ترکی کا بدلتا ہوا نیا کردار

ترکی کا کہنا ہے کہ ”روایتی حکمت“ مشرق کی طرف رخ کررہی ہے۔ پچھلے دو برسوں میں وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو ایک اچھا دوست قرار دیا ہے، جب کہ غزہ جانے والے ترک امدادی قافلے پر حملہ کرنے پر اسرائیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے شام اور عراق سے معاہدے کیے اور سوڈانی صدر عمر البشیر کا ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے دفاع کیا۔ گزشتہ ہفتے وزیرِ خارجہ احمد داتو گلو کی حماس کے رہنما خالد مشعل سے ملاقات اسرائیل میں ناراضی کا سبب بنی۔

امریکی رہنما جو یورپی یونین میں اسرائیل کی مکمل رکنیت کے لیے یورپ پر دباؤ ڈال رہے تھے، اب عوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ میری لینڈ سے ڈیموکریٹ کے رکن کانگریس جان سربینس نے ترکی پر عالمی سیاست میں تلخی پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں امریکی صدر اوباما نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ترکی کو مکمل رکن کی حیثیت سے یورپی یونین کی ٹال مٹول نے صدر اردگان کو مشرقِ وسطیٰ میں دوسرے مسلمان ملکوں بہ شمول ماسکو سے دیگر اتحادوں کے لیے دیکھنے پر مجبور کیا۔ روس سے ترکی نے رواں سال کے آغاز میں گیس پائپ لائنوں کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

حالاں کہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ انقرہ خود کو اسلامی دنیا سے جوڑنے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنے خطے میں سیاست اور اقتصادیات میں خود کو مرکز بنا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ترکی کو یورپی یونین اور امریکا یا مسلم دنیا یا روس کے اتحادی کی حیثیت سے دیکھنا غلط ہوگا۔ تمام اقدامات ایک نئی مضبوط ترکی کی مرکزی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا تعلق جغرافیائی اور اقتصادی حالات پر ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یورپ ترک خارجہ پالیسی کی ٹاپ ترجیح ہے تو یہ واحد ترجیح نہیں۔ ترکی کے اپنے قومی مفادات، سیاسی اور اقتصادی ضروریات ہیں جو اَب پرانے حلیفوں امریکا، نیٹو اور یورپ سے قدرے الگ نظر آتی ہیں۔ انقرہ کی پڑوسیوں سے لڑائی اور چھوٹے چھوٹے اتحاد بنانے کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے احمد داتو گلو کا کہنا تھا کہ طویل عرصہ تک ترکی کو مضبوط بدن، کمزور معدہ، بیمار دل اور کم تر درجہ کے دماغ کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں یورپ میں یورپی اور مشرق میں مشرقی کے طور پر دیکھا جائے، کیوں کہ ہم بہ یک وقت دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یورپ میں انقرہ کے مستقل مفادات کو اس طاقت ور سوچ سے مہمیز ملتی ہے کہ ترکی اب تک خطے کے مضبوط ترین اقتصادی بلاک کا بہترین غیر متحرک پارٹنر ہے۔ ترکی کی ٹیرف فری یورپی یونین میں رکنیت اس کی اقتصادی ترقی کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی اور فرانس کی جانب سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی امید پر مسلسل اوس ڈالنے کے باوجود انقرہ یورپی یونین کے اطمینان کے لیے اصلاحات پر زور دے رہا ہے۔ وہ اپنی معیشت کو یورپی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اردگان ترکی کے موجودہ آئین میں اصلاحات کے لیے منصوبہ بندی کررہے ہیں جسے 1980ءکے فوجی انقلاب کے بعد بنایا گیا تھا۔ اس آئین میں اعلیٰ فوجی افسران اور عدلیہ کو اسکروٹنی اور پراسیکیوشن سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ترک رہنما یہ جانتے ہیں کہ وہ یورپی یونین کے جائزہ امور پر نئے قوانین کے بغیر کام شروع نہیں کرسکتے، جس کے تحت فوجی افسران کو شہری عدالتوں کے سامنے جوابدہ اور اظہارِ رائے کی آزادی فراہم کی جاسکے۔

یورپی یونین کے لیے چیف مذاکرات کار ایگمین باگس کا کہنا ہے کہ آئین میں اصلاحات یقینی طور پر صرف یورپی یونین میں شمولیت کے لیے نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صدر اردگان کی حکمران اے کی پارٹی کے لیے بھی بہت سودمند ہوگی جو کہ پہلے ہی عدلیہ کے اختیارات کے حوالے سے الجھی ہوئی ہے۔ تاہم اس کے محرکات کے برخلاف آئین میں اصلاحات کا فیصلہ ستمبر میں ہونے والے قومی ریفرنڈم میں ہوگا۔ جو کہ ترکی کو یورپ کے قریب لانے کا باعث ہوگا، خواہ یورپی یونین ایسا چاہتی ہو کہ نہیں۔

یورپی یونین میں شمولیت سب سے اہم مقصد ہے تاہم، تاہم انقرہ اپنے اقتصادی مفادات کے لیے ہر طرف دیکھ رہا ہے۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور دُور دراز کے ممالک میں بھی کاروباری مواقع تلاش کیے جارہے ہیں۔ 2008ءمیں پہلی بار اُس کی برآمدات یورپ کے لیے 50 فیصد سے بھی کم تھیں، جب کہ یورپ سے درآمدات 40 فیصد سے بھی کم ہوگئیں۔ اسی عرصہ کے دوران کنسٹرکشن اور مینوفیکچرنگ کمپنیاں جن میں سے بیشتر کا تعلق مشرقی ترکی سے ہے ”اناطولیہ ٹائیگرز“ کی حیثیت حاصل کرگئی ہیں، جن کی بیشتر تجارت وسطی ایشیا، کاکیشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے ہوئی۔

1.6 ارب ڈالر سے زائد ٹرن اوور کی حامل سیمبلی کنسٹرکشن آستانہ، قازقستان میں ایک یونیورسٹی، ایک اسپورٹس اسٹیڈیم، ایک کنونشن سینٹر اور ایک اوپیرا ہاؤس تعمیر کیا ہے، جہاں ترک فرمس کنسٹرکشن کا 60 فیصد بزنس کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکش ٹی اے وی کنسٹرکشن نے دوہا، قاہرہ اور جارجیا میں بتومی ایئرپورٹس کھول دیے ہیں۔ استقبالی جیسی فرنیچر کمپنیوں اور ڈی فیکٹر جیسی ملبوسات بنانے والی کمپنیوں نے گزشتہ سال عراق کے لیے 5.8 ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔ 2009ءمیں ایران سے تجارت 10 ارب ڈالر ہوگئی جب کہ انقرہ کو توقع ہے کہ یہ حجم بڑھ کر جلد ہی 30 ارب ڈالر ہوجائے گا۔ انقرہ کو ایران کی جنوبی ہارس فیلڈ سے ترکی کے راستے یورپ نئی قدرتی گیس کی پائپ لائن کی جلد تعمیر کی توقع ہے۔ اس امر پر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ انقرہ ایران کے خلاف پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا، اس کے برخلاف وہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی انتہائی کوشش کررہا ہے۔

انقرہ کے مشرق سے رابطوں میں اضافہ کی ایک وجہ دہشت گردی ہے۔ ترکی کے پڑوسی ممالک مثلاً شام، عراق اور ایران میں اُسے علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) باغیوں کا سامنا ہے جنہوں تینوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں اڈے بنا رکھے ہیں۔ ترک فوج شمالی عراق میں واشنگٹن کے تعاون سے پی کے کے اڈوں پر تین سال تک بمباری کرتی رہی۔ اب پی کے کے نے آخری حربے کے طور پر شہری علاقوں میں دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ حال ہی میں استنبول میں بم دھماکہ میں 6 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پی کے کے نے پانچ ماہ کے دوران اچانک حملوں میں 59 ترک فوجی ہلاک کردیے اور سیاحتی مرکز پر حملوں کی دھمکی دی۔ دہشت گردی کے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یہ واضح ہے کہ ترکی کو ایران کے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ پی کے کے دہشت گردوں کو محفوظ جنت فراہم نہ ہوسکے۔ اس ضمن میں اسے شام اور عراق کا تعاون بھی درکار ہے۔ انقرہ نے حال ہی میں دمشق سے ویزہ فری سفر کا معاہدہ کیا ہے۔ وزارتی سطح پر بغداد سے ہر ماہ سیکورٹی اور ٹریڈ کے سلسلے میں اجلاس ہوتے ہیں۔ دونوں معاہدوں کے ذریعے ترک کمپنیوں کو سپر مارکیٹوں، آئل ریفائنریز، بس اسٹیشنز اور موبائل فون نیٹ ورکس کے قیام کا موقع حاصل ہوا ہے۔

موجودہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی آج زیادہ آزادانہ کردا ادا کرتے ہوئے عالمی سطح پر اہم کردار ادا کررہا ہے۔ وہ خطے میں ایک مضبوط سیاسی اور اقتصادی قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ ترکی نے مغرب اور مشرق کے لیے ایک زیادہ جامع و آزادانہ پالیسی مرتب کی ہے جس پر وہ کامیابی سے عمل پیرا ہے۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77831 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More