قانون بے گناہوں کے معاملے میں دبنگ

تعصب کی آگ میں جل رہی یہ انسانیت اپنے انسانی رشتہ کو یکسر فراموش کرچکی ہے ۔ سارے رشتے بھلائے جاسکتے ہیں ۔لیکن انسانی رشتہ باقی رہتا ہے اور جس بنا پر ہی حیوانات کی کیٹگری سے انسان چھٹ جاتا ہے اور انسانیت وحیوانیت کی حد بندی ہوجاتی ہے ۔ لیکن آج جبکہ انسانی رشتہ ہی دفن ہوچکا ہے ،تو پھر مذہب وملت کی رشتہ دار یوں کا کیا مول، قوم وملت کے ناطے توہیں اور اور رہیں گے بھی۔ لیکن یہ انسانی ناطہ ، جس کے ذریعہ انسان بحیثیت انسان پہچانا جاتا ہے ، اور حیوانات میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کرتا ہے ، جب یہی تمیز ختم ہوجائے تو پھر سارے حیوان ہی ہیں ۔ اب نہ کوئی تقسیم ہے اور نہ کوئی امتیاز بس ایک ہی نام ہے ۔ حیوان !

بات کسی مذہب وملت یا قومیت کی نہیں کررہا ہوں، بات یہاں انسانیت کی ہے انسانی بھائی چارہ اور انسانی ہمدردی کی ہے ۔ انسانی روح، انسانی جسم اور انسانی جان کی ہے ، انسانی احساسات وجذبات اور انسانی خیال کی ہے انسانی درد، انسانی غم ، انسانی آنسووں، انسانی سسکیوں اور انسانی آہ وبکا کی ہے ۔ کتنے رشتے شمار کراﺅں کہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے کن کن چیزوں میں رشتہ ہوتا ہے اور ایک انسان کا درد پوری انسانیت کا درد اور ایک انسان کی خوشی پوری انسانیت کی خوشی ہوتی ہے ۔ اسی بات کو قرآن نے دو الفاظ میں بیان کردیا ہے ۔ "جس نے کسی انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی "۔ آیت کے اس مفہوم سے واضح ہوچکا کہ میں کسی قاتل کی پیروی نہیں کررہا ، بلکہ انصاف کی بات کررہا ہوں ، جو مجرم ہیں انہیں سزا ضرور ملنی چاہئے ۔ جو ظالم ہیں انہیں کیفرکردار تک پہنچنا ہی چاہئے۔ لیکن یاد رہے ! انصاف کے ہاتھوں انصاف کا خون نہ ہو، کسی معصوم کی جوانی نہ برباد ہو، کسی مظلوم کی جان تلفی نہ ہو، ماتم ہے ایسی عدلیہ اور قانون سازیہ پر جہاں سب کچھ وقت پر نہیں ہوتا ، یا سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہوتا ، مظلوم کو پھانسی ملتی ہے ، اور ظالم آوارہ بنا پھرتا ہے ۔ دور کیوں جائیے ! سہراب الدین ، کوثر بی اور پر جاپتی کے فرضی انکاﺅ نٹر ز ذہن میں ہیں۔ عاطف کی زندگی بھی بٹلہ ہاﺅ س فرضی انکاﺅنٹر ہی کی نذر ہوگئی۔ کتنے انکاﺅنٹر ز گنواﺅں ، وہ بھی فرضی ، اب اندازہ لگائیے کہ فرضی انکاﺅنٹرز کی کھلی ہوئی تعداد اتنی ہے ، تو پوشیدہ اور بھی کتنے فرضی انکاﺅنٹرز ہوئے ہوں گے ۔ اور میڈیا بھی وہی،جو خبر سنی، سمجھے اور بات کی تہہ میں جائے بغیر اس کو شائع کردیا۔ اللہ بھلا کرے ان صاحبان کا ، جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں اور جنہوں نے انکاﺅنٹرز اور دھماکوں کے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ دھماکے کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کے پس پردہ کونسے عناصر کام کررہے ہیں ؟اور یہ کہ یہ ایک بڑی سوچی سمجھی پلاننگ ہے مسلمانوں کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے اور اسلامی شبیہ کو سماج میں داغدار بنانے کی ، اور اس طرح کی ناپاک کوشش وہی لوگ کرتے ہیں ،جو ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں اور ان کی حقیقت انسانی سماج میں بس ایک ناسور کی ہے، جسے الگ نہ کیا جائے تو اس کا روگ متعدی ہوجائے گا ۔پھر پورا سماج اس کی لپیٹ میں ہوگا۔

ان حقائق کے بعد بھی اب کیا کچھ باقی رہ جاتا ہے کہ گودھرا سانحہ، اجمیر سانحہ،مالیگاﺅں سانحہ اور گجرات سانحہ پر کچھ لکھا جائے، سانحہ ہی سانحہ ہے ، حاد ثات ہی حادثات ہیں ، واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے اور مجرمین کی بھی ایک لمبی قطار ہے ،نریندر مودی ،امت شاہ ، پرگیہ سادھوی، کرنل پروہت، اسیما نند اور سنیل جوشی، ان میں کوئی آزاد ہے کوئی قید ہے ،کسی کو زندگی راس نہ آئی کسی کے اقبالیہ بیانات بھی آئے ، ایک اور چہرہ آدتیہ یوگی کا بھی سامنے آیا ، جو بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ان میں سے ہیں، بہر کیف میری بحث مجرمین کی آزادی اور معصوموں کی سزا سے ہے ، مجرمین کی آزادی سے یہ تو سمجھ میں آرہا ہے کہ عدلیہ انہیں سنبھلنے کا موقع دے رہی ہے ،یا یہی ہندوستان کا آئین ہے، لیکن معصوموں کو سزا یہ بات پڑے نہیں پڑرہی ہے ، اور ابتک یہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ 8ستمبر2008مالیگاﺅں بم دھماکہ کی سزا یہ معصومین ابرار احمد ، فروغ مغدومی اور سلمان فارسی کیوں کاٹ رہے ہیں ؟ کس جرم کی سزا انہیں دی جارہی ہے؟جبکہ اسیما نند کا اقبالیہ بیان آچکا ہے کہ وہ لوگ بے قصور ہیں ، گزشتہ دنوں عدالت کا فیصلہ آنا تھا ، مگر کاروائی پھر ملتوی کردی گئی ، تاریخ پہ تاریخ بڑھائی جارہی ہے ۔آخر کیوں؟ عام انسان جرم کرتا ہے ، زیادتی سے پیش آتا ہے ، بلوا پھیلاتا ہے ، تو سبھوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، اور وہ شخص اپنے کئے کی سزا فوراً پالیتا ہے، لیکن پولیس ، عدالت ،آئین ، قانون، انصاف کسی کو ناحق قید رکھتا ہے ، جھوٹی گواہی اور غلط بنیاد پر کسی کو سزا سناتا ہے اور بے قصور ہونے کا ثبوت ملنے پر بھی اسے قیدوبند کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے ، تو وہ آزاد ہوتا ہے ، اسے سزا نہیں ملتی کیا یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آتا ؟ کیا ہندوستانی آئین بے ہاتھ پاﺅں کا ہو کر رہ گیا ہے ؟کیا اسے اپنے عدالتی فیصلہ میں کسی کے اشارے کی ضرورت ہے ،یا یہ عدالت کی کوتاہی ہے ،یا تعصب کی آگ میں سارے محکمات جل رہے ہیں ؟ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ قانون کے رکھوالوں کے حق گلے کیوں نہیں اتر رہا؟
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58072 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More