اسٹاف اکثر اردو
سے نابلد ہے۔ظاہر ہے یہ سرکاری زبان کا درجہ دینا نہیں ہوا بلکہ ایک
طبقہ کو سیاسی مغالطہ دینا ہوا۔
بعض ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ صرف ان اضلاع میں
دینے کی منظوری دی گئی ہے جن میں کم از کم 20 فیصد اردو آبادی ہے۔
مغربی بنگال سرکار نے یہ شرح 10فیصدرکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فارمولے
کام مطلب یہ ہوا کہ جن علاقوں میں کسی اقلیت کی آبادی مقررہ تناسب سے
کم ہے، اس کو بالواسطہ طور سے یہ پیغام دیاجارہا ہے کہ اگر وہ نئی نسل
میں اپنی زبان کی بقا چاہتے ہیں توان علاقوں سے نکل کر ایسے علاقے
میںجا بسیں جہاں ان کی آبادی مقررہ تناسب سے زیادہ ہے۔ ہمارے خیال سے
ایسی پالیسیاں ہندستان کے سیکولر تانے بانے کے منافی ہیں جن کی بدولت
لسانی و مذہبی اکائیوں کی حسب منشا کہیں بھی جا بسنے کی حوصلہ شکنی
اورچند مخصوص علاقوںمیں ارتکاز کی حوصلہ افزائی ہو۔یہ ارتکاز دوررس
نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ منطق بھی بعید از فہم ہے کہ اگرکسی
مذہبی یا لسانی اقلیت کی آبادی کسی خطے میں ایک متعین شرح سے کم ہے تو
اس کو اسکی زبان اور کلچر کی حفاظت کے آئینی حق سے محروم کردینا سرکار
کےلئے جائز ہے۔یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ حالیہ مردم شماری میں
ایسی شکایتیںبکثرت موصول ہوئی ہیں کہ جب تحصیل افسران نے ان فارمس کو
جمع کرنے سے انکارکردیا جن میں مادری زبان اردو درج تھی اور فیلڈ عملے
پر دباﺅ ڈالا کہ سب کی مادری زبان ہندی لکھی جائے۔ایسی صورت میں سرکاری
اعداد و شمار پر انحصار کی بدولت ان علاقوں کی لسانی اقلیت کو بھی اس
کے جائز حق سے محروم رہنا ہوگا جہاں اس کی تعداد مقررہ سطح سے زیادہ
ہے۔چنانچہ اس مسئلہ کے ان پہلوﺅں کو پیش نظر رکھ کر ہی قانون سازی ہونی
چاہئے۔
یہ معاملہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ہے کہ حل نہ نکل سکے۔ ہرچندکہ مارچ
2009میں انجمن ترقی ارددو(ہند) مغربی بنگال کی سربراہی میںبعض تنظیموں
نے صرف چارسب ڈویزنز، کلکتہ، آسنسول، گارڈن ریچ اور اسلام پور میں،
جہاں اردو والوں کی آبادی 20 فیصد سے زیادہ ہے، اردو کو سرکاری زبان کا
درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا جس کو ممتا بنرجی نے بلاتامل ترنمول
کانگریس نے منشور میں شامل کرلیا تھا۔ اب انہوں نے از خود ہی اس کا
دائرہ مطلوبہ سے بڑھا دیا ہے اور اعلان کردیا ہے جن اضلاع میں
اردووالوں کی آبادی دس فیصد سے زیادہ ہے ان میں اردو کو دوسری سرکاری
زبان کا درجہ دیا جائے گا۔لیکن مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں اس پر
از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک تجویز جس پر غور کیا جاسکتا ہے یہ ہے کہ جن زبانوں کو ریاستی حکومت
دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہتی ہے ان کو آبادی کے مخصوص ارتکاز
کی شرط کے بغیر یہ درجہ دے اور قانون ایسا بنے جس سے اردو کو معاش سے
جوڑدیا جائے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہوگا کہ ریاست کی پہلی سرکاری زبان
کے ساتھ کسی بھی دوسری سرکاری زبان میں اسناد کواضافی لیاقت قرار دیا
جائے اوراس کا فائدہ نئی بھرتی اور ترقی کے وقت امیدواروں کو پہنچاجائے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا بلا تفریق مذہب و ملت نوجوان نسل اردو کی طرف راغب
ہوگی۔ جس زبان کو وہ سمجھتی ہے ، بولتی ہے اس کارسم الخط سیکھ لینا
دشوار نہیں۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، مولانا آزاد قومی اردو
یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ کے فاصلاتی کورس حصول اسناد میں
معاون ہوسکتے ہیں۔ مخصوص ضرورت کے پیش نظر جامعہ عالیہ یا کسی دیگر
یونیورسٹی یا بورڈ کے تحت کورسز کا اجراءکچھ مشکل نہیں۔
بحیثیت ریلوے وزیرممتا بنرجی نے ہی ریلوے بورڈ کے امتحانات کےلئے جموں
و کشمیر میں اردو ذریعہ امتحان کی منظوری دی تھی۔ ان سے یہ توقع بیجا
نہیں وہ اردو کے فروغ کےلئے انقلابی اقدام سے گریز نہیں کریں گیںجس کی
بدولت ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی پروردہ ’زبان اردو‘ تمام طبقوں اور
فرقوں کے لئے پرکشش ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں مغربی بنگال سے اردو کی
ایک نئی صبح طلوع ہوجائیگی۔ (ختم)
(مضمون نگارآل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر اور فورم فار سول
رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں) |